جو ماں بن جاتی ہے وہ کبھی سوتیلی نہیں ہوتی


میں لگ بھگ چار سال کا تھا اور گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ ایک بچے نے پتھر مار دیا۔ مجھے چوٹ لگی تو رونے لگا اور روتے روتے اسے کہا ”میں ابھی اپنی امی کو بلا کر لاتا ہوں“ اس نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا اور بولا، ”کیہڑی امی؟ آنٹی تو تیری امی ہے ہی نہیں، تیری امی تو مر چکی ہیں کب کی“ جو کیفیت تھی وہ آج بھی یاد ہے مگر الفاظ میں بیان کرنا آج بھی مشکل۔ اپنا گھر دھندلا گیا، چند قدم چلنا مشکل ہو گیا۔ رو تو میں اب بھی رہا تھا مگر آواز نہیں تھی۔ بس آنسو تھے جو تھوڑے باہر گر رہے تھے اور زیادہ اندر۔

گھر میں گیا تو سیدھا امی کے کمرے میں چلا گیا، وہ بستر پربیٹھی سوئٹر بن رہی تھیں، مجھے روتے ہوئے دیکھا تو سب چھوڑ دیا اور سینے سے لگا کر پوچھنے لگیں، ”گرے ہوکہیں، کسی نے مارا ہے کیا؟ “ میں نے ہاتھوں سے چہرہ صاف کیا اور ان کی طرف دیکھتے ہوئے صرف اتنا ہی پوچھا، ”میری امی مر چکی ہیں کیا؟ “ سن کر وہ خاموش رہیں بس ان کی آنکھیں بولنے لگیں، زار زار بولنے لگیں۔ انہوں نے مجھے بھینچ لیا اور ہم دونوں رونے لگے۔

کافی دیر گزر گئی اور آنکھوں کے سوتے خود ہی ٹھنڈے پڑ گئے تو کہنے لگیں، ”کہانی سنو گے؟ “

میرے اثبات میں سر ہلانے پر انہوں نے بولنا شروع کیا، ”ہاں یہ سچ ہے کہ میں آپ کی سگی ماں نہیں ہوں۔ آپ کی پیدائش کے وقت پر آپ کی امی خدا کے پاس چلی گئی تھیں، انہوں نے تو شاید آپ کو دیکھا بھی نہیں۔ پر جب میں نے آپ کے ابو سے شادی کی تو آپ آٹھ مہینے کے تھے تب سے لے کر اب تک میں نے آپ کی خدمت کی ہے۔ ماں کہتے رہو تو بھی ٹھیک ہے اور یہ سچ جان کر“ آیا ”کہنے لگو مجھے تب بھی قبول ہے“ وہ خاموش ہو گئیں اور میں ان سے لپٹ کے رونے لگا اور کہا ”آپ ہی میری ماں ہیں، آپ ہی میری ماں ہیں“

تب سے یہ ایسا ہی ہے، بہت سے لوگوں نے بہت کچھ کہنا چاہا مگر ہمیں پہلے ہی پتہ تھا سو اپنی اپنی کہہ کر سب چپ کر لیے۔

امی کا پہلے سے رشتہ داری میں ہمارے ابا کے خاندان سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ دو بھائیوں سے چھوٹی تھیں، چھ ماہ کی تھیں جب باپ سے محروم ہو گئیں نانی نے بچوں کو پالا، بیٹوں کو تو جلدی کام پکڑنے پڑے مگر بیٹی کو پڑھایا، ہائی اسکول کے بعد مذہبی تعلیم اس کے بعد کالج اور پھر یونیورسٹی، ٹیچر ٹرینگ کی اور مذہبی تعلیم کے ایک ادارے میں پڑھانے لگیں۔

سوچ رکھا تھا کہ زندگی بس لڑکیوں کو مذہبی تعلیم دیتے گزارنی اور کبھی شادی نہیں کرنی، بھائیوں اور ماں نے اعتراض کیا مگر انہوں نے صاف کہہ دیا کہ شادی نہیں کرنی، واضح کر دوں کہ وہ نن نہیں تھیں، بائبل ٹیچر تھیں۔ بالاخر سب چپ ہو گئے اور سالوں گزر گئے، عام طور پر سمجھی جانے والی شادی کی عمر کب کی گزر گئی۔

کچھ لیکچرز دینے کے لیے فن لینڈ گئی ہوئی تھیں۔ ایک دکان پر تھیں جہاں دکاندار نے ان کو باہر نکلنے سے پہلے روک لیا، ایک پوسٹ کارڈ ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولا، ”خدا نے مجھے کہا ہے کہ یہ آپ کو دوں“ امی نے کارڈ لے لیا اور دیکھا کہ اس پر ایک تصویر بنی ہے دو چھوٹے بچے ہیں اور وہ ایک نالے کا پل پار کر رہے ہیں جن کے پیچھے ایک فرشتہ بازو پھیلائے چل رہا ہے۔ امی بتاتی تھیں کہ وہ تصویر ان کے دل میں پیوست ہو گئی۔ انہوں نے گھر آ کر وہ تصویر اپنی بائبل میں رکھ لی جو آج تک ان کی بائبل میں ہے اور جب روزانہ دعا کرتیں تو یہ بھی دعا کرتیں کہ خدایا اگرچہ یہ تصویر ہی ہے مگر تو ان بچوں کی حفاظت کرنا۔ عرصہ گزر گیا، امی واپس پاکستان آ گئیں مگر یہ تصویر ان کی دعا کا حصہ رہی۔

میں گاؤں میں جنما اور اسی وقت والدہ چل بسیں، لوگوں نے تو ابو کو کہہ دیا کہ بچے کا بچنا مشکل ہے، مگر ابو اور نانی مجھے بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔ تین سال کی بہن کو دادی کے پاس چھوڑ کر ابو ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال، ایک شہر سے دوسرے شہر پھرے کے کہیں نرسری میں جگہ مل جائے۔ آخرکار دوردراز ایک مشن ہسپتال میں جگہ ملی۔ چند ماہ وہاں رکھنے کے بعد انہوں نے کہا آپ لے جائیں تو ایک مشنری خاندان اپنے گھر لے گیا۔

یہ گھر اس ہاسٹل کے بالکل سامنے تھا جہاں امی رہا کرتی تھیں۔ آنا جانا تھا تو ان کو میرے وہاں ہونے کا پتہ چلا، اکثر آ جاتیں، کھیلتی رہتیں، کبھی اپنے ہاسٹل لے جاتیں۔ ایک دن اس مشنری خاندان سے میری کہانی سن کر واپس ہاسٹل گئیں تو وہی تصویر کھول کر خدا کے سامنے بیٹھ گئیں۔ جانے کب تک باتیں کی ہوں گی مگر جب ختم ہوئیں تو فیصلہ ہو چکا تھا۔ ابو سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور یہ رویا ان کے سامنے رکھی۔ شادی ہو گئی اور وہ ہماری امی ہو گئیں۔

شادی کے بعد گاؤں آئیں تو میری والدہ کا خاندان کچھ ناراض تھا کہ ابھی تو سال بھر بھی نہ ہوا ہماری بیٹی کو جدا ہوئے کہ شادی کر لی، مگر ابو، امی کو لے کر نانا کے گھر چلے گئے۔ سب کھنچے کھنچے سے تھے۔ امی نانا کے پاس جا کر بیٹھ گئیں اور بولیں، ”انکل جی، میرے ابو کوئی نئیں، میں چھ مہنیے دی ساں جدوں او فوت ہو گئے۔ “ (میرے ابو کوئی نہیں۔ میں چھے مہینے کی تھی جب وہ فوت ہو گئے) نانا نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولے، ”پُتر جی اج تے آکھیا ای نہ دوبارہ کدی نہ آکھیں کہ تیرا پیو کوئی نئیں“ (بیٹے آج تو یہ کہاں ہے، دوبارہ کبھی نہ کہنا کہ تمہارا باپ کوئی نہیں) بس ساری برف پگھل گئی نانا کو بیٹی واپس مل گئی اور امی کو باپ۔

رفتہ رفتہ مجھے سب پتہ چل گیا، امی نے بتایا، ابو نے بتایا، گھر میں امی اور ابو اکثر میری والدہ کی باتیں کیا کرتے، امی اکثر والدہ کی قبر پر جاتیں پھول رکھنے۔ سالہا سال گزر گئے۔ امی ابو کو ہمیشہ ایک دوسرے کی عزت کرتے دیکھا۔ پانچ سال ہوئے کے ابو اچانک دنیا چھوڑ گئے۔ ہم تو اپنا اپنا رو کر اگے بڑھ گئے شاید مگر امی کے پاس اکلاپا رہ گیا۔ بہت یاد کیا انہوں نے، بہت ہی یاد کیا۔

امی کی ایک سہیلی تھیں، بڑی خدا پرست، ان کو کینسر ہو گیا۔ تکلیف جب بڑھی تو خدا سے شکوہ کرنے لگیں کہ میں نے تیری خدمت کی اور مجھے یہ صلہ ملا۔ یہ اذیت ناک بیماری ملی۔ اس قدر مشکل میں گرفتار ہوئیں کہ خدا کے انکار تک جا پہنچیں۔ امی ان کی حالت جان کر بہت پریشان ہوتیں۔ ہمیشہ دعا میں کہتیں کہ خدایا اور جو بھی ہو بس یہ کینسر جیسا موذی مرض نہ ہو، یہ نہ ہو کہ میں تیرا انکار کر دوں۔

ابو کی وفات کے ایک ماہ بعد ان کو کینسر کی تشخیص ہوئی۔ ایک تو بیماری وہ جسے وہ نہیں چاہتی تھیں اوپر سے اکلاپا۔ امی کا انتخاب ایک مشکل امتحان کے لئے ہو چکا تھا۔ چار سال سے زائد عرصے تک انہوں نے بیماری کا مقابلہ کیا ہر ممکن علاج بھی ہوا اور ہر دعا میں خود بھی کہا اور ہمیں بھی کہا کہ دعا کریں کہ وہ خدا کے ساتھ رہیں، کہیں اس کا انکار نہ کر دیں۔ عمر بھی بڑھ رہی تھی اور بیماری بھی، ان کی تکلیف ہماری برداشت سے زیادہ ہو رہی تھی۔ اکثر کہا کرتیں۔ ”میں آسمان پر جانے کے لیے تیار ہوں“ اور ”میں خدا کے تخت کے سامنے جانے کے لیے تیار ہوں“

جانے سے دو روز قبل میرا ہاتھ پکڑ کر بولیں، ”توں مینوں جان کیوں نئیں دیندا؟ “ (تو مجھے جانے کیوں نہیں دیتا) اس کے بعد کے دو روز میرے لیے عذاب سے کم نہیں تھے، نہ ان کی تکلیف دیکھی جاتی تھی اور نہ یہ کہا جاتا تھا کہ میں جانے دینے کے لیے تیار ہوں۔ اس روز بھی ان کے بستر کے سامنے بیٹھ گیا کرسی پر، جی کڑا کیا کہ امی کی تکلیف برداشت سے باہر ہے اور آج خدا کو کہہ دینا کہ خداوند تو کامل شفا میں داخل کر لے۔ نیت تو کی مگر بول نہیں پایا۔ اٹھ کے چلا آیا۔

اسی شام میں باہر جا رہا تھا کسی کام سے تو جانے سے پہلے ان کے پاس گیا اور بتایا کہ کل ان کا دواؤں کا شیڈول کیا ہو گا، تو جواب میں بولیں، ”میں آسمان تے جان لئی تیار آں“ (میں آسمان پر جانے کے لئے تیار ہوں) میں نے سر ہلایا اور کمرے سے نکل گیا۔ باہر چلا گیا اور قریبا آدھے گھنٹے بعد آیا تو وہ جا چکی تھیں۔ میری بیوی ان کے پاس بیٹھی تھی اور امی پرسکون تھیں، بیماری کا کرب ان کے چہرے سے چھٹ چکا تھا۔ اب وہاں اطمینان تھا، خوشی تھی اور سکون تھا، اکلاپا گزر چکا تھا اور جنگ جیتی جا چکی تھی۔ انکار نہیں کیا گیا تھا اور خدا کے تخت کے سامنے جانے کا وقت آ چکا تھا۔

امی نے بہت کچھ سکھایا ہر لحاظ سے تربیت کی اور ایک خاص بات جو سکھا دی وہ یہ کہ ”سوتیلی ماں“ کوئی ٹرم نہیں ہوتی کیونکہ جو سوتیلی رہتی ہے وہ کبھی ماں نہیں بن پاتی اور جو ماں بن جاتی ہے وہ کبھی سوتیلی نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).