عالمی یوم خواتین پر میرپور خاص کی بے بی کے ساتھ کیا ہوا؟


آٹھ مارچ کو جب عالمی یومِ خواتین آب و تاب سے منایا جارہا تھا اور اگلے دو تین پلے کارڈز پر بحث جاری تھی انہی دنوں سندھ کے ضلع میرپور خاص کی تحصیل حسین بخش مری میں میڈیکل کی طالبہ بے بی مری پر قیامت ڈھا دی جاتی ہے، اس کے ساتھ کیا ہوا یہ تو معمہ بنا ہوا ہوا ہے مگر پانچ دن بعد اس کی لاش ایک واٹر کورس سے ملنے کی دعویٰ کی جاتی ہے، رات کو دو بجے لاش ملنے کے بعد دو گھنٹے کے اندر تدفین ہوجاتی ہے اور کہانی یہ بتائی جاتی ہے کہ لڑکی نے خود کشی کی ہے۔

لڑکی کا تعلق ایک با اثر خاندان سے ہونے کی وجہ سے علاقے کے لوگ اس معاملے پر بولنے کے لئے تیار نہیں، لیکن جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق لڑکی کا خاندان جھگڑوں سے تنگ آکر کراچی منتقل ہوچکا ہے، لڑکی کے باپ مولا بخش کے جسم پر بھی گولیوں کے نشانات بتائے جا رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ لڑکی اپنے آبائی گاؤں سے کچھ فاصلے پر نازک آباد بستی میں بیاہی ہوئی اپنی بہن سے ملنے آئی تھی پھر پراسرار نمونے سے اس کی زندگی کا دیا بجھ جاتا ہے، یا بجھا دیا جاتا ہے۔

کہانی جو بتائی جاتی ہے وہ بھی بہت کمزور اسکرپٹ ہے۔ کہانی یہ ہے کہ 8 مارچ کی صبح لڑکی اپنے ایک کزن محمد بخش مری کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہی تھی، جمڑاؤ کینال کے پھڑڈو ریگولیٹر پر پنہچ کر وہ رفع حاجت کا بول کر موٹرسائیکل سے اترتی ہے اور پانی میں چھلانگ لگا دیتی ہے، پانچ دن تک لاش پانی میں رہتی ہے، جمڑاؤ کینال سے نکل کر ایک برانچ میں اور پھر ایک چھوٹے واٹر کورس میں پنہچ جاتی ہے، جہاں سے پانچ دن بعد نکال کر رات کی تاریکی میں تدفین کر دی جاتی ہے۔

اب پہلی بات تو یہ کہ ایسے خاندانوں کی لڑکیاں موٹر سائیکل نہیں گاڑیوں میں گھر سے نکلتی ہیں وہ بھی عموماّ پردے لگاکر، دوسری بات ایک نوجوان لڑکی جو کہ میڈیکل کی اسٹوڈنٹ بھی ہے، وہ نہر کنارے رفع حاجت کرنے کے لئے اترے گی؟ تیسری بات وہ بلا وجہ کیوں خود کشی کردے گی؟ اس سے بھی آگے، وہ لاش مچھلی کی طرح ایک کینال سے برانچ اور پھر ایک واٹر کورس میں پنہچ جاتی ہے مگر کسی کو دکھائی نہیں دیتی؟ چلئے ساری کہانی کو درست مان لیتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ رات کو دو بجے ملنے والی لاش بنا پوسٹ مارٹم کے اتنی عجلت میں دفن کردی جاتی ہے؟

ایک ایس ایم ایس کی بھی اطلاعات ہیں جو کہ مبینہ طور پر بے بی مری کا آخری ایس ایم ایس تھا جس میں وہ لکھتی ہے کہ ’یہ لوگ مجھے نہیں چھوڑیں گے، مجھے مار دیں تو تم دنیا کو یہ بات ضرور بتانا، ان کو چھوڑنا نہیں‘ اب یہ ایس ایم ایس کیا واقعی بے بی کا ہے؟ اور ہے تو اس نے کس کو کیا تھا؟ پولس اس حوالے سے بھی کوئی بات کرنے سے گریزاں ہے۔

جس دن بے بی مری کی لاش ملنے کی خبر آئی، اسی دن مذکورہ علاقے سے ایک نوجوان جاوید سمو کی لاش بھی ملی ہے، جو کہ بے بی مری کے گاؤں میں ان کے آبائی گھر کا باورچی بتایا جاتا ہے، ضلع تھرپارکر کی تحصیل چھاچھرو کے گاؤں متھرن جی دھانی سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کی موت کیسے واقع ہوئی اور کیا اس کا کوئی تعلق بے بی مری کیس سے ہے یا نہیں اس حوالے سے بھی پولس نے بظاہر کوئی تفتیش نہیں کی۔

اب ذرا پولیس کا موقف سنئے، جو عجیب بھی ہے تو مضحکہ خیز بھی، ایس ایس پی میرپورخاص عابد بلوچ کا کہنا ہے کہ لڑکی کو ایک چنگچی (موٹرسائیکل رکشہ) چلانے والے نے دیکھا کہ وہ موٹر سائیکل سے اتری اور پانی میں چھلانگ لگادی، خود کشی کے لئے یہ شہادت موجود ہے، پھر لاش کی تلاش کی گئی، پانچ دن کے بعد جب لاش ملی تو ورثاء نے اس لیے جلدی تدفین کردی کہ شاید لاش کی حالت ایسی تھی، جب ان سے پوچھا گیا کہ پولس نے پوسٹ مارٹم کرانے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی تو کہنے لگے کہ چونکہ معاملہ ”ننگ داری“ یعنی گھر کی عورتوں کا تھا اس لیے اگر پولیس زیادہ مداخلت کرتی تو معاملہ بگڑ سکتا تھا، اس لئے ان کو تدفین کرنے دی گئی۔ بار بار سوال کرنے پر انہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑالی کہ اب عدالت سے رجوع کیا جائے گا، اگر اجازت ملی تو قبر کشائی کرکے پوسٹ مارٹم کروایا جاسکتا ہے۔

آپ ذرا سوچئے جو پولس محض ننگ داری کا سبب بتاکر لاش کی پوسٹ مارٹم نہیں کرواتی، وہ قبر کشائی کے لئے کیسے سنجیدہ ہوگی؟ اس وقت یہ نام نہاد ننگ داری کہاں چلی جائے گی؟

جس دن بے بی مری کی لاش کو اس عجلت میں دفن کیا جاتا ہے، اسی دن میرپور خاص میں اوڈ گھرانے کی ایک لڑکی کو ہسپتال لایا جاتا ہے، جو بھی خودکشی کا معاملہ بتایا جاتا ہے، لڑکی کے فوت ہوجانے کے بعد پولس پنہچ جاتی ہے، پوسٹ مارٹم سے انکار پر لڑکی کے گھر والوں سے جھگڑا ہوجاتا ہے، بڑی تعداد میں پولس نفری طلب کی جاتی ہے، ورثاء سے جب ایمبولنس بھی چھین لی جاتی ہے تو وہ لاش کا اسٹریچر پیدل اٹھا کر لے جاتے ہیں پھر پولس ان کے گھر تک پنہچ جاتی ہے اور معاہدہ کرکے آتی ہے کہ پوسٹ مارٹم نہیں صرف معائنہ ہوگا، دوبارہ لاش ہسپتال لائی جاتی ہے، جیسے تیسے قانونی تقاضے پورے کرکے لاش آخری رسومات کے لئے ورثاء کو دی جاتی ہے۔

ایک ہی دن ایک ہی ضلع کی پولس کا کردار دو واقعات میں اتنا مختلف کیسے ہو سکتا ہے؟ اس بات کا جواب ایس ایس پی میرپور خاص عابد بلوچ کے پاس بھی نہیں ہے۔

بے بی مری کے معاملے کو سندھی میڈیا میں بھرپور کوریج مل رہی ہے دیکھتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی دعویدار تنظیموں میں سے کون اپنا کردار ادا کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).