ہے کوئی جو سالنگ کو اُس کی ماں کے پاس پہنچا دے؟


سالنگ کی بد بختی تو اُسی دن شروع ہوئی جب وہ افغانستان میں پیدا ہوا۔ مگر یہ دُکھ تو اُن د کھوں کا عشرعشیر بھی نہ تھا۔ جو اُس کی قسمت میں لکھ دیے گئے۔ سالنگ اتنا بد قسمت کیونکر ہوا۔ کیا واقعی یہ سب اُس کے نصیب میں تھا یہ پھر کوئی پلان تھا۔ برسوں پُرانا پلان۔ جس میں اُس کے بڑوں کا بہت بڑا کردار تھا۔ جو اِس خطے کا ہر پیدا ہونے والا بچہ ہی بد نصیب نکلا۔ ہر بچے کی تقدیر سالنگ یا پھر سالنگ سے بھی بد تر ہے۔ او ر آنے والی سات نسلیں بھی وہ سب بھگتیں گی جو پچھلی سات نسلوں نے بھگتا۔ مگر کسی نے مذمت تک نہ کی بلکہ اس جنگ کو مقدس بنا کر پیش کیا گیا۔

جنگ کے اثرات کی اِس سے بُری تشریح اور کیا ہو سکتی ہے۔ جو سالنگ کے چہرے پر لکھی تھی۔ وہ دُکھ، وہ ویرانی، سراپا اُداسی، بچپن کی کو ئی جھلک ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ مشکل سے گیارہ سال کی عمر میں اُس نے وہ سب دیکھ لیا جو میں نے، آپ نے اپنی عمر ِ رفتہ میں نہ دیکھا۔ اُس کے گردوں نے پانچ سال پہلے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ پہلی ملاقات میں، میں نے جب اُس کا نام پوچھا تو اُسنے جواب دیا کہ ”سالنگ“ (شاید اُس کے والدین کو پتا تھا کہ اِس چھوٹے بچے نے اپنی راہیں خو د بنانی ہیں تب ہی اُس کا نام سالنگ رکھ دیا) میں نے شرارتا کہا کہ ”ارے سالنگ تو افغانستان میں بہتا ہے یہ یہاں کیا کر رہا ہے۔

تو وہ جیسے افغانستان کے نام پر اُچھل پڑا ا ور بولا ”کیا؟ آپ کو افغانستان پتا ہے“ میں نے کہا ”ہاں کیوں نہیں“ تو وہ بولا ”پھر تو قندھار بھی پتا ہو گا“۔ میں نے کہا ”ہاں نا کوئٹہ کے قریب ہی تو ہے۔ مگر تم کیو ں پوچھ ر ہے ہو۔ وہ انتہائی معصومیت سے بولا کہ آپ مجھے قندھار پہنچا سکتی ہیں؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا مگر تم قندھار کیوں جانا چاہتے ہو؟ اِس پر جو اُس معصو م فرشتے نے جواب دیا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

”باجی میں اپنی ماں کے پاس جانا چاہتا ہوں مجھے میری ماں بہت یاد آتی ہے۔ پانچ سا ل ہو گئے میں نے نہ اپنے ماں باپ کو نہ اپنے بہن بھائیوں کو دیکھا ہے۔ مجھے رات کو بہت ڈر لگتا ہے۔ مگر میں کس کو بتاؤں۔ مجھے بہت درد ہوتا ہے مگر میں کس کو بتاؤں۔ جب میں افغانستان میں تھا تو میری ماں خو د مجھے کھانا کھلاتی کیونکہ میں بیمار تھا وہ سب کے لئے چپاتی بناتی مگر میرے لئے بغیر نمک کی ٹکی بنا کر کھلاتی۔ رات کو میری ٹانگوں میں درد ہو تا تو دباتی رہتی۔

اگر گردوں میں درد ہوتا تو پیٹھ سہلاتی رہتی یہ سب بولتے ہوئے اُس کی ویران آنکھیں او ر بھی ویران ہو گئیں۔ شا ید وہ رونے کا سلیقہ بھی بھول چُکا تھا۔ پھر پُوچھا آپ کی قندھار میں کوئی شناخت ہے؟ میں جو بُت کی طرح بیٹھ کر اُ س کی کہانی سُن رہی تھی اپنے آنسو روک نہ پائی اور پُوچھا اگر تمھارے ماں باپ بھائی بہن سرحد کے اُس پار ہیں تو آپ یہاں کیوں ہو؟ وہ بولا باجی قندھار میں ایک ڈائیلیسس (گردوں کی صفائی) پر پانچ ہزار روپے لگتے ہیں میر ا باپ مزدوری کرتا ہے۔

ُاس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ ہفتے میں دو دفعہ میرا ڈائیلیسس کرواتا اُنہیں کسی نے بتایا کہ کوئٹہ میں ڈائیلیسس مفت ہوتا ہے تواُنہوں نے مجھے یہاں پاکستان ہمارے دُور کے رشتے داروں کے ہاں بھیج دیا۔ اب پانچ سال سے میں اُن کے گھر میں رہتا ہو ں او ر ہفتے میں دو دفعہ ہسپتال آتا ہو ڈائیلیسس کروانے۔ باجی کیا آپ بھی قندھا ر کی ہیں؟ ایسا نام تو میں نے قندھار میں بہت سُنا ہے۔ میں نے اُسے کہا گلالئی، ملالئی، پلوشہ، زرلشتہ، زرغونہ بھی سرحد کے دونوں پار ہیں ٹھیک ایسے ہی جیسے ساحر، گلزار، منٹو سرحد کے دونوں پار ہیں۔

اُسے میری بات سمجھ نہیں آئی پھر پوچھ بیٹھا، قندھار میں آپ کی کوئی شناخت ہے؟ مجھے وہاں سے مفت ڈائیلیسس کروا دیں جیسے یہاں پر آپ کے ہسپتال والے کرتے ہیں میں نے اُس کی تسلی کے لئے بول دیا ہاں کچھ کرتے ہیں۔ وہ پھر بولا ”باجی میں اپنے رشتے داروں کے گھر نہیں رہنا چاہتا آپ لوگ مجھے اسی ہسپتال میں ایک کمرہ دے دیں“ مگر تمھارا کون خیال کرے گا یہاں۔ وہ بولا ”ڈاکٹر ثوبیہ بہت اچھی ہیں وہ میر ا خیال رکھیں گی“

ارے بیٹا! وہ بھی تو رات کو گھر چلی جاتی ہیں۔ اتنے میں ڈاکٹر ثوبیہ آ گئیں اور پیار سے سالنگ کو دیکھا۔ سالنگ تم یہاں بیٹھے ہو چلو تمھارے ٹیسٹ کروانے ہیں۔ اور سالنگ ثوبیہ کا پلو پکڑے چل دیا۔

اگلی جمعرات کو سالنگ نئے جوتوں اور نئے کپڑوں میں ملبوس نظر آیا میں نے پُوچھا ارے یہ نئے کپڑے کہاں سے آئے؟ اور کہاں کی تیاری ہے؟ وہ بولا وہ ڈائیلیسس والا بلال ہے نا اُس نے لے کر دیے ہیں یہ کپڑے آپ ہی تو کہہ رہی تھیں کہ تمھیں مورکئی ( ما ں ) کے پاس بھیج دوں گی۔

World Kidney Day

Kidney Health for Every One، Every where

بینر میرے ہاتھ میں ہے اور میں ورلڈ کڈنی ڈے منا رہی ہوں۔
اور سالنگ ہم سب کے منہ پر طمانچہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).