مودی دوسروں کو آئینہ دکھاتے ہیں لیکن خود نہیں دیکھتے


نریندر مودی ایک اچھے مقرر ہیں لیکن انتخابات کے موقع پر وہ صرف بولنے کی حد تک محدود نہیں رہنا چاہتے اس لیے کافی عرصے بعد انہوں نے کچھ لکھا ہے اور وہی لکھا ہے جس کی ان سے امید کی جا سکتی ہے۔

مودی کا یہ بلاگ ایسے وقت میں آیا ہے جب کانگریس کے تمام بڑے رہنما انکی اپنی ریاست گجرات میں ریلیاں کر رہے ہیں اور انہیں کھلے عام چیلنج کر رہے ہیں۔

انڈیا کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو دھچکا

’تاج محل مغل لٹیروں کی نشانی ہے‘

بی جے پی کو جو چاہیے تھا اسے مل گیا؟

بی جے پی کو 200 سال پرانا غدر کیوں یاد آیا؟

نریندر مودی نے اس سے پہلے گزشتہ برس اکتیس اکتوبر کو سردار پٹیل کی سالگرہ کے موقع پر بلاگ لکھا تھا۔مودی کے بلاگ کو لوگ تیرہ زبانوں میں پڑھ سکتے ہیں جن میں اردو بھی شامل ہے۔اس مرتبہ انکے بلاگ کا عنوان تھا ‘جب ایک مٹھی نمک نے برطانوی سامراج کو ہلا کر رکھ دیا‘۔

نریندر مودی

سردار پٹیل کی تعریف مودی کا بڑکپن ہے یا سیاسی چالاک

ایک مٹھی نمک کا ذکر اس لیے کیونکہ مہاتما گاندھی کی ڈنڈی مارچ کی سالگرہ ہے۔گاندھی کو مودی اکثر یاد کرتے ہیں لیکن انتخابات سے ٹھیک پہلے گاندھی جی کو یاد کرنے کا مقصد سیاست کا حصہ ہے۔ بلاگ کے شروعات میں مودی نے لکھا کہ کہ کیا اپ کو معلوم ہے کہ گاندھی جی کے ڈنڈی مارچ کا انتظام کس نے کیا تھا۔ دراصل اس کے پیچھے ہمارے سردار ولبھ بھائی پٹیل تھے۔ یہاں لفظ ہمارے کا استعمال گجراتیوں کےلیے بھی ہے اور بھکتوں کے لیے بھی اور بی جے پی کے لیے بھی۔ یہ پٹیل وہی ہیں جنہوں نے بطور وزیر داخلہ گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی لگا دی تھی۔

سردار پٹیل نے اس وقت آر ایس ایس کے سربراہ مادھو سدا شو کو ایک خط میں لکھا تھا ‘سنگھ نے ہندو سماج کی خدمت کی ہے لیکن اعتراض اس بات پر ہے کہ آر ایس ایس بدلے کی آگ میں مسلمانوں پر حملے کر رہی ہے اور آپکی ہر تقریر میں فرقہ وارانہ زہر بھرا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ملک کو گاندھی کی قربانی دینی پڑی’۔

مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس کے لوگوں نے خوشیاس منائیں تھیں او رمٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔ایسے میں حکومت کے لیے اس تنظیم پر پابندی لگانا ضروری ہوگیا تھا۔

اس کے بعد بھی اگر مودی سردار پٹیل کی تعریف کر رہے ہیں تو پتہ نہیں کہ یہ انکا بڑکپن ہے یا سیاسی چالاکی۔

مودی کا کہنا تھا کہ ‘بد قسمتی سے کانگریس گاندھی جی کے نظریے سے دور ہو چکی ہے’۔ مودی کی یہ بات کافی حد تک درست ہے کیونکہ کانگریس پر الزامات کی فہرست لمبی ہے جسے مودی بڑی آسانی سے سب کے سامنے رکھتے ہیں لیکن کانگریس پر تنقید کر کے مودی اپنی سیاست اور وراثت کو نہیں چھپا سکتے۔

مودی اور امبانی

انڈیا کی بڑی کاروباری شخصیات کے ساتھ موجودہ حکومت کے نزدیکی رشتے کہے جاتے ہیں

مودی نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ کانگریس نے ملک کےلوگوں کو ذات پات اور مذہب کی بنیادوں پر تقسیم کیا ہے اور بڑے بڑے فرقہ وارانہ فسادات کانگریس کے دور میں ہی ہوئے ہیں۔

مودی جی کے اس بیان کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو گجرات کے دنگوں او ر پچھلے پانچ سالوں میں ملک میں فرقہ وارانہ حالات کچھ اور کہانی کہہ رہے ہیں۔

مودی یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کانگریس میں سب کالاہے جبکہ بی جے پی میں سب اچھا ہے۔ لیکن کاش ایسا ہوتا۔

اپنے بلاگ میں مودی لکھتے ہیں کہ گاندھی جی نے قربانی کے جذبے پر زور دیتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ اپنی ضرورت سے زیادہ مال و دولت کے پیچھے بھاگنا درست نہیں جبکہ کانگریس کے رہنماؤ ں نے اپنے بینک کھاتوں کو بھرنے کا ہی کام کیا۔

راہل گاندھی اور سونیا گاندھی

مودی کانگریس پر موروثی سیاست کاالزام لگاتے ہیں

جبکہ کاروپوریٹ دنیا کے ساتھ موجودہ حکومت کے رشتے بھی ویسے ہی ہیں جیسے کانگریس کے ہوا کرتے تھے۔ کچھ لوگ وہ تصاویر بھی پیش کرتے ہیں جس میں ارب پتی مکیش امبانی وزیر اعظم مودی کی کمر پر ہاتھ رکھے نظر آتے ہیں۔

اندرا گاندھی کے دور حکومت میں لگنے والی ایمرجنسی کو کانگریس کی تاریخ پر ایک بد نما داغ کہا جاتا ہے اور اس حوالے سے کانگریس پر ہونے والی تنقید کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ مودی جی نے ایک بار پھر اس حوالے سے کانگریس پر نشانہ لگایا اور شق 356 کا حوالہ دیتے ہویے کہا کہ کانگریس نے اس شق کا غلط استعمال کیا اور جب کوئی رہنما اسے پسند نہیں آتا تھا تو اس کی حکومت کو ہی برخاست کر دیا جاتا تھا۔

وزیراعظم نے جو لکھا وہ سب درست ہے لیکن اگر انہیں پیمانوں پر بی جے پی کو پرکھا جائے تو کچھ مثالیں اپنے آپ یاد آ جاتی ہیں۔

اندرا گاندھی

اندرا گاندھی کے دور حکومت میں ایمرجنسی کے نفاذ کو کانگریس کی تاریخ کا بد نما داغ کہا جاتا ہے

2016 میں ریاست اروناچل پردیش میں حکومت گرا کر صدر راج کے نفاذ کے بی جے پی کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے غلط قرار دیا۔ اسی طرح ریاست اتراکھنڈ میں ہریش روات کی حکومت کو گرا دیا گیا تھا اس معاملے میں بھی سپریم کورٹ نے بی جے پی کے فیصلے کو غلط قرار دیکر ہریش راوت کی حکومت کو بحال کیا۔ یہ تو بات ہوئی شق 356 کے غلط استعمال کی اب جمہوری روایات کی بات بھی کر لیں خود بی جے پی کے سینیئر رہنما یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ ‘اندرا گاندھی نے آئین کو آئینی طریقے سے تباہ و برباد کیا جبکہ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے آئین کو تباہ و برباد نہیں کیا بلکہ آئینی اور جمہوری اداروں کو ہی تباہ کر دیا جس ے ایمرجنسی جیسے حالات پیدا ہو گئے۔‘

بحر حال مودی یہ تاثر بنا رہے ہیں کہ کانگریس موروثی سیاست کر رہی ہے اور وہ بے غرض خدمت گار ہیں جسے سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک سیاست ہے اور وہ بھی انتخابی سیاست۔ ابھی بہت کچھ لکھا اور بولا جائے گا لیکن سچ تو یہ ہے کہ مودی جی دوسروں کو آئینہ دکھاتے ہیں لیکن خود نہیں دیکھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp