دشت کے صحرا کا ایک خواب


ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ایک ملک تھا جس کی زمین نے جوان مردوں کی لاشیں اگلنا شروع کردیں۔ ان میں سے اکثر لاشیں مسخ شدہ تھیں۔ جن کے حلقوم سے اتنی شدید اذیت ناک چیخیں برآمد ہوتی تھیں کہ سننے والے تمام کان بہرے ہوگئے۔ جس جس نے بھی ان کے مسخ زدہ گلے سڑے چہرے دیکھ لئے ان کی آنکھیں اندھی ہو گئیں۔ جس کسی نے بھی ان کی موت کی وجہ پوچھی اسے تیز آندھی کا جھکڑ اڑا لے گیا اور پھر کچھ عرصے بعد وہ خود مسخ شدہ لاش بن کر زمین کے پیٹ سے اگل آیا۔

یہ سلسلہ چند سال تک چلتا رہا پھر وہ ملک برباد ہوگیا۔ وہاں موجود تمام انسان ختم ہوگئے بس دوردراز کے علاقوں میں کہیں کہیں چند بستیاں رہ گئیں جہاں بونے رہتے تھے۔

کچھ عرصہ تک وہ بونے اس تاریخ سے آگاہ رہے کہ وہ مسخ شدہ انسانی لاشوں کے اگالدان کا منفی ارتقاء ہیں۔ مگر کچھ ہی سالوں میں ان کی زبانیں کھنچنے لگیں اور وہ بونے کیا، کیوں، کیسے، کب، کون، کہاں جیسے الفاظ بولنے سے قاصر ہوتے گئے۔ جوں جوں منفی ارتقائی عمل کے تحت ان کی زبان محدود ہوتی گئی توں توں ان کی آنکھیں مختلف اور متنوع مناظر دیکھنے کی قدرت سے محروم ہونے لگیں۔ کچھ سالوں تک مسلسل محدود زبان اور محدود بصیرت کے ساتھ زندہ رہنے کے بعد انہیں مختلف آوازوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔

وہ عورت اور مرد کی آواز کے تفاوت سے چڑنے لگے تھے۔ انہیں عورتوں کے وجود کے پیچ وخم بھدے لگنے لگے تھے اور ان میں یہ یقین ابھرنے لگا تھا کہ عورت محض تعفن زدہ دماغی کیفیت کا نام ہے جسے محض اس لئے باقی رکھا جائے کہ اس کے بدن سے نئے بونے پیدا ہوتے رہیں۔ وہ نئے پیدا ہونے والے بونوں کو ان عورتوں سے نفرت کرنا سکھاتے جنہوں نے انہیں پیدا کیا تھا۔

یکایک ان میں ایک اور عجیب رویہ بھی جنم لینے لگا تھا کہ وہ ارد گرد کی تمام دنیا اور اس کے تمام باسیوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے تھے۔ ان میں اس یقین کے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تھا کہ وہی دراصل انسان ہیں اور ان کا ملک اور رہن سہن ہی مثالی معاشرہ ہے۔ اس یقین کے لوگ اس بونے سماج میں اس قدر مضبوط ہوگئے کہ انہوں نے اپنی زبان کو الہامی اور اپنے رہن سہن کو خدائی احکامات کہلانا شروع کردیا۔

چند سال مزید یہ سلسلہ باقی رہا کہ ایک روز صبح کے سورج کی کرنیں جب اس ملک کی زمین پر پڑیں تو ایک صحرا میں موجود وہ 131 قبریں جن میں وہ مسخ شدہ جوان لاشیں امانت کے طور پر ایک ایک کرکے دفن کی گئی تھیں پھٹ گئیں۔ ان میں گلی سڑی بھربھری ہڈیوں والے ڈھانچے اٹھے اور ایک دوسرے کے گلے لگ لگ کے رونے لگے۔ ان کے رونے کی آوازیں اس قدر اونچی تھیں دور دراز بونوں کی بستیوں میں موجود عورتوں کے حمل گر گئے۔ اس ملک میں موجود تمام قبرستانوں میں موجود قبروں سے رونے اور بین کرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ وہ آوازیں مختلف زبانوں میں کیے گئے بین تھے۔

عین اس منظرمیں قریب سے کہیں گزرتی ایک عورت نے اس لمحے ایک بچے کو جنم دیا تو حیران کن طور پر وہ بچہ بول پڑا۔

یہ کون ہیں؟ انہیں کیسے مارا گیا؟ انہیں کیوں مارا گیا؟

جب اس بچے نے یہ سوال پوچھے تو وہ ڈھانچے زور زور سے اونچی آواز میں قہقہے لگانے لگے۔ اس بچے کی ماں نے اس کا منہ اپنی ہتھیلی سے بھینچ دیا اور دبی دبی آواز میں بولی۔

شش! چپ ہوجاؤ بچے میرے بچے۔ بوسیدہ اخباروں میں لکھا تھا کہ ان قبروں میں دفن جوانوں نے بھی ایسے سوال پوچھے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).