مسلم لیگ (ن) اور آج کا نوجوان


”مسلم لیگ (ن) دائیں بازو کی ایک جماعت ہے جس کا ووٹر زیادہ تر کاروباری طبقہ کے افراد پر مشتمل ہے یہ ایک خاموش ووٹر ہے جس کو احتجاجی سیاست پسند نہیں ہے جو صرف الیکشن کے وقت سامنے آتا ہے اور میاں صاحب کے لئے ووٹ ڈالتا ہے“ یہ الفاظ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں۔ (بچپن سے ہماری مراد نوے کی دہائی ہے ) اور آج بھی محترم سہیل وڑائچ صاحب ٹی وی پر بیٹھے یہی تجزیہ دے رہے ہوتے لیکن پچھلے پانچ سالوں میں ایک بڑی تبدیلی اس جماعت میں دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس پارٹی سے آ کے جڑی۔

ان نوجوانوں میں زیادہ تر دو طرح کی سوچ والے ہیں۔ ایک طبقہ تو وہ پنجابی نوجوان ہیں۔ جو میاں صاحب کے انٹی اسٹیبلشمنٹ موقف کی وجہ سے ان کے ساتھ ہی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوئے اس سے پہلے یہ طبقہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے مواقف کی حمایت کرتا آیا تھا۔ دوسرا طبقہ وہ پنجابی نوجوان ہیں۔ جو سول بالا دستی کے اصولی موقف کے ساتھ کھڑے تھے اور 2013 سے پہلے تک پیپلز پارٹی کو اس اصولی مواقف کی وجہ سے ساتھ دیتے آ رہے تھے لیکن پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ خراب معاشی حالات کی وجہ سے ان سے دور ہوئے یہ نوجوان اس جماعت کے ساتھ کیسے جڑے؟

اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے تین کارنامے اس جماعت کے لئے بڑے گیم چینجر ثابت ہوئے ہیں۔ ایک پاکستان کو معاشی بحران سے نکلنا، دوسرا ملک میں بے تحاشا ترقیاتی کام اور تیسرا اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف اختیار کرنا ان تین کارنامے نے پنجابی جوان کو یہ امید دی کہ ہماری لیڈرشپ پاکستان کو حقیقی معنوں میں آگے لے کے جا سکتی ہے اور موجودہ سیاسی لیڈرشپ میں میاں صاحب ہی وہ واحد لیڈر ہیں جو پاکستان کو ترقی یافتہ اقوام میں جگہ دلا سکتے ہیں، اس کے ساتھ مریم نواز کا ایک نوجوان لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آنا بھی نوجوانوں کی امید کے لئے مزید باعث تقویت بنا۔

نتیجہ یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) جو آج تک صرف خاموش کاروباری طبقہ کی نمائندہ سمجھی جاتی تھی پورے پاکستان سے پڑھے لکھے، ترقی پسند اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ نوجوان کی پسندیدہ جماعت بن گئی جس کا ایک مظہر ہم سوشل میڈیا پر بھی دیکھتے ہیں۔ کہ کہاں وہ دور جب تحریک انصاف کے ٹرینڈز کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کا کوئی مضبوط ٹرینڈز نہیں ہوتا تھا اور آج حالات الٹ ہو چکے مگر میاں صاحب کے ساتھ ہونے والی حالیہ زیادتیوں پرمسلم لیگ (ن) کی بقیہ قیادت کی خاموشی پریہ ووٹر پریشان ہے اور اضطراب کا شکار ہے مریم نواز کی پر اسرار خاموشی اور شہباز شریف کی ”پنگا نہ لینے“ کی حکمت عملی اس ووٹر کو ابہام کا شکار کر رہی۔

آج کا مسلم لیگ (ن) کا نوجوان ووٹر یہ سمجھتا ہے کہ ایک بھرپور سیاسی اور احتجاجی تحریک ہی مخالفوں پر ایک پریشر بنا سکتی ہے۔ وہ سجھتے ہیں جیسے پچھلے مہینے پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کی خبروں کے جواب میں پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ بلخصوص بلاول نے بھرپور انداز میں مزاحمت کی اور اسٹیبلشمنٹ کو بیک فٹ پر جانے پر مجبور کیا اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی قیادت سامنے آ کر بات کیوں نہیں کر سکتی۔ دوسری مثال وزیرستان سے اٹھنے والی پی ٹی ایم کی تحریک جس نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔

اور اگر خاموش ہی رہنا ہے تو کم از کم اس نوجوان طبقے کو اعتماد میں تو لیا جائے مگر قیادت کی طرف سے بدستور خاموشی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ قیادت کی خاموشی سے نالاں نوجوان رضا کار خود ہی تحریک چلانے پر آ گئے ہیں۔ دوسری طرف بلاول ایک مضبوط متبادل قیادت کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں۔ ان کی حالیہ میاں صاحب سے ملاقات ان کو نوجوانوں میں مزید مقبول کر رہے ہیں۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بلعموم اور مریم نواز کو بلخصوص خاموش توڑنی ہو گی سامنے آنا ہو گا اور نوجوانوں کواعتماد میں لینا ہو گا اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اور مسلم لیگ (ن) کا مضطرب نوجوان (جو آپ کی اتنی محنت سے آپ کے ساتھ جڑا) متبادل قیادت کی طرف دیکھنا شروع ہو جائے اور آپ ایک بار پھر سے اسی نہج پر آ جائیں کہ جہاں ”مسلم لیگ (ن) دائیں بازو کی ایک جماعت ہے جس کا ووٹر زیادہ تر کاروباری طبقہ کے افراد پر مشتمل ہے یہ ایک خاموش ووٹر ہے جس کو احتجاجی سیاست پسند نہیں ہے جو صرف الیکشن کے وقت سامنے آتا ہے اور میاں صاحب کے لئے ووٹ ڈالتا ہے“ (باقی تسیں آپ سمجھدار او)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).