ایک تھی حمیرا


دراصل جب ہم بات کرتے ہیں مسائل اور ان کے حل کی تو مسائل کے شکار افراد انتہائی نچلی سطح کے وہ افراد یا گھرانے ہوتے ہیں جو معاشی لحاظ سے بہت کمزور ہوتے ہیں۔ لیکن جب ان مسائل کے حل کے لئے سیمنارز اور مختلف پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں تو ان افراد کا تعلق اس طبقے سے ہوتا ہے یا اس کمیونٹی سے ہوتا ہے جو بہت اور پاور فل اور سماجی طور پر فعال رہنے والے ہوتے ہیں۔ آپ بتائیں وہ کیسے جان سکتے ہیں ان مسائل کا حل جو دو وقت کی روٹی کے لئے محنت مشقت کرنے کے تجربے سے ہی ناواقف ہوں۔

جن افراد کی دسترس میں سب کچھ ہے وہ بیٹھ کر ان مسائل کی بات کرتے ہیں اپنے ہی جیسے دوسرے لوگوں سے۔ خیر یہ بھی ایک المیہ ہے کہ معاشرہ درستگی کی سمت میں پروان چڑھنے سے کیوں گریزاں ہے۔ پاکستان میں کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پر لوگوں کو ابھی تک یہی نہیں معلوم کہ ان کے ایک دوسرے کے لئے کیا حقوق اور فرائض ہیں۔ ڈگریوں اور کتابی کہانیوں سے ان کا تو دور دور تک کیا واسطہ ہونا ہے۔ انہیں تو والدین، اولاد، بہن بھائی، اور میاں بیوی کے رشتوں میں بھی تمیز نہیں اور نا یہ شعور ہے کہ ایک کا دوسرے پر کیا حق ہے۔

بس آ بیل مجھے مار۔ یا جس کی بھینس اس کی لاٹھی۔ حمیرا خیبرپختون خواہ کے ایک ایسے ہی دیہات سے تعلق رکھتی تھی۔ جہاں اولاد پیدا کرکے ان سے من چاہا کوئی بھی کام کروانا والدین اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہر جگہ ہر ملک ہر شہر ہر دیہات میں ہیں یہ ایسی کوئی انہونی بات بھی نہیں۔ مگر۔ میرے لئے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ میں یہ بات جانتی بھی تھی اور میں نے اس کے لئے کچھ نہیں کیا۔ کچھ نا کرنے کی بھی خیر بہت سی وجوہات ہیں۔

جس میں سب سے بڑی وجہ کسی مرد کی سپورٹ بیک پر نا ہونا بھی ہے اور ایک عورت کو گھر بار دوست احباب کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ حمیرا کی ماں ایک جاہل اور بدقماش عورت تھی اس کی تین بیٹیاں تھیں اور وہ اپنا آبائی گاؤں چھوڑ کر لاہور شفٹ ہو گئے تھے۔ سب سے بڑی بیٹی کی عمر پندرہ برس تھی اور باقی اس سے چھوٹی تھیں۔ اس نے لاہور آتے ہی ان بچیوں کو فیکٹری میں بھرتی کروایا۔ اور خود بھی ادھر اُدھر کام ڈھونڈنے لگی۔

میری امی کوتو اس میں سب بڑی برائی یہ نظر آتی تھی کہ اس نے اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے محروم رکھا تھا۔ جب میں کم عمر تھی تو اس وقت اکثر جب بھی امی یہ کہتی کہ فالاں جاہل ہے انپڑھ ہے اس نے قرآن پاک نا خود پڑھا نا اولاد کو پڑھایا یا اسے نماز نہیں پڑھنی آتی تو میں سوچتی کہ امی کوکیا معلوم تعلیم کسے کہتے ہیں اگر قرآن پاک پڑھ بھی لے کوئی تو اسے جب اس کا مطلب ہی نہیں معلوم ہوگا تو بھلا کیا فرق پڑھے گا اسے۔

لیکن آج جب میں سوچتی ہوں تو اپنی کم عمری کی اس بے وقوفانہ سوچ پر خود ہی افسوس کرتی ہوں۔ حمیرا کی امی نے بیٹیوں کو انسان نا سمجھا اولاد تو دور کی بات ہے۔ اولاد تو دل کا سکون آنکھوں کی ٹھنڈک اور جگر کا ٹکرا ہوتا ہے۔ اولاد کے تو پیر میں ہلکی سی موچ آجائے تو ماں کی جان پر بن جاتی ہے۔ میں بھی کیسی ماں ہوں۔ دن رات گھلتی ہوں کہ میری بیٹی کہیں زندگی میں میری وجہ سے مسائل کا شکار نا ہو۔ وہ زندگی کے کسی موڑ پر یہ نا کہے کہ میری امی تو اس بات کا علم ہوگا مجھے کیوں نا بتایا۔

میں نے اس خوف سے اسے گھول کر ہر چیز پلانی شروع کر دی۔ میں اسے بارہ برس میں اٹھارہ برس جتنا علم دینا چاہتی ہوں۔ کیوں کیا معلوم کب میں ساتھ نا ہوں کیسے یہ مقابلہ کرے گی دنیا کا۔ ! حمیرا کی ماں نے ساری زندگی غربت میں ایک ایک چیز کے لئے ترس ترس کر گزاری تھی۔ وہ یہ تھوڑے سے روپے کماکر لاتی لالچ اور حرص میں آندھی ہوگئی۔ جو اس کی بیٹیاں اپنی اس کھیلنے کودنے والی عمر کو فراموش کرکے کما کر لاتی تھیں۔ پتہ نہیں کیسی عورت تھی۔

اور عورت تھی بھی کہ نہیں۔ ! شکل و صورت کی ی بچیاں خاص خبصورت نہیں تھیں ماں نے آہستہ آہستہ ان مردوں سے تعلقات استوار کرنا شروع کر دیے جو ان کے گھر آتے جاتے اور کوئی مالی مدد بھی کرتے۔ کچھ عرصہ بیتا تھا جب ایک دن امی نے بتایا کہ وہ عورت نے اپنے شوہر کو گھر سے نکال دیا اس کا کہنا تھا کہ اس نے حمیرا کے باپ کو اپنی بیٹی کے ساتھ دست درازی کرتے دیکھا تھا۔ میں خود اس وقت سترہ اٹھارہ برس کی تھی لیکن یہ سن کر ہکا بکا رہ گئی۔ ان لوگوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔

اس کے بعد میں اپنی زندگی میں مصروف ہوگئی۔ اور ایک دو سال پہلے میری امی اور بہن نے باتوں باتوں میں ان کا ذکرکیا۔ کہ اس حمیرا کا شوہر فوت ہو گیا ہے۔ دو بچے ہیں اور ماں کے ساتھ رہتی ہے سن کر بہت دکھ ہوا مجھے۔ میری بہن نے کہا وہ حمیرا بے چاری اپنے شوہر کی فیکٹری میں شوہر کی تنخواہ پر کام کر رہی ہے فیکٹری والوں نے کافی مدد بھی کی لیکن اس غریب کی تو زندگی ایسے گزری جیسے کوئی طوفان۔ بچے اس کی ماں نے اسلام آباد کے یتیم خانہ میں جمع کروا دیے کہ حمیرا تو دن بھر گھر ہوتی نہیں ان کی دیکھ بھال کون کرے گا۔

ہائے اللہ ؛ میرے دل سے ایسے جیسے کسی نے کچھ کھینچ لیا ہو ایسی بے چینی کے میں نا سو سکوں اور نا سوچ سکوں بس ایک ہی خیال کہ یا خدا یہ کیسی ماں ہے اسکی۔ میں ان سے ملنا چاہتی تھی میں نے بہت چھ پلان کیا۔ لیکن میری بہن نے بتایا بہت بددماغ عورت ہے وہ۔ ایک بیٹی کی دو جگہ شادی کروا کر طلاق دلوائی پھر تبلیغ پر کوہاٹ سے سے کوئی آدمی آیا تھا اس کی اللہ جانے کیسے ملاقات ہوئی اس آدمی سے اور بیٹی کا نکاح اس آدمی سے کروا دیا تیسرا نکاح۔۔

وہ آدمی کچھ عرصہ یاں رہا پھر سُنا بیوی کولیکر کوہاٹ چلا گیا ہے تو یہ عورت حمیرا کی ماں اس کے گھر کوہاٹ پہنچ گئی وہاں جاکر معلوم ہوا کہ اس آدمی کی ایک بیوی پہلے سے بھی ہے اور اولاد بھی۔ حمیرا کی بہن کے یہاں بھی بچہ ہو گیا اور وہ بہت سکون سے زندگی گزار رہی تھی لیکن اس کی ماں نے وہاں جاکر تماشا کر دیا کہ لو ہمیں تو معلوم نا تھا کہ تم شادی شدہ ہو اور بیٹی سے کہا بچہ چھوڑ کر چل میرے ساتھ واپس لاہور، بیٹی نے پہلے شوہروں سے بھی ذلت اٹھائی ہوگی ماں کا بھی معلوم ہوگا کہ جانے اب کس کے اتھ بیچ دے کہنے لگی میں نہیں جاتی تم جاؤ یہاں سے، اب یہی میرا گھر ہے اور میں خوش ہوں ادھر۔

ماں روتی پٹتی واپس آئی شاید پیسے ویسے بھی نہں دیے ہوں اس آدمی نے ورنہ خوش ہوکر آتی۔ اب کہتی ہے حمیرا سے کہ بچوں کو بس عید شب رات پر لے آیا کر ان کا خرچہ نہیں اُٹھا سکتی میں جب حالات اچھے ہوگئے تو لے آئیں گے حمیرا عید پر بچوں کو لے لے کر گھوم رہ تھی اور ہمارے گھر بھی لائی بچوں کو ہر ایک کو کہتی کہ یہ دیکھوں میرے بچے ملنے آئے ہیں بس میں ذرا ٹھیک ہو جاؤں تو بچوں کو واپس اپنے پاس لے آؤں گی اور کرایہ کے مکان میں رہ لوں گی۔

میں نے کہا کیا ہوا حمیرا کو تو بہن نے بتایا پتہ نہیں دن بدن بے چاری کمزور ہوتی جا رہی ہے دن رات کام کرتی ہے کہتی ہے پیسے جوڑنے ہیں بچوں کا غم اس کو کھا رہا ہے۔ عمر تو اس کی تیس برس ہے پر روگ لگا لیا اس نے خود کو۔ میں نے سوچا اب میں عملی طور پر کچھ کرتی ہوں فلاحی کاموں پر توجہ دوں گی ان افراد کو عقل و شعور کی ضرورت ہے۔ میں تہیہ کر لیا کہ جو بھی ہو اس سے ملتی ہوں اور کچھ نا ہوا تو گھر میں جو سرونٹ کوارٹر ہے اپنے گھروالوں سے درخواست کرکے اسے رکھ لونگی اس کے بچے بھی ساتھ رہ لیں گے۔

میں نے اپنی بہن سے کہا میں نے ملنا ہے اسے تم بتانا کسی دن چلتے ہیں۔ اس نے بتایا وہ کافی بیمارہوگئی ہے ڈاکٹر کہتے ہیں اسے گاؤں لے جاؤ۔ میں نے کہا کیا مطلب علاج کے لئے؟ بہن نے بتایا۔ راحیلہ، حمیرا کو کینسر ہے آخری سٹیج ہے! بس ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ شاید مجھے الٹی آنے والی تھی۔ مجھے محسوس ہوا میں بھی خون تھوک دوں گی۔ مجھے رونا آیا۔ اور میں کافی دیر روتی رہی۔ بہن نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔ دکھ اس بات کا ہے کہ وہ اپنے بچوں سے بھی نہیں ملی۔

باپ پہلے نہیں تھا ماں بھی گئی ! کہانی ختم۔ مجھے خود پر اختیار نہیں تھا اور میں اور زیادہ رونے لگی جبکہ مجھے معلوم تھا رونے کا فائدہ کچھ بھی نہیں تھا۔ میری بچی میرے پاس آئی میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مجھے ماں کی طرح گلے سے لگا کر پوچھتی ہے کہ مما کیا ہوا کیوں رو رہی ہو آپ۔ میں نے اس دس برس کی عمر کی بچی کو بتایا کہ بیٹا ایک حمیرا، تھی مما نے سوچا تھا اس کی ہیلپ کرونگی لیکن اس کی ڈیتھ ہوگئی اسے کینسر تھا ! میں نے اپنی بیٹی کو جان بوجھ کر بتایا کہ اسے کے اندر انسانیت کے لٰئے ایک احساس پیدا ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).