صحافیوں کی کہانی ایک میڈیا ورکر کی زبانی


چھٹی کا دن ہم میڈیا والوں کے لیے عید سے کم دن نہیں ہوتا پورے ہفتے ملک و قوم کی فکر، اورچنتا کی وجہ سے ایک عجیب ذہنی اذیت رہتی ہے اور اوپر سے کبھی گلی محلے، شاپنگ سینٹر یا اسپتال میں دوست احباب سے ملاقات ہوجائے تو وہ بھی ہم سے صرف سیاست اور سیاستدانوں کے موضوع پر ہی بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ جیسے نواز شریف کو رہائی ملے گی یا نہیں؟ عمران خان تبدیلی لاپائیں گے یا نہیں؟ کیا عمران خان اچھے وزیر اعظم ہیں؟ سابق چیف جسٹس آج کل کہاں ہیں؟ کچھ بولتے کیوں نہیں؟ ڈیم کب تک بن جائے گا؟ انڈیا پاکستان کی جنگ ہونے والی ہے نا؟ سنی لیونی واقعی اتنی خوبصورت ہے یا صرف ویڈیو میں لگتی ہے؟ اس طرح کے لاتعداد سوالوں کا سوالنامہ ہم صحافیوں کے لیے لوگوں کے پاس تیار ہوتا ہے۔ اب ہم ان کو کیا بتائیں کہ نواز شریف کو رہائی ملے گی یا نہیں بس یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ کون کسی کو باندھ سکا صیاد تو ایک دیوانہ ہے توڑ کے پنجرا ایک نا ایک دن پنچھی کو اڑ جانا ہے۔

عمران خان اچھے وزیر اعظم ہیں یا نہیں اس کا جواب تو عوام ہی دے سکتے ہیں کیونکہ عوام نے ہی انہیں منتخب کیا ہے اور رہی بات تبدیلی کی تو یہ معاملہ زیر غور ہے۔ سابق چیف جسٹس آج کل کہاں ہیں؟ کچھ بولتے کیوں نہیں؟ تو بھائی میرے اب بولنے کو بچا ہی کیا ہے بول چکے جتنا بولنا تھا اب ان کے آرام کے دن ہیں۔ رہی بات ڈیم کی تو امید پر دنیا قائم ہے دعا کریں۔ دعا سے تو تقدیر بدل سکتی ڈیم بھی بن جائے گا۔ سنی لیونی کی خوبصورتی کی میں کیابات کروں اس کاچرچا کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔

خیر یہ تو تھی ملکی سیاسی باتیں ایک بات (جو اب ہمیں طعنہ لگتی ہے بلکہ تیر کی طرح لگتی ہے ) وہ یہ ہے کہ ہاں بھئی میڈیا میں ہوں بڑے مزے ہیں۔ بڑے ٹھاٹ باٹ ہیں۔ روز نئے لوگوں سے ملنا۔ میڈیاوالوں کی تو بڑی کمائی ہے۔ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑہائی میں ہے۔ ۔ (وہ ہم ہی جانتے ہیں کہ کڑھائی کھولتی ہوئی ہے ) عیش ہیں بھئی۔ تم تو لیٹ آتے ہوں نا یقیناً اور ٹائم بھی ملتاہوگا؟ بونس بھی خوب ہوگا۔ یار مزے ہیں ہمیں بھی لگوا دو نا کرنا کیا ہوتا ہے؟ مائیک پکڑ کر لوگوں سے بات کرو یا خبر بناؤ یہ تو ہم بھی کر لیں گے۔ اور مشہور ہوجائیں گے بس ٹائپنگ سیکھنا ہو گی وہ ہم سیکھ لیں گے۔

ہمارے عوام واقعی معصوم ہیں بنا سوچے سمجھے کیا کچھ بول جاتے ہیں۔ یہ میڈیا ہے میڈیا کوئی بینک، اسکول، سرکاری ادارہ یا ملٹی نیشنل کمپنی نہیں جہاں مقررہ وقت اور تاریخ پر تنخواہ ملازمین کے ہاتھ میں آجاتی ہو یہ میڈیا ہے اس کے دور کے ڈھول سہانے ہیں، یہ ہاتھی کے وہ ہی دانت ہیں جو کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں۔

لوگوں نے ایک مائنڈ سیٹ کیا ہوا ہے کہ بندہ میڈیا میں ہے تو نوٹوں میں کھیل رہا ہے تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے اس وقت میڈیا ورکرز کا کوئی پرُسان ِحال نہیں ہے۔ کچھ چینلز نے اپنے ملازمین کو تین ماہ سے تو کچھ نے چھ ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی ہے۔ روز کل، پرسوں یا اگلے ہفتے پر ٹالاجا رہا ہے۔ میڈیا ورکرز پر اس وقت کیا بیت رہی ہے وہ کس طرح سے گزارا کر رہے ہیں وہ ہی جانتے ہیں یا ان کے ساتھی۔

گزشتہ ہفتے کی بات ہے پاکستان کے ایک مشہور چینل کے ورکرز نے 3 ماہ کی تنخواہ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے احتجاجاً کام روکنے کا عندیہ دیا۔ یہ بات ان کے ہیڈ نے اعلیٰ حکام تک پہنچا دی جس پر انہوں نے کہا ٹھیک ہے تم کام روکو ہم تمہیں فارغ کردیں۔ یہ بات ملازمین پر بجلی بن کر گری۔ کیونکہ یہ سب جانتے ہیں نوکری ملنی آسان نہیں۔ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے اور دوسری جانب سینئرز کا کہنا ہے کہ ابھی جو جہاں ہے وہ وہیں جما رہے کیونکہ حالات بہت خراب ہیں۔

ادارے کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ تو ادارہ اُن کے بارے میں تو سوچے جنہیں تین تین یا چھ چھ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ جنہیں نہ ہی اب کوئی ادھار دینے کو تیار ہے اور نہ ہی آسرا۔ گیس اور بجلی کے ہزاروں کے بل۔ ضروریات ِ زندگی کا سامان۔ بچوں کی فیس۔ بیماروں کا علاج معالجہ۔ گھر کا راشن یہ سب کہاں سے آئے گا؟ کون دے گا روز روز پیسے ادھار؟ کب تک دکاندار کل کل پر گھر کا سودا دے گا؟ یاد رہے کہ پیٹرول پمپ پر اور ڈاکٹر کے پاس ادھاری نہیں چلتی۔

دوسری جانب ایک تلوار ”نوکری سے برطرفی“ کی ہے جو میڈیا ورکرز کے سر پر لٹکی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسا سنگین معاملہ ہے جس کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس طرح بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا دوسرا بے روزگاری جرائم کی جڑ ہے۔ جب لوگوں کو کام نہیں ملتا تب ہی وہ سیاہ اور سفید کے فرق سے بالاتر ہو کر اپنے اہل وعیال کا پیٹ بھرنے کے لیے کام کی تلاش کرتے ہیں۔ کیوں کے یہ وہ دوزخ ہے جیسے تین ٹائم بھرنا ضروری ہے۔

میری وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے گزارش ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر اس مسلے کا حال نکالا جائے کیونکہ حضرت رسول اکرمﷺنے ارشاد فرمایا کہ ”مزدور کو مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو“ (ابن ماجہ) ۔ مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ مزدورں کا خون تک چوس لیا جاتا ہے اور اگر وہ اپنا حق مانگنے کے لیے احتجاج کی بات کریں تو انہیں دروازہ دکھا دیا جاتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہر سال یونیورسٹیز سے ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار نکلتے ہیں، ایک ویکینسی پر 100 درخواستیں موصول ہوتی ہیں، ادارے کو ضرورت نہیں ہے کسی کی۔

مگر یہاں یہ بات واضح کرتی چلوں ہمیں ضرورت ہے روزگار کی ہم اس شعبے سے مخلص ہیں اور محبت کرتے ہیں اپنے کام سے۔ ہمیں عوام کے حق کے لیے آواز اٹھانا۔ عوام کی آواز بننا اچھا لگتا ہے۔ ہمیں اپنا گھر چلانا ہے اب اور ادھارا نہیں لینا کیونکہ ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں بھیک نہیں۔ اس وقت ہر میڈیا ورکر کی یہ ہی آواز ہے کہ بھلے سیلری نہیں بڑھاؤ، مگر جو ہے وہ تو ٹائم پر دو تاکہ ہماری ضروریات پوری ہوسکیں۔ ہمارے گھروں کا چولہا جلے۔ کیونکہ جن کے گھر کے چولہے نہیں جلتے ان کے کلیجے جلتے ہیں اور جب کلیجے جلتے ہیں تو آہ دل سے نکلتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).