عورت مارچ مسائل، مطالبے، ردعمل


ایک کہانی پڑھی تھی ایک پتا پانی میں بہتا جا رہا تھا بہت خوش اچلتا کودتا۔ ایک پریشان حال آدمی نے اس سے پوچھا تم فنا کی جانب جا رہے ہو۔ درخت سے ٹوٹ چکے ہو۔ ساری زندگی تم نے درخت کی آبیاری کے لیے کام کیا اب جب تم بے جان ہوئے تو اس نے تمہیں جھٹک دیا۔ تمہیں دکھ نہیں ہوا؟ پتا بولا میں نے درخت کی آبیاری کا کام کیا تو درخت نے بھی مجھے سینچا میں نے اس نے مجھے پانی مہیا کیا اپنے جسم کا حصہ بنایا۔ میں نے قدرت کے رنگ دیکھے۔

اس حسن کا حصہ رہا جسے قدرت نے لوگوں کے لیے باعث رحمت و فرحت بنایا۔ میں نے اپنے حصے کا کام خوشی سے کیا اپنی زندگی جی اور اب وقت آ گیا تھا کہ میں وہ جگہ کسی دوسرے کے لئے چھوڑ دوں۔ تاکہ زندگی کا نظام چلتا رہے۔ میں خوش ہوں کہ میں نے بھرپور زندگی گزاری۔ اب میں پانی میں تیروں گا پھر کہیں زمین کا حصہ بن کے مزید زندگی کا سبب بنوں گا تو اداسی کیسی۔

اس کہانی میں ایک سبق ہے فطرت یا قدرت کا ایک نظام ہے وہ نظام اپنے ڈھنگ سے چل رہا ہے۔ اس میں ہر چیز ہر ذی روح کا اپنا حصہ ہے۔ اپنی جگہ ہے، اپنے کام ہیں، اپنے اختیار و فرائض ہیں۔ سماجی ڈھانچہ تب چلتا ہے جب ہر کوئی اپنے حصے کے کام خود کرے اور دوسروں کو کرنے دے۔ لیکن سماج کا نظام اتنا سادہ نہیں ہے۔ انسان انسان کہلاتا ہی اس وجہ سے ہے کہ اس میں پیچیدگیاں ہیں وہ کائنات کی دیگر اشیا کی طرح ایک مخصوص نظام کی پیروی نہیں کرتا بلکہ اس کی اپنی ایک سوچ ہے جس میں وہ آزاد ہے کہ جس جانب چاہے جیسے چاہے سوچے۔

اس سوچ نے اسے آزادی دی ہے کہ وہ اپنے سماجی نظام بنانے معاشی اصلاحات ڈھونڈے، سیاسی اندازفکر تشکیل دے، لسانی، ثقافتی، گروہی اور مذہبی مکتبہ فکر بنائیے۔ ان نظاموں میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ کیونکہ سماج سے جڑے ہیں تو کسی سائنسی اصول کے تحت انہیں ڈیفائن کرنا اور حتمی طور پہ اسی پہ قائم رہنا ممکن نہیں ہے۔

ہر دور کے اپنے مسائل تھے اور ہیں اور ہر دور میں ان مسائل کو ایڈریس کرنے کے لیے اس کی بہتری اور سلجھاؤ کے لیے تحریکیں وجود میں آتی رہی ہیں۔ ان تحاریک نے انسانی زندگی پہ گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ ان میں بہت تکلیف دہ موڑ بھی آئے کہ جن کو سن کے روح کانپ جائے اور وہ مواقع بھی آئے جہاں مسائل کو درست انداز سے ایڈریس نہیں کیا گیا۔ اس میں سماجی ڈھانچے کا کردار اہم رہا ہے۔ ہر علاقے کا ایک اپنا انداز فکر ہوتا ہے جو دیگر عوامل سے متاثر ہوتا ہے اسی بنا پہ ایک ہی تحریک کے مختلف علاقوں میں مختلف نتائج نکلتے ہیں۔

صنفی امتیاز کا رونا نیا ہے نہ ہی صنفی مساوات کے لیے چلنے والی تحاریک نئی ہیں۔ عورت کے عالمی دن کو اقوام متحدہ کی جانب سے 1975 سے منایا جا رہا ہے۔ اس میں بنیادی مطالبہ صنفی مساوات کا ہے نہ صنفی برتری کا۔ یعنی سماجی، معاشی، سیاسی نظاموں میں عورت و مرد کو برابر کے حقوق حاصل ہونے چاہیے۔ اگر آپ ایک متوازن اور خوشحال معاشرہ چاہتے ہیں جسے انسانی معاشرہ کہا جائے تو یہ بالکل جائز مطالبہ ہے۔ اس کو مانا جانا چاہیے اور اس کا اطلاق انتہائی ضروری ہے۔

جیسے ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ ویسے ہی اگر کوئی عمل طویل عرصے تک پریکٹس میں رہے اور اس کا کوئی خاطر خواہ ردعمل نہ آئے تو ردعمل شدت سے سامنے آتا ہے۔ جب ردعمل کو دبا کے رکھا جائے تو بغاوت ابھرتی ہے۔ بغاوت ایک خودکار عمل ہے بلکہ ردعمل ہے۔ لیکن کہیں کہیں توزان بگڑتا ہے اور شدت کا ردعمل سامنے آتاہے۔ پاکستان میں ہونے والا 2019 کا عورت مارچ کچھ ایسی باتوں کو سامنے لایا۔ اس میں جہاں بالکل دانشمندانہ مطالبے تھے جو سماج میں برابری کے حوالے سے تھے وہیں چند لوگ ایسے بھی تھے جو اس انتہا کو پہنچے جو اس تحریک کو دبائے رکھے جانے کا ردعمل تھا۔

مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کہیں دیکھا یا سنا ہو کہ کوئی مرد ٹانگیں کھول کے بیٹھا ہو اور اس عمل کو سراہا جا رہا ہو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ مرد یا عورت نے بنا فطری عمل کیے جنسی تسکین حاصل کر سکیں۔ بدکردار اور بدچلن ہونا کسی کا ٹریڈ مارک ہو اور اسے اس پہ فخر ہو۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک طنز ہے اس سماج پہ جو آزادی کی خواہاں عورت کو ان القابات سے نوازتا ہے لیکن آپ کو حقوق کی جنگ لڑنا ہے تو طنز کے نشتر چلا کے اسے لڑنا ممکن نہیں۔ آپ کا پیغام واضح ہونا چاہیے آپ کو مسئلے کو آسان الفاظ میں ایڈریس کرنا چاہیے تاکہ اسے سمجھا جا سکے۔

یہ باتیں کہنے والے اپنی جگہ درست ہیں۔ سماج میں یہ مسائل ہیں۔ طویل عرصے سے ہیں ان کے خلاف لاوہ یوں کی ابلنا تھا اور یہ دور تک جائے گا۔ لیکن ایک مشکل پیدا ہوئی ہے۔ اصل بات جسے ایڈریس کیا جانا چاہیے وہ کہیں کھو گئی ہے۔ ہمارے سماج کا المیہ یہی ہے کہ ہم سنجیدہ باتوں کو مذاق میں اڑا دیتے ہیں اور ہلکی پھلکی باتوں کو سنجیدگی سے لے لیتے ہیں۔ اب بات ہو رہی لیکن ان چند پوسٹرز پہ جو شدت کا ردعمل ہیں۔ جہاں برداشت کا دامن ہاتھ سے نکل گیا اور وہ معاملات جنہیں سنجیدگی سے ایڈریس کیا گیا اس کی جانب کوئی توجہ نہیں ہے۔ سوچنا ضروری ہے۔ سمجھنا ضروری ہے۔ بات کہنا بھی ضروری ہے لیکن احساس ذمہ داری ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).