بادشاہ سلامت!


کہتے ہیں کسی کی بیماری پر بات یا اس کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے، کیونکہ یہ آزمائش اللہ تعالٰی کی طرف سے آتی ہے، مجھے ڈاکٹری نہیں آتی اس لیے زیادہ بات کرنا مناسب نہیں ہے، لیکن ہمارے ملک میں ایک شاہی بیمار موجود ہیں، جن کی بیماری ایک قومی مسئلہ بن گیا ہے، ہر ٹی وی چینل، اینکر، تجزیہ کار ہر بندہ میاں نواز شریف کی بیماری کو لے کر بیٹھا ہے، پچھلے ایک ہفتے سے ایک قومی مسئلہ بن کہ رہ گیا ہے۔ کیا یہاں بے روزگاری ختم ہو گئی ہے؟

کیا فی کس آمدنی میں اضافہ ہو گیا ہے؟ کیا بیرونی قرضے اتر گے ہیں؟ کیا ساہیوال میں روتے ہوئے تین پچوں کو انصاف مل گیا ہے؟ کراچی میں پانچ بچے غیر معیاری کھانا کھانے سے موت کے منہ میں دھکیل دیے جاتے ہیں، لیکن نہیں ہمارے لیے میاں صاحب کی بیماری کی ہیڈ لائن زیادہ ضروری ہے۔ حریت یہ ہے، کہ ایک قیدی کی بیماری پر پورا پورا بلیٹن اور ٹاک شو کیے جاتے ہیں، کیا میاں صاحب کی بیماری میرے مستقبل، زندگی، بنیادی حقوق، روزگار سے زیادہ اہم ہے۔

عثمان بزدار، شہباز گل، فواد چوہدری اور اب تو وزیراعظم عمران خان نے بھی بادشاہ سلامت ہے، گزارش کی ہے، کہ آقا اپ جہاں چاہیں جس جگہ چاہیں علآج کروائیں، ہم اپ کو ہر سہولت فراہم کرنے کو تیار ہیں، پوری حکومتی مشینری میاں نواز شریف صاحب کو منانے میں لگی ہوئی ہے، پر عجیب تعصب ذہنیت ہے، کہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں، کہتے ہیں کہ علآج کہ نام پر تضحیک کی جا رہی ہے، مختلف ہسپتالوں میں چکر لگاواے جا رہے ہیں، میں نے یہاں علآج نہیں کرنا۔

میاں صاحب کے ارادے باہر جانے کے ہیں، پھر کہتے ہیں، حکومت سیاست کر رہی ہے۔ میاں صاحب سیاست تو آپ کے لوگوں نے شروع کی، سینیٹر پرویز رشید نے کہا ان کا علآج شروع سے ہی لندن میں ہوا ہے، اب بھی وہیں ہونا چاہیے، رانا ثناءاللہ نے بھی اس سے ملتی جلتی بات کی، اپ کی ایک خاتون رکن پنجاب اسمبلی ہنا بٹ صاحبہ نے صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی ہے، کہ میاں صاحب کو باہر جانے دیا جائے، میاں صاحب سیاست تو آپ نے شروع کی۔

میاں صاحب اس وقت ایک قیدی ہیں، ایک وہ عام قیدی جس کے بیمار ہونے پر جیل کے ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے، اس سے اس کی مرضی نہیں پوچھی جاتی، کہ جناب آپ کو ہسپتال لے جائیں یا نہیں، یا کون سے ہسپتال یا معالج کے پاس لے جائیں، پر یہاں تو وزیراعظم سے لے کر ہر حکومتی بندہ منتیں کرنے میں لگا ہوا ہے، عجیب تماشا ہے، ایک فرد ریاست سے زیادہ اہم ہے، وہ شخص جسے اس ملک کی سب سے بڑی عدالت بد دیانت قرار دے چکی ہے۔ ابھی کل خبر آ رہی تھی کہ جیل میں ایک ایمبولنس کھڑی کر دی گئی ہے، واہ یہ کسی عام قیدی کے لیے کیوں نہیں ہوتا، سوال یہ ہے، کہ ایک قیدی جو میری جیسی اوقات کا مالک ہے اسے کیا میاں صاحب جیسی گزارشیں کی جاتی ہیں؟

سعد رفیق کہتے ہیں، کہ میاں صاحب کے جیل کے کمرے کا چونا گرتا ہے، واہ سبحان اللہ مطلب ان کو جاتی امراء جیسا محل بنا کر پیش کریں، سمجھ یہ نہیں آ رہی قیدی قیدی ہوتا ہے، چاہیے وہ کوئی بھی ہو، الٹا ان سیاستدانوں کو ڈی کیٹیگری میں ڈالنا چاہیے، یہ زیادہ اس سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔ ہر روز ہیڈ لائن چلتی ہے، کہ میاں صاحب کی بیماری یہ میاں صاحب کی بیماری وہ، بھائی یہ کیا مذاق ہے، قوم کے ساتھ اس وقت وہ ایک مجرم ہے، وہ ایک کروڑ تیس لاکھ ووٹرز کا نمائندہ نہیں ہے، اس سے قیدی والا ہی برتاؤ ہونا چاہیے۔

ن لیگ کے راہنما ٹی وی پر بیٹھ کر کہہ رہے ہوتے ہیں، کہ وہ تین دفعہ اس ملک کا وزیراعظم رہا، اسے رعایت ملنی چاہیے، میں صدقے واری جاواں اس لیے بنایا تھا وزیراعظم، کہ کل کو ہمارے لئے ہی مسئلہ بن جاو، اللہ تعالی میاں صاحب کو صحت عطا فرمائے، وہ جلد صحت مند ہو کر سزا پوری کر کے پارٹی کی بھاگ دوڑ سنبھالیں، ہمیں میاں صاحب یا ان کی بیماری پر نا کوئی اعتراض ہے، نا میں بات کر رہا ہوں، میں صرف اس رویے کی مخالفت کر رہا ہوں، جو اپنایا جا رہا ہے، وہ تین دفعہ کا وزیراعظم ہے، وہ جو چاہے کریں ہمیں اسے قومی مسئلہ نہیں بنانا چاہیے، اگر اپ کبھی سال میں ایک دن باقی لاکھوں قیدیوں کے لیے نکالتے، تو پھر ٹھیک تھا پر یہاں مختاراں مائی کی اپیل اٹھ سال بعد سپریم کورٹ میں سنی گئی، نا اس کیس کا کسی کو پتا ہو گا، نا مختاراں مائی کا کسی کو پتا ہو گا، کیونکہ یہاں تو سابق وزیراعظم کو ہی ہر طرف ڈسکس کیاجا رہا ہے، ستر سال ان کی عمر ہے اچھے خاصے سمجھدار ہیں، ہم ٹی وی پے بیٹھ کر یہ کہہ رہے ہوتے ہیں، کیا میاں صاحب کو وہ کرنا چاہیے؟

کیا میاں صاحب کو یہ آفر لینی چاہیے؟ ابھی کل ہی خورشید شاہ صاحب فرما رہے تھے، کہ اگر میاں صاحب کو کچھ ہوا تو قتل تصور ہو گا۔ اس پر بھٹی صاحب کا ایک شعر پیش خدمت ہے۔ ”سب کا حق لے کر بھی محروم نظر آتا ہے اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے“ وہ خود جو چاہیں فیصلہ فرمائیں، ہم کس رشتے سے انہیں ڈسکس کر رہے ہیں، اس ٹائم وہ وی وی آئی پی نہیں ہیں، وہ ایک قیدی ہیں، اگر عمران خان صاحب میاں نواز شریف کے لیے بیان دے سکتے ہیں، تو باقی قیدیوں کے لیے بھی بیان دے دیتے یہ امتیازی سلوک کیوں؟

آج بلاول بھٹو زرداری صاحب اسی جیل میں میاں صاحب سے ملنے گئے، جہاں ان کے والد کو رکھا گیا میاں صاحب کے بنائے ہوئے جعلی کیس کی وجہ سے، جب ان سے یہی سوال پوچھا گیا، تو کہتے ہیں میں انسانی ہمدردی کی وجہ سے گیا بندہ ان سے پوچھے کیا کوٹ لکھپت جیل میں انسان صرف نواز شریف ہی تھا؟ جو حال سندھ کا ہے، اس پر یہ جواب ہمارے منہ پر تھپڑ مارنے کے مترادف ہے۔ ”مودی کے یار کو ایک دھکا اور دو“، ”دھرتی کا ناسور“ ، ”جاتی امراء کا مجیب الرحمان“ سب کچھ تو بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا پھر یہ انسانی ہمدردی کہا سے جاگ گئی۔

کیا یہ ایک مجرم اور ملزم کی ملاقات تھی؟ شاید میاں صاحب اپنا کیس خراب یا کمزور نہیں کرنا چاہتے، جو انہوں نے صحت پر ضمانت کا سپریم کورٹ میں کیا ہوا ہے، اس سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہی ضمانت کی درخواست مسترد کی تھی، اور کہا کے میاں صاحب کو وہ تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، جو اس ملک کے عام آدمی کو فراہم کی جوتی ہیں۔ میری دعا ہے، کہ میاں صاحب کو اللہ تعالی صحت عطا فرمائے ان کو لمبی عمر اتا فرمائے۔ گزارش صرف اتنی ہے، کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، اور ہونا بھی چاہیے، ’دو نہیں ایک پاکستان‘ کا نعرہ لگانے والے آج میاں صاحب کو دوسرے قیدیوں پر اہمیت دے رہے ہیں، یہ نہیں ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).