آزادی سے مادر پدر آزادی تک!


ہم لے کے رہیں گے آزادی، ہم چھین کے رہیں گے آزادی، ان نعروں سے یوں لگا جیسے یہ کشمیری خواتین ہیں جو بھارتی فوج کے مظالم سے تنگ آئی ہوئی ہیں اور یہ اپنی آزادی حاصل کرنے کے لئے یوں باہر روڈ پر بیٹھ کر احتجاج کر رہی ہیں۔ لیکن ان کے کپڑے، ہنستے مسکراتے لڑکوں کے ساتھ خوش گپیاں لگاتے، تصویریں بناتیں اور ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے پلے کارڈ اور ان پر لکھے جملے پڑھ کر پتہ لگا کہ یہ کوئی کشمیر کی مظلوم عورتیں نہیں ہیں بلکہ یہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے حقوق مانگتی خواتین ہیں۔

اپنے حقوق مانگنا ہر ایک کا حق ہے اورانسانیت کے دائرے میں رہ کر یہ خواتین اپنے جائز حقوق مانگتیں تو ان کو بہت سراہا جاتا۔ ہر پلیٹ فارم پر ان کی واہ واہ ہوتی اور ان خواتین کو جائز حقوق دلانے میں کئی مرد حضرات بھی ان کے حق میں لڑتے۔ ان کی زندگیوں کے مسائل حل کر کے بہتری کی طرف لانے کی کوششیں کی جاتیں۔ لیکن ان کے پلے کارڈ پر لکھے نعرے کچھ اس طرح سے تھے : میرا جسم میری مرضی، میں کھانا گرم کر دوں گی بستر خود گرم کر لو، میری شادی کی نہیں آزادی کی فکر کرو، میں آوارہ میں بد چلن، چادر اور چار دیواری ذہنی بیماری ذہنی بیماری، عورت بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے، نو بچہ دانی نو رائے۔ ان بیش بہا نا زیبا جملوں کے ساتھ ساتھ ایسی غیر اخلاقی تصویریں پوسٹروں پر آویزاں تھیں جنہیں دیکھ کر ایک مرد تو کیا خود ایک عورت بھی اپنا سر شرم سے جھکانے پر مجبور ہو گئی اور اس سوچ میں پڑ گئی کہ کیا یہ تھے عورت کے مسائل ’کیا ان کے لیے خواتین کا دن منایا جاتا ہے؟

ایسا نہیں ہے ’عورت کے بنیادی مسائل تو یہ تھے کہ بیٹی کو عزت دو، تعلیم میرا حق ہے، مجھے بیٹے کے برابر تعلیم دلواؤ، وراثت میں میرا حصہ دو، مجھے بھی انسان سمجھو، مجھے بیٹی ذات ہونے پر قتل نہ کرو۔ مجھے غیرت کے نام پر قتل نہ کرو۔ کیا ان تمام مسائل کا حل مل گیا تھا جو اس نام نہاد خواتین کی عالمی حقوق کی علمبردار تنظیم نے ایسے مسائل کو چھیڑا کہ جن کا نہ تو دین اسلام میں کوئی حل ملتا ہے اور نہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان کی کوئی کنجائش نکلتی ہے۔ اس عورت مارچ میں کچھ مرد حضرات بھی تھے اور ان کا کہنا تھا کہ یہ عورتیں ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ انہیں ان کے یہ حق ملنے چاہئیں اور ایک مرد نے اس عورت مارچ میں ان تمام مسائل کا حل یہ بتایا کہ نکاح کو ختم کر دینا چاہیے۔ جب تک نکاح ختم نہیں ہو گا تب تک عورت پر ایسے ہی ظلم ہوتا رہے گا۔

آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ یہ نکاح ختم کرنے والی بات کرنے والا شخص کس تہذیب کا پیروکار ہو سکتا ہے۔ عورت اور مرد کا وجود جب دنیا میں آیا تو سب سے پہلے بننے والا رشتہ میاں بیوی کا تھا جو نکاح کے ذریعے قائم ہوا۔ میں ایک عورت ہو کر یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا یہ مارچ خواتین کے حق میں نکالا گیا یا ان کے مسائل کو مزید بڑھانے کے لئے نکالا گیا؟ اس مارچ میں جس مرد سے چھٹکارا پانے یا اس کی وجہ سے درپیش مسائل کا حل مانگنے والی خواتین شاید یہ بھول گئیں کہ ایک مرد بیٹے کے نام پر خود پیدا کرتی ہیں۔

اگر شروع سے ہی اس بیٹے نام کے مرد کی تربیت اچھی کریں اور انہیں شروع سے ہی گھر کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مدد کرنے، اپنا کھانا گرم کرنے، اپنے موزے صحیح جگہ پر رکھنے، اپنی بہن کی اور دوسری لڑکیوں کی عزت کرنا سیکھائیں تو یہی مرد بڑا ہو کر اپنی بہن، بیٹی اور بیوی کی عزت کرے گا اور باقی کاموں میں بھی ان کی مدد کرے گا۔ مرد کا گھر کے کاموں میں مدد کرنا کوئی عیب نہیں ہے بلکہ یہ تو ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ اپنے کام خود کرنا پسند کرتے تھے۔ میں نے بہت سے ایسے مرد دیکھے ہیں جو کاموں میں اپنی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی مدد کرتے ہیں۔

خواتین کا عالمی دن آیا اور گزر گیا۔ لیکن اپنے پیچھے چند سوال چھوڑ گیا کہ کیا ایک دن کے اس مارچ سے سب خواتین کو ان کے حقوق مل گئے؟ کیا یہ خواتین کے بنیادی مسائل ہیں؟ کیا اسلامی معاشرے میں ان کی کوئی گنجائش نکلتی ہے؟ کیا یہ تنظیمیں اسلامی کلچر کو فروغ دے رہی ہیں؟ کیا ان نازیبا جملوں اور تصویروں والے پلے کارڈ اٹھائی ان لڑکیوں کو کوئی عزت دار گھرانے والے اپنی بہو بنائیں گے؟

خدارا سوچیں کہ ہم کس کلچر اور کس تہذیب کو فروغ دے رہے ہیں۔ چند عقل سے عاری خواتین کا یہ مارچ بہت سی دوسری خواتین کے لئے مسائل پیدا کرے گا۔ اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ مارچ کلنک کے ٹیکے کی طرح سب عورتوں کے منہ پر لگا دیا گیا۔ ان چند نام نہاد عورتوں کی وجہ سے عورت نام بد نام ہو کر رہ گیا ہے۔

اس حوالے سے میری حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ اس جیسی فتنہ پرست تنظیموں اور این جی اوز کے خلاف کارروائی کریں جو نئی نسل کو نئے فتنے اور بے راہ روی کی طرف مائل کر رہی ہے۔ اگر اس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو یہ فتنہ ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر دے گا اور پھر اس پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).