آؤ سب مل کر تماش بین بن جائیں


آسمان پر اَبرِ کرم اور فضاؤں پر سرد ہواؤں کا قبضہ ماحول کو عجیب بنا رہا تھا۔ اندیشوں میں گرے انسانی دل ایسا محسوس کر رہے تھے جیسے کچھ ہی لمحوں بعد زور سے مینہ برسے گا اور پھر چاروں طرف بھاگم بھاگ ہی ہوگا۔ آج کا دن اُس کے لئے بہت ہی اہم تھا کیونکہ اِس دن کا اُس نے دس برس انتظار کیا تھا۔ اُس کی اپنی کیفیت اتنی عجیب تھی کہ اردگرد کے حالات اور فطرت کے تغّیرات سے وہ بالکل بے خبر تھا۔ کالی گھٹاؤں نے دن کے عین وسط میں گھٹاٹوپ اندھیرے چارسوں پھیلا دیے تھے۔ حساس دل وسوسوں میں خود کو ڈر اور گھبراہٹ سے بھرپور کسی انجانی انہونی سے خبردار کر رہے تھے لیکن ایک وہی تھا جو ارد گرد سے بے خبر کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔

وہ آج ہی پاکستان پہنچ گیا تھا۔ ائیرپورٹ سے نکلتے ہی دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوچکی تھیں۔ اس کے سامنے صرف اس کا گھر تھا اور گھر کے اندر دو انسانی جسموں میں مقّید اس کی رُوح۔

یہ دس سال کیسے گزرگئے یہ اندازہ صرف اس کو تھا۔ کتنی اذیتیں تھیں جو اس نے سہی تھیں۔ وہ تمام تکالیف ایک ایک کرکے اس کو یاد آرہے تھے جو اس نے صرف اس لئے برداشت کیے تھے کہ اپنے لخت جگر کو زندگی کی آسائشیں فراہم کریں۔ اپنے وطن سے دُور محرومیوں، پریشانیوں، اور تنہائیوں میں گزارے کرب کے اُن تمام لمحات میں ہزار داستانیں موجود تھیں جن میں ہر پل وہ ہزار بار زندگی سے اپنی راہیں جدا کرنے کا ارادہ کرچکا تھا لیکن جب بیٹے کی تصویر سامنے آجاتی تو پھر یہ فیصلہ سوہان روح بن جاتا۔ اپنے بیٹے کے لئے ایک شاندار مستقبل کی خاطر تڑپ تڑپ کراور سِسک سِسک کر گویا وہ جسمانی طور پر مرگیا تھا لیکن یہ روحانی رشتے اور طاقتیں ہی تھیں جن کی وجہ سے آج وہ پاکستان پہنچ گیا تھا۔

غیروں کی گالیاں اور نفرت آمیز رویئے صرف اس لئے تو برداشت کی تھیں کہ بیٹے کا مستقبل سنّور سکے۔ آج اس کو بہت جلدی تھی ہواؤں کی رفتار میں اڑنے کی کیونکہ ان دس سالوں میں بیٹے کی یاد میں وہ بہت تڑپا تھا۔ وہ پانچ سال کا ہی تو تھا جب وہ اس کو چھوڑ کر بیرون ملک گیا تھا۔ کتنا درد ملا تھا اس کو جب وہ توتلی زبان میں فرمائش کررہا تھا ”ابّو میرے لئے سائیکل لانا، میرے لئے ٹافیاں لانا“ لیکن اس کو یہ پتا نہیں تھا کہ اس کے ابّو جب آئیں گے تو ٹافیوں اور سائیکل کی عمر اس کی گزر چکی ہوگی۔

اس کو ان دس سالوں میں وہ تمام باتیں ایک ایک کرکے یاد آرہی تھی جو اس نے فون پر اپنے بیٹے سے کی تھی۔ گھر تک کا سفر انہی سوچوں میں گزرا۔ وہ کافی خوش تھا اور سوچ رہا تھا کہ جیسے ہی میں گھر کی دہلیز پار کروں گا میرا بیٹا مجھ سے لپٹ کر اپنی محبت کی انتہا کرے گا۔

وہ تو اب کافی بڑا ہوچکا ہوگا۔ اب ایک سنجیدہ انسان کی طرح اس جدید دور میں میرا بیٹا بڑے بڑے خواب سجائے مجھ سے بڑے لوگوں کی طرح بات کرے گا۔

وہ سوچ رہا تھا میں کتنا خوش قسمت ہوں مَیں اپنے وطن اپنے گاؤں میں بیٹے کا ہاتھ تھامے یہ پوری چھٹیاں کھیتوں اور کھلیانوں میں گھوم پھر کر گزاروں گا۔ کتنا خوب صورت لمحہ ہوگا جب ہم دونوں کھلی آسمان تلے رات کی تاریکیوں میں اپنے ہی گھر کے آنگن میں تاروں کو تَک رہے ہوں گے اور بالکل اسی طرح مذاق مذاق میں جھگڑنا شروع کریں گے جس طرح اُس کے بچپن میں ہم دونوں کیا کرتے تھے۔

آج میں جیسے ہی اپنے بیٹے کو دیکھوں گا تو اس کے ساتھ بغل گیر ہونے سے پہلے ایک شرارتی تھپڑ اسے رسید کروں گا اور پھر اس کو اپنے سینے سے لگا کر پچھلے دس سالوں کی محبت اس پر نچھاور کردوں گا۔ یہ کتنا خوب صورت لمحہ ہوگا اور مجھے یقین ہے آس پاس کھڑے تمام لوگ حیران ہوں گے باپ بیٹے کی اس محبت پر۔

سوچوں کی دنیا میں غرق لمحہ بہ لمحہ اس کا گھر قریب آرہا تھا اور دل کی دھڑکنیں بھی ہر لمحہ تیز ہورہی تھیں۔ خود کو ہر لمحہ الجھن میں محسوس کر رہا تھا کہ جب ملوں گا تو پتا نہیں کیسا دکھتا ہوگا میرا بیٹا، میرا فخر، میرا سرمایہ، میری جان، میرا سب کچھ۔

انہی سوچوں میں ڈوبا وہ گھر کے قریب پہنچ گیا لیکن توقع کے خلاف وہاں کوئی بھیڑ اس کو نظر نہیں آئی۔ پورا محلّہ ویران پڑا ہوا تھا۔ ایک عشرہ گھر سے دور رہ کر اس نے اتنی گھٹن محسوس نہیں کی تھی جتنی گھٹن وہ اس وقت محسوس کر رہا تھا۔

اپنے گھر کے دروازے پر پہنچ کر وہ ہچکچایا لیکن بادل ناخواستہ دہلیز کے اس پار جب گیا تو اندر کوئی مسکراتا چہرہ نظر نہیں آیا بلکہ ویرانیاں ہر طرف ناچ رہی تھیں۔ وہ اندر گیا تو سامنے بستر پر موجود اپنے بیٹے کو پایا جس کے پاس اس کی ماں بیٹھی ہوئی تھی۔ باپ بیٹے کے درمیان سکوت کے پردے حائل تھے اور خاموش نگاہوں کے درمیان سوالات تھے جن کے جواب درکار تھے۔ بیٹے کے قریب بیٹھی پریشان حال ماں نے جب اپنے شوہر کو دیکھا تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔

وہ دوڑ کر اپنے مجازی خدا سے لپٹ کر زار زار رونے لگی۔ اس نے پریشان حال بیوی کے آنسو پونچھے اور بیٹے کی طرف دیکھ کر خود زاروقطار رونے لگا۔ بیوی نے اس کو دلاسہ دینے کی ہزار کوششیں کیں لیکن اس لمحے اس کی مثال اس انسان کی طرح تھی جس کے ہاتھ پاؤں گویا باندھ دیے گئے ہوں اور کسی گہرے گرداب میں اس کو پھینکا گیا ہو۔ بہرکیف اس نے ہمت کرکے بیوی سے پوچھ ہی لیا۔ یہ سب کیا ہے۔ کیا ہوا ہے میرے بیٹے کو۔ یہ سن کر بیوی نے جو کہا وہی ہمارا آج کا نوحہ ہے۔ بیوی نے کہا ”میں ماں ہوں اور اس معاشرے میں ماں کی کوئی نہیں مانتا۔ کچھ سال پہلے سگریٹ نوشی شروع کی، پھر چرس اور اب آئس کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے بات یہاں تک پہنچ گئی“

اس نے بیوی کی بات کاٹ دی اور پوچھا : ”کیا تم مجھے نہیں بتا سکتی تھی؟ یا یہاں کوئی قانون نام کی چیز نہیں ہے؟

بیوی نے ایک دفعہ بستر پر پڑے بیمار بچے کو دیکھا، بہتے آنسوں خود ہی پونچھ لئے اور گویا ہوئی، ”آپ کو اس لئے نہیں بتایا کیونکہ آپ پہلے ہی سے ہمارا بوجھ ہلکا کرنے میں لگے اپنی زندگی کو داؤ پر لگائے ہوئے تھے اور جہاں تک قانون کی بات ہے تو یہاں قانون ہی ان چیزوں کے لئے خود ذمہ دار ہے۔ یہاں اس دھندے میں پہنچے ہوئے لوگ ملوث ہیں جن کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اور یہ صرف ہمارے بچے کا نوحہ نہیں بلکہ ایک پوری نسل کا نوحہ ہے“۔

اس نے بیوی کی بات سنی ان سنی کردی اور فوراً اپنے جواں سال بیٹے سے لپٹ کر رونے لگا جو آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتا رہا لیکن کامیاب نہیں ہو پارہا تھا۔ باپ پاگلوں کی طرح اسے چُوم رہا تھا اور وہ صرف باپ کے اس پاگل پن کا مظاہرہ دیکھ رہا تھا۔

تھکا ماندہ مسافر گھر سستانے آیا تھا لیکن یہاں بیمار بیٹے کی حالت دیکھ کر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر بارگاہ ایذدی میں فریاد کرکے کہنے لگا : ”اے میرے مولیٰ یہ کیسا امتحان ہے۔ کس گناہ کی سزا بھگت رہا ہوں میں۔ کن ظالموں نے میرے ساتھ یہ ظلم کیا ہے۔ کیا آپ کی بے آواز لاٹھی اب بھی حرکت میں نہیں آرہی۔ مجھ جیسے کتنے لاچاروں کے گھر اسی طرح اجاڑ دیے ہوں گے ان ظالموں نے۔ اے میرے مولیٰ! میرا بیٹا زندہ ہوکر بھی مجھ سے بات تک نہیں کر پارہا۔ کیا میں یہی دیکھنے آیا تھا؟ کاش اے کاش میں یہ دن نہ دیکھ پاتا۔ :“ فریاد کی آہ و بکا عرش تک کو ہلا دیتی ہے لیکن اُس کی آہوں کے سامنے بے لگام سسٹم طنز کے تیر برساکر مسکراتا رہا۔

باپ جب لاچار بن جاتا ہے تو نسلیں خود برباد ہوجاتی ہیں اور آپ کمال ملاحضہ کیجیئے یہاں نسلیں پہلے برباد ہورہی ہیں اور والدین بعد میں لاچار بن رہے ہیں لیکن سسٹم صرف ”مذمت“ پر اکتفا کر رہا ہے۔

یہ ضلع بونیر کا نوحہ ہے جو بڑی ترتیب کے ساتھ لکھا جارہا ہے اور یہاں کے سیاستدان اور افسران طاقت کی رسّہ کشیوں میں مصروف تماشبین بنے ہوئے ہیں۔ اس تماشے کا نظارہ کرنے کے لئے بڑا حوصلہ چاہیے جو صرف ان کے پاس ہے۔ آپ بھی اگر صرف اپنی بساط کے مطابق پریشان ہی ہوسکتے ہیں تو میری طرح بس خاموشی سے یہی کہہ دیجیئے

”آو سب مل کر تماش بین بن جائیں“ بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے ارباب اختیار بنے ہوئے ہیں کیونکہ تماش بین بننے سے تناؤ میں کمی آجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار تناؤ سے محروم ہیں۔

نوٹ : کالم میں بیان کی گئی کہانی حقیقیت پر مبنی ہے۔ کردار کا نام وعدے کے مطابق راز میں رکھا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).