پاکستان میں انتہا پسندی کا خاتمہ، مگر کیسے؟


گزشتہ مضمون میں ہم نے ان مقاصد کا جائزہ لیا تھا جن کے لئے ہمارے ہاں نظام تعلیم کی نقش گری کی گئی۔ اس مضمون میں ہم گزشتہ مضمون میں شروع کی گئی بحث کو آگے بڑھائیں گے اور ان سیاسی اسباب کو تاریخی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کریں گے جن کے طفیل آج کا تعلیمی نظام وہ اذہان پیدا کر رہا ہے جو فکری بانجھ پن کا شکار، تخلیقی صلاحیتوں سے محروم اور عمومی روّیوں میں انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

کسی ملک کا سیاسی و معاشی نظام بہت سارے ذیلی نظاموں کے مجموعے پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان ذیلی نظاموں میں سے ایک نظام تعلیم بھی ہے جو قومی بیانیے کی تشہیر کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے۔ اس لیے نظام تعلیم کو سمجھنے کے لیے قومی بیانیے کو سمجھنا، اس کے وجود میں آنے کے اسباب کو جاننا اور اس کے تسلسل کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ قومی بیانیے کو اس کے تاریخی پس منظر میں سمجھے بغیر نہ تو ایک متبادل بیانیہ ترتیب دینا ممکن ہے اور نہ ہی ایک متبادل نظام کی نقش گری کی جاسکتی ہے۔

پاکستان کے قومی بیانیے کو سمجھنے کے لیے ہم اگر پاکستان میں لکھی جانے والی تاریخ، معاشرتی علوم یا مطالعہ پاکستان کی نصابی کتب کا مطالعہ کریں تو یہ مضامین ایک مخصوص نقطہ نظر سے تحریک پاکستان کی تشریع کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کا قومی بیانیہ تحریک پاکستان کے دنوں میں وجود میں آیا جب مسلم لیگ نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس دعویٰ کی بنیاد دو قومی نظریہ کو بنایا گیا۔

یہ دو قومی نظریہ بعد ازاں نظریہ پاکستان کی اساس بھی بنا۔ ایک لمحے کو ہم ان کتب سے باہر نکل کر اگر یہ سوچیں کہ آخر مسلم لیگ نے یہ بیانیہ اختیار کیونکر کیا تو اس کی ایک شرع یہ ہو سکتی ہے کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندگی کہ واحد دعویدار نہیں تھی بلکہ جمیعت علمائے ہند، خاکسار تحریک، جماعت اسلامی اور مجلس احرار کے علاوہ کئی اور چھوٹی موٹی تحریکیں بھی تھی جو اسی قسم کا دعویٰ رکھتی تھیں۔ مسلم نمائندگی کے سب دعویداروں میں تخصیصی فرق کرنے والا نظریہ یہی دو قومی نظریہ بنا کیوں کہ باقی سب جماعتیں قومیت کے زیادہ وسیع تر تصوّر کی دعویدار تھیں۔

یہی وجہ تھی ان سب جماعتوں نے پاکستان بننے کی مخالفت بھی کی تھی۔ پس جب حالات مسلم لیگ کو اس نہج پر لے گئے کہ اس نے باقاعدہ پاکستان کا مطالبہ کرنا شروع کیا تو عوامی سطح پر جو بیانیہ اختیار کیا گیا وہ ایک اسلامی ریاست کے قیام کا بیانہ تھا۔ ”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ“ کا نعرہ تحریک پاکستان کا سب سے زیادہ مقبول نعرہ تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے کئی بار پاکستان بننے سے پہلے مختلف مواقع پر اس بات کا عندیہ دیا کہ پاکستان بنانے کا مقصد ایک اسلامی ریاست کے قیام اور اسلامی اصولوں کی آزمائش کے لیے ایک تجربہ گاہ بنانا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد جناح کو نئی ریاست میں مذہب کو سیاست میں گھسیٹنے کے منفی اثرات اور دو قومی نظریے کے سماجی و سیاسی سطح پر ہونے والے منفی ثمرات کا انداذہ ہو چکا تھا اسی لیے آئین ساز اسمبلی سے اپنے پہلے ہی خطاب میں انہوں نے خود اس نظرئے کی بہت پرذور انداز میں نفی کر لی۔ جناح صاحب کے پورے خطاب تک بہت آسانی سے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے جس میں انہوں نے نہ صرف ایک کثیر قومی سیکولر ریاست کے قیام کی بات کی بلکہ ماضی میں دو قومی نظریے کے بطن سے پیدا ہونے والی نفرتوں کو بھی جلد از جلد بھلانے کا مشورہ دیا۔

جناح صاحب کا یہ خطاب آئین ساز اسمبلی سے تھا اور وہ نئی ریاست کے آئین کے خد و خال وضح کرنے کے لیے رہنمائی فرما رہے تھے۔ مگر شاید اب بہت دیر ہو چکی تھی اور نئی ریاست میں طاقت کے باقی مراکز اس نئے بیانیے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر سیاسی عمل کوآگے بڑھانا طاقت کے معاشی، سیاسی اور سماجی رشتوں کو دوام بخشنے کے لیے ضروری سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آئین سازی کے عمل میں پہلی تاریخی دستاویز ’قرار داد مقاصد‘ جناح کے آئین ساز اسمبلی سے خطاب سے مکمل انحراف پر مبنی تھی۔ یہی دستاویز بعد میں آنے والے تینوں دستوروں کا دیباچہ بنی۔

اسلامی ریاست کے بیا نیے کے تعلیمی نظام پر اثرات سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم ان عوامل کا جائزہ لیں جن کے نتیجے میں پاکستان بننے کے بعد یہ بیانیہ پاکستان میں ارباب اقتدار کی ضرورت بنا اور اس کو استعمال کرتے ہوئے ایک خاص نظام کی تشکیل کی گئی جن میں سے ایک ذیلی نظام نظام تعلیم بھی تھا۔

پاکستان کے ابتدائی دنوں میں اپنے سے گئی گنا بڑے ہندوستان کا حقیقی یا فرضی خوف، مسلمان دنیا کی رہنمائی کے شوق اور اپنے سماج میں ذبان و جغرافیہ کی بنیاد پر اٹھنے والی قومی شناخت کی تحریکوں کو کچلنے اور ایک مرکزیت پسند قومیت کی بنیاد رکھنے کے لئے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ اور مذہبی بنیادوں پر قومیت کے تصوّر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ مسمان دنیا کی رہنمائی کے شوق کا انداذہ مصر کے بادشاہ فاروق کے اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے جب انہوں نے پاکستان کی مسلم امہ کے اتحاد کی کوششوں پر یہ کہا کہ ایسا لگتا ہے اسلام چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو نازل ہوا۔

بنیادی طور پر پاکستان کا مسلم امہ کے اتحاد کا نعرہ بھی ہندوستان کے مقابلے میں ایک توّازن پیدا کرنے کی کوششوں کا عکاس تھا۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی ذبان کی تحریک، سرحد میں پشتو قومیت، بلوچستان میں اٹھنے والی بلوچی مدافعت اور سندھ کی قوم پرست تحریکوں کے مقابلے میں حکمران طبقات نے ان خطوں کے عوام کی محرومیاں دور کرنے کے بجائے مذہبی بیانیے کی تشہیر اور مذہب کی بنیاد پر ایک نئی قوم تخلیق کرنے کی کوشش جاری رکھی۔

انیس سو اکہتر میں جب پاکستان ٹوٹا تو بجائے اس کے کے مذہب کی بنیاد پر قوم سازی کے عمل کا ایک تنقیدی جائزہ لیا جاتا زیادہ شد و مد سے اسی مذہبی بیانیے کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی۔ جس کے بنیادی اسباب میں جہاں ہندوستان سے خوف میں اضافہ تھا وہیں اس خطے میں امریکی استعمار کے نئے عزائم اور افغانستان میں ایک نئے جہاد کا آغاز تھا جس میں پاکستان کو صف اول کی ریاست کا کردار دیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہونے والا اسلامائزیشن کا سلسلہ جنرل ضیا کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ اپنے بام عروج پر پہنچ گیا۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).