کیا خدا خواتین کے لئے نامہربان ہو سکتا ہے؟


گردش دوراں کہیے یا نصیب کا کوئی چکر، ہمارا ہر کام اکثر الٹا ہو جاتا ہے۔ لاکھ کوشش کریں اس سے بچنے کی مگر مجال ہے جو کبھی بچ پائے ہوں۔ اب یہی دیکھ لیجیے جو مضمون ہم نے خواتین کے عالمی دن سے پہلے لکھنا تھا وہ اتنے دن بعد لکھ رہے ہیں۔ کہا ناں اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے، یہ تو بس ہمارا ”نصیب“ ہے جو لکھنے والے نے اپنی من مرضی کا تحریر کیا ہے۔

ہم سب نے اس دن کے حوالے سے بہت سے مضامین شائع کیے ہیں۔ کچھ کو پڑھ لیا ہے اور کچھ انتطار کی قطار میں ہیں۔ آج کل میں پڑھ ہی لیں گے۔ ابھی تو لکھنا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے دو انتہا پسند مکتبہ فکر سامنے آئے ہیں۔ ایک وہ جو عورت کی آزادی سے خائف ہیں اور عورت کو پردوں کی تہہ میں چھپا کے رکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے نظریات کو مسلط کرنے کے لئے ”مذہب“ کا سہارا لیتے ہیں۔ اور مذہب میں سے بھی ”اپنی مرضی“ کا دین چن لیتے ہیں۔

ان کے نزدیک عورت ”فتنہ“ ہے جس پہ قابو پانا بے حد ضروری ہے۔ عورت کی ہر مرضی پہ ”قدغن“ لگی ہے۔ اس نے کیا کھانا ہے؟ کیا پہننا ہے؟ کہاں جانا ہے؟ کس سے ملنا ہے؟ اس کا فیصلہ اس کے ”والی وارث“ کریں گے۔ اس کا کام بس ”اطاعت شعاری“ اور فرمانبرداری ہے۔ مذہب اس معاملے میں کیا کہتا ہے یہ دین کے ”علمبردار“ بتانے سے گریزاں ہیں۔ عورت کو تعلیم دلانی ہے؟ کتنی دلانی ہے؟ کہاں دلانی ہے؟ اس کا فیصلی کرنے کا حق فقط ”مرد“ کے پاس محفوظ ہے۔ عورت کو صرف سر جھکانا ہے کہ اٹھانے پہ ”گردن“ تن سے جدا ہونے کا ڈر ہے۔ وہ جو کہا گیا تھا کہ ”علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے“۔ اس کی تشریح میں مرد شامل ہیں۔

بچپن میں ہم نے پڑھا تھا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پہ ”فرض“ ہے۔ نجانے یہ فرض قضا ہو گیا، یا پھر عورت کے مسلمان ہونے میں ابھی کوئی ”شک“ باقی ہے؟

لڑکی کی شادی کب ہو گی؟ کہاں ہو گی؟ کیسے ہو گی؟ یہ سوچنا اس کا کام نہیں۔ اس سے پوچھنا تو درکنار بتا دینا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا، اگر کوئی ”اعلی ظرف“ دل پہ ”جبر“ کر کے پوچھ ہی لے تو جواب میں صرف ”اقرار“ ہی سننا چاہتا ہے۔ ”شرع میں کوئی شرم نہیں“ کہنے والے اگر لڑکی کو اپنی زندگی کے اس موڑ پہ اپنی ”مرضی“ بتاتا دیکھ لیں تو ”بے شرمی“ کے سارے طوق اس کے گلے میں ڈال دیتے ہیں۔ اور ان کی زبان سے جھڑنے والے پھول اگر جو ”شرع“ دیکھ لے تو وہ بھی شرم سے پانی پانی ہو جائے۔

دوسرا طبقہ ایک اور انتہا پہ ہے۔ ان کے نزدیک حدودو قیود کا وجود ”غیر ضروری“ ہے۔ یہ آزادی کے ایسے حامی ہیں کہ مغرب کو بھی پیچھے چھوڑ بیٹھے ہیں۔

ہم دونوں انتہاوں کے سخت خلاف ہیں۔ کیا ”اعتدال“ سے مسائل کا حل نکلنا نا ممکن ہے؟ ہمارے مذہبی شدت پسند مذہب کی نرمی و رواداری سے واقف نہیں ہیں کیا؟ آج تک دین کی جتنی بھی تشریح ہوئی ہے سب مردوں نے ہی کی ہے۔ یہ معاشرہ تو ”مردوں“ کا ہے۔ اپنی ہی قوم کے خلاف تو کچھ لکھنے سے رہا۔ کیا مذہب نے سارے ”احکام“ عورت کے لئے اتارے تھے؟ اگر اتارے تھے تو کیا سب ”فرائض“ کی شکل میں تھے؟ حقوق پہ کوئی بات نہیں ہوئی تھی؟

وہ رب جس نے طواف اور سعی کے لئے عورت کو مردوں کے ساتھ چلتے رہنے کی آزادی دی ہے، کیا وہ اتنا نا مہرباں ہو سکتا ہے کہ اپنے ہی ”در“ پہ وقت نماز اسی عورت کو ”پچھلی“ صفوں میں بھیجنے کا کوئی ”حکم“ اتارے؟ اگر ایسا کچھ ہوتا تو عورت اور مرد کے لئے حج کا الگ الگ مہینہ ہوتا۔ طواف کے لئے علیحدہ وقت مقرر ہوتا۔ سعی کے سفر میں ”راستہ“ کوئی اور ہوتا۔

رب کعبہ کی قسم، وہ انسانوں پہ بہت مہربان ہے۔ لیکن اس مردانہ معاشرے نے مذہب کی تشریح اپنی پسند سے کی ہے۔ ان زمینی خداوں کو یہ گوارہ ہی نہیں کہ عورت بھی خود کو ”انسان“ سمجھے۔ اپنے حق کے لئے کوئی آواز اٹھائے، خود کو ان کی برابری کی سطح پہ لے آئے۔

ہم کوئی عالمہ دین نہیں ہیں، نہ ہی تبلیغ سے کوئی شغف رہا ہے۔ دین بس اتنا ہی پڑھا ہے جو ”پڑھا“ دیا گیا۔ اتنا ہی سمجھا ہے جو ”سمجھ“ میں آتا ہے۔ لیکن یہ جو عورت مارچ کے خلاف ”مذہب“ کی آڑ میں بحث ہوتی ہے وہ ہماری ”سمجھ“ سے باہر ہے۔ اگر کوئی ”قابل“ ہو تو ہمیں بھی یہ بتا دے کہ دین کی تشریح میں ان سوالوں کے جواب کہاں پہ ملیں گے؟ ملیں گے بھی یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر کیا یہ بہتر نہیں کہ اس کو دوبارہ سے سمجھا جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).