آج جنگ ،کل صلح ، پرسوں پھر جنگ…


ہماری دنیا پہلے زرعی دور سے گزری ہے ۔ دریائے نیل ہو یا دریائے سندھ ، ان کے کناروں پر کپاس کاشت کی گئی ، عورتوں نے چرخا چلایا ، دھاگا اورکپڑا بنا ، یوں دنیا مہذب دور میں داخل ہوئی ۔ اس کے بہت بعد لوہے کا دور آیا ، جب انسان نے دہکتی ہوئی بھٹیوں میں لوہا پگھلایا اور اس پگھلے ہوئے لوہے سے تیر ، تلوار ، تبر ، خنجر اور قینچیاں بنائیں ۔ سوئیاں تو انسانوں نے جانوروں کی ہڈیوں اور پیڑوں سے بنانا سیکھ لی تھیں۔

کہا جاتا ہے کہ جب بابا فرید شکر گنج کی خدمت میں قینچی پیش کی گئی تو انھوں نے اس تحفے کو قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ مجھے قینچی سے کیا کام ، میں دلوں کو جوڑنے والا ہوں ، میرے لیے سوئی دھاگا لادو ۔ یہ روایت ہمارے یہاں پھلتی پھولتی رہی اور اسے صرف صوفیوں اور شاعروں نے ہی نہیں اپنایا، بعد میں آنے والے بے شمار ادیب بھی اسی راستے پر چلے اور انھوںنے اپنے قلم کی نوک سے دلوں کو سینے اور جوڑنے کی یہ صوفی روایت جاری رکھی۔

ایسے ہی ایک بڑے صوفی افسانہ اور ناول نگارکرشن چندر تھے ۔ پیدائش کے اعتبار سے وزیرآبادی جہاں 1913ء میں جنم لیا تھا اور 1977ء میں آخری سانس انھوں نے ہندوستان کے مہانگر ممبئی میں لی ۔ ان کا دل درد مند پسے اور پچھڑے ہوئے انسانوں کے لیے دھڑکتا تھا ۔ ایک عجب اتفاق ہے کہ وہ جو عورتوں کے درد وغم پر تڑپ اٹھتے تھے ،  انھوں نے دنیا سے رخصت ہونے کے لیے 8مارچ کی تاریخ کا انتخاب کیا ۔ 8 مارچ جو سوا صدی سے عورتوں کے عالمی دن کی طرح منایا جاتا ہے ۔

کرشن چندر ہمارے ان ادیبوں میں تھے جن کی شخصیت بیسویں صدی میں اردو ادب کے سب سے بڑے ناموں میں سے ایک رہی ۔ یوں تو ہمارے بیشتر ادیب اور شاعردلوںکو جوڑنے والے رہے لیکنہندو مسلم تناؤ اور پاکستان بننے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کرشن جی نے جی جان سے کام کیا ۔ ممبئی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تو کرشن چندر بھنڈی بازار اور محمد علی روڈ کی آس پاس کی گلیوں میں جانے کے لیے بے قرار ہوگئے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں کے مسلمان انھیں اچھی طرح پہچانتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر وہ ان گلیوں سے گزرے تو ان پر کسی مسلمان کا چھرا نہیں نکلے گا ۔ اس واقعے کو مرحوم حمید اختر نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح کرشن چندر نے گوشت کھانے کے بہانے سے انھیں مجبور کیا کہ وہ انھیں بھنڈی بازار لے جائیں اور جب وہ وہاں سے کسی مسلمان کے ہوٹل سے گوشت کھا کر باہر نکلے تو ان کا چہرہ گلاب کی طرح کھلا ہوا تھا ۔

وہ حمید اختر صاحب کے ساتھ جب فساد زدہ علاقے سے نکل گئے تو انھوں نے ہنس کر کہا تھا کہ ’’دیکھا حمید ، لوگ مجھے پہچانتے تھے ، اس کے باوجود کسی نے مجھ پر حملہ نہیں کیا ‘‘دراصل یہ ہندو مسلمان کے درمیان ہونے والے بلوے نہیں ہیں ۔ دونوں طرف کے مفاد پرست اس طرح کے حملے کراتے ہیں ۔

کرشن چندر ایک مشترک تہذیب کے عاشق تھے ۔ ان کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ ان کی مشترک تہذیب قتل و غارت کا نوالہ بن جائے گی۔ فسادات شروع ہونے کے فوراً بعد انھوں نے 6افسانوں کا مجموعہ ’’ ہم وحشی ہیں ‘‘ کے عنوان سے پیش کیا ۔

ان کے اس مجموعے کے بارے میں علی سردار جعفری نے لکھا کہ ’’آج چالیس کروڑ انسانوں کی آواز آرہی ہے اور ان ہی کے ساتھ ادیبوں اور شاعروں کی آوازیں بھی آرہی ہیں جن میں کرشن چندر کی آواز سب سے زیادہ بلند ہے‘‘ کرشن چندر فسادات کے موضوع پر مسلسل لکھتے رہے اور برصغیر کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو جھنجھوڑتے رہے ۔

وہ جدی پشتی پنجابی تھے،انھیں پنجاب سے اور لاہور سے عشق تھا ، 1947ء میں انھوں نے پنجاب کو نفرت اور تعصب کی چھریوں سے ذبح ہوتے دیکھا۔ انھوںنے دیکھا کہ ہندو اور مسلمان پنجابیوں نے کس بے دردی سے ایک دوسرے کی عورتوں کو بے حرمت کیا ، گھر لوٹے ، جلائے، ترک وطن کرنے والے قافلوں کوگاجر مولی کی طرح کاٹا ۔ یہ سب کچھ ان کے لیے ناقابلِ فہم اور ناقابلِ برداشت تھا ۔

فسادات کے دوران بے حرمت اور پامال کی جانے والی مسلمان اور ہندو لڑکیاں جب ایک طوائف کے کوٹھے پر بیچ دی جاتی ہیں تو وہ عورت جس کا پرانا کاروبار کوٹھا چلانا ہے ، وہ پاکستان اور ہندوستان کے رہنماؤں کے نام ایک خط لکھتی ہے ، یہ افسانہ ’’ایک طوائف کے خط ‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا اور پڑھنے والوں کو دہلا گیا ۔

وہ طوائف دونوں ملکوں کے سربراہوں کو خط لکھتی ہے جس میں وہ کہتی ہے کہ ’’اب ہم آزاد اور خود مختار ہیں ، ایک ایسے زمانے میں مجھ معمولی طوائف کو آپ سے یہ پوچھنے کا حق حاصل ہے کہ اب بیلا اور بتول کا مقدرکیا ہے ؟ میں آپ دونوں سے ان کے بارے میں جاننے کے لیے بے تاب ہوں ۔

یہ محض دو لڑکیاں نہیں ، دو قومیں ہیں ، دو تہذیبیں ہیں اور وہ آج کل فارس روڈ اس ناچیز طوائف کے یہاں قیام پذیر ہیں ۔ جسم فروشی میرا دھندا ہے ۔ ناچنا گانا اور اپنے گاہکوں کو رجھانا میرا پیشہ ہے ۔ یہ پیشہ میری روزی روٹی ہے ، نان نفقہ ہے ۔ میرے پیشے کا تقاضا ہے کہ جن لڑکیوں کو میں نے دام دے کر خریدا ہے ، ان کو اپنی ڈگر پر ڈال دوں اور اپنے پیسے کھرے کروں لیکن میں نے بہت غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ میں ایسا ہرگز نہیں کروں گی ۔‘‘

یہ ایک طویل خط ہے جس میں فارس روڈ کی طوائف دونوں ملکوں کے حکمرانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ انھیں اپنے اپنے گھروں میں رکھیں تاکہ ان لڑکیوں کے دکھ درد کا مداوا ہوسکے۔

ان کا ایک افسانہ ’’پشاور ایکسپریس ‘‘ بھی 1947ء کے فسادات کے پس منظر میں لکھا گیا ہے ۔ یہ بھی ان کے قلم کی کاٹ ہے جو ٹیکسلا کے اسٹیشن سے گزرنے والی ’’ پشاور ایکسپریس ‘‘ کا نوحہ سناتا ہے ۔ مارنے والوں کو ریل گاڑی یاد دلاتی ہے کہ یہ ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی اور یہاں لاکھوں طالب علم تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ یہاں کنشک نے حکومت کی تھی اور لوگوں کو امن وآشتی کا سبق سکھایا تھا ۔

یہ ایک طویل افسانہ ہے جس میں کرشن چندر نے دونوں طرف کے جنونیوں کا وحشیانہ رقص بیان کیا ہے، کرشن چندر نے نہایت کڑوے لہجے میں لکھا ہے کہ ’’لاکھوں بار لعنت ہو ان رہنماؤں پر اور ان کی آیندہ سات پشتوں پر جنہوں نے اس خوبصورت پنجاب ، اس البیلے ، پیارے ، سنہرے پنجاب کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔‘‘

کرشن چندرکے قلم پر طنزکی دھار بہت گہری تھی۔ انھوں نے ایک طنزیہ افسانہ ’’اردو کا نیا قاعدہ‘‘ تحریر کیا ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’ہندو اور مسلمان دونوں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے کو برادرانِ وطن کہتے ہیں۔ برادرانِ وطن جب جوش محبت میں آکر ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے ہیں تو فساد ظہور میں آتا ہے۔ فساد بڑے مزے کا کھیل ہے اور ہندوستان میں اکثر کھیلا جاتا ہے کیونکہ یہاں ہندو اور مسلمان کثیر تعداد میں رہتے ہیں ۔ فساد عموماً پنڈت اور مولوی سے شروع ہوتا ہے ۔ اس دوران خون کی ندیاں بہتی ہیں۔ جن میں ہندو اور مسلمان بڑی خوشی سے نہاتے ہیں ۔ اس کے بعد پولیس صورتِ حال پر قابو پالیتی ہے اور پھر دوسرے فساد کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔‘‘

اسی قاعدے میں وہ لکھتے ہیں :

’’موہن آم کھاتا ہے ۔ بنیا سود کھاتا ہے ۔ ٹامی مکھن کھاتا ہے۔ بنگالی بھوکا رہتا ہے ۔ رانی ریشم کے کپڑے پہنتی ہے ۔ میری بہن کا نام بھی رانی ہے ، لیکن اس کے پاس ریشمی کپڑے نہیں ہیں ۔

’’آج جنگ ہے،کل صلح ہوگی ۔ پرسوں پھر جنگ ہوگی ۔اس کا نام ترقی ہے ۔ ترقی انسان کرتے ہیں، ہندو مسلمان فساد کرتے ہیں ۔ ہندو، ہندو جل پیتا ہے ۔ مسلمان، مسلمان پانی پیتا ہے ۔ انسان کے لیے پانی کہاں ہے ؟ ‘‘

شاید ، یہ ٹھیک ہی ہوا کہ وہ 1977ء میں اس جہان سے گزر گئے ، اس کے بعد سے آج تک برصغیر میں رہنے والے انسان جن عذابوں میں گرفتار ہیں انھیں لکھنے کے لیے کرشن چندرکہاں سے خون جگر لاتے؟ کسے معلوم ، آج جنگ، کل صلح اور پرسوں پھر جنگ کا نہ رکنے والا یہ سلسلہ کب ختم ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).