انڈمان: انڈیا کا ایک ایسا گاؤں جہاں لوگ جوتے نہیں پہنتے


انڈمان

Kamala Thiagarajan
میں یہ منظر دیکھ کر حیران ہو رہی تھی کہ سکول جاتے بچے اور نوجوان اور اس کے ساتھ ساتھ کام کے لیے نکلے جوڑے آرام سکون سے جوتے اپنے ہاتھوں میں اٹھائے چل رہے تھے

ایک انڈین ہونے کی وجہ سے مجھے کبھی ننگے پاؤں چلنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوئی۔ مجھے کئی سالوں سے اپنے، دوستوں یا رشتہ داروں کے گھر یا مندر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے اتارنے کی عادت ہے۔

اس عادت کے باوجود میں نے جو کچھ انڈمان میں دیکھا اس کے لیے میں تیار نہیں تھی۔

انڈمان جنوبی انڈیا کی ریاست تمل ناڈو کے دارالحکومت چینئی سے 450 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں 130 گھرانے رہتے ہیں اور وہ قرب و جوار کے چاولوں کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔

میری ملاقات 70 برس کے مُکھن اروموگم سے ٹھیک اس وقت جب وہ گاؤں کے باہر ایک بڑے نیم کے درخت کے نیچے پوجا میں مصروف تھے۔ سفید شرٹ اور لنگی میں ملبوس ان کا چہرہ آسمان کی جانب تھا۔ جنوری کے اخیر میں بھی دوپہر کے وقت سورج بہت زیادہ چمکیلا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں پُراسرار مینڈک کی دریافت

انڈیا میں بڑے رہنما دفنائے کیوں جاتے ہیں؟

انڈیا کے سائنس دانوں نے آئن سٹائن کو مسترد کر دیا

اس درخت کے ساتھ ہی پانی کے زخائر اور چاول کے سبز و شاداب کھیت تھے، اسی کے سائے میں مُکھن نے بتایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے گاؤں کی حد شروع ہوتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے گاؤں والے اپنے جوتے اور چپل ہاتھوں میں اٹھا کر گاؤں میں داخل ہوتے ہیں۔

ارومونگم مُکھن نے بتایا کہ سوائے بزرگوں اور کمزور افراد کے اس گاؤں میں کوئی بھی جوتے نہیں پہنتا۔

وہ خود بھی ننگے پاؤں تھے لیکن انھوں نے کہا کہ وہ جلد جوتے پہننا شروع کردیں گے خصوصاً آنے والی گرمیوں کے مہینوں میں۔

میں گاؤں میں اپنی موٹی جرابیں پہنے چل رہی تھی اور میں یہ منظر دیکھ کر حیران ہو رہی تھی کہ سکول جاتے بچے اور نوجوان اور اس کے ساتھ ساتھ کام کے لیے نکلے جوڑے آرام سکون سے جوتے اپنے ہاتھوں میں اٹھائے چل رہے تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کے جوتے، پرس یا بیگ کی طرح کی چیز ہے۔

میں نے دس سالہ انبو نِدھی کو روکا جو ننگے پاؤں سائکل چلا رہا تھا۔ وہ گاؤں سے پانچ کلومیٹر دور ایک سکول میں پانچویں جماعت کے طالب علم ہیں۔

جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انھوں نے کبھی گاؤں کے ننگے پاؤں والا اصول توڑا تو وہ مسکرائے اور کہا کہ ‘مجھے میری ماں نے بتایا ہے کہ ایک طاقتور دیوی جس کا نام مُتھے لمّا ہے ہمارے گاؤں کی حفاظت کرتی ہیں لہذا ہم ان کے احترام میں جوتے نہیں پہنتے۔’

اس نے کہا کہ ‘میں اگر چاہوں تو میں ایسا کر سکتا ہوں لیکن یہ ایسا کسی دوست کی بے عزتی کرنے جیسا ہوگا جس کو تمام لوگ پیار کرتے ہوں۔’

مجھے جلد ہی یہ معلوم ہو گیا کہ یہی وہ جزبہ ہے جس کی وجہ سے اس گاؤں کی علیحدہ پہچان ہے۔ کوئی اس عمل کو نافذ نہیں کرتا، یہ کوئی سخط مذہبی اصول بھی نہیں ہے، یہ ایک محبت اور احترام پر مبنی پرانی روایت ہے۔

53 سالہ پینٹر، کرُپیا پانڈے نے وضاحت کی کہ ‘ہم گاؤں والوں کی چوتھی نسل ہیں جو اس طریقے سے زندگی گزار رہے ہیں۔’

وہ اپنے ہاتھوں میں جوتے اٹھائے ہوئے تھے لیکن ان کی 40 برس کی بیوی پیچی اما کہتی ہیں کہ وہ جوتیوں کے لیے کوئی زحمت نہیں اٹھاتیں۔ وہ جوتوں کا استعمال صرف اس وقت کرتی ہیں جب انھیں گاؤں سے باہر جانا ہو۔

انھوں نے بتایا کہ جب باہر سے کوئی گاؤں آتا ہے تو وہ کوشش کرتے ہیں کہ انھیں جوتوں والا رواج سمجھایا جائے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کوئی ان پر زبردستی نافذ نہیں کرتا۔

انھوں نے کہا کہ ‘یہ مکمل طور پر ایک ذاتی فیصلہ ہے۔’ پیچی اما کے بچے بالغ ہیں اور قریب کے شہر میں ملازمت کرتے ہیں۔ انھوں نے کبھی اس اصول کو اپنے بچوں پر زبردستی لاگو نہیں کیا لیکن اس کے باوجود وہ اس روایت پر عمل کرتے ہیں۔

لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب خوف کی وجہ سے اس اصول پر عمل در آمد ہوا کرتا تھا۔

43 سالہ رنگ ساز، سُبرامنیم نے بتایا: ‘کہا جاتا ہے کہ جو اس اصول پر عمل نہیں کرتے ان کو ایک پراسرار بخار ہو جاتا ہے۔ ‘

انھوں نے کہا کہ ‘اب ہم اس پیشن گوئی کے ڈر سے نہیں رہتے لیکن ہم اپنے گاؤں سے ایک روحانی مقام کی طرح کا سلوک کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، میرے لیے یہ مندر جیسا ہے۔’

اس قصے کی شروعات کے بارے میں مزید جاننے کے لیے مجھے 62 برس کے لکشمنن ویربھدرا سے رابطہ کرنے کو کہا گیا۔ وہ گاؤں کے غیر روایتی تاریخ دان ہیں۔

وہ ایک کامیاب انسان ہیں۔ انھوں نے چار برس بطور مزدور ملک سے باہر کام کیا اور آج وہ دبئی میں ایک تعمیراتی کمپنی چلاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے ماڈرن کباڑیے

وہ کیس جو انڈیا کبھی بھولا نہیں

انڈیا میں ’اسلامی‘ ناموں کے خلاف ’جنگ‘

ان کا اپنے گاؤں کا چکر لگتا رہتا ہے، کبھی لوگوں کو ملازمت کے لیے بھرتی کرنے آتے ہیں لیکن زیادہ تر ان کے آنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی جڑوں سےقریب رہنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ 70 سال پہلے گاؤں والوں نے گاؤں کے باہر نیم کے درخت کے نیچے پہلی مُتھے لمّا دیوی کی مورتی لگائی تھی۔ پنڈت مورتی کو جواہرات سے سجا رہا تھا جبکہ لوگ عبادت میں مصروف تھے۔ اسی وقت کہا جاتا ہے کہ ایک نوجوان جوتے پہنے مورتی کے قریب سے گزرا۔

یہ بات پکی نہیں ہے کہ کیا اس نے اس تقریب کو کسی حقارت کی نگاہ سے دیکھا تھا یا نہیں لیکن کہا جاتا ہے وہ چلتے ہوئے پھسل کر گر گیا۔ اس شام کو وہ کسی پُر اسراس بیماری کا شکار ہو گیا اور اسے صحت یاب ہونے میں کئی مہینے لگے۔

ویر بھدر کہتے ہیں کہ ‘اس وقت سے لوگوں نے گاؤں میں جوتے پہننا چھوڑ دیا اور بعد میں یہ ایک طرز زندگی بن گیا۔’

ہر پانچ سے آٹھ سال کے بعد مارچ یا اپریل کے مہینے میں گاؤں کے لوگ ایک میلے منعقد کرواتے ہیں جس میں مُتھے لمّا کی مٹی سے بنی مورتی کو نیم کے درخت کے نیچے لگاتے ہیں۔

تین دن تک دیوی گاؤں کو آشرواد دیتی ہے اس کے بعد مورتی کو توڑ دیا جاتا ہے۔

میلے کے دوران گاؤں میں پوجا، کھانے پینے، نمائش، رقص اور ڈراموں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لیکن بڑے اخراجات کی وجہ سے یہ میلہ ہر سال منعقد نہیں ہوتا۔ گذشتہ میلہ سنہ 2011 میں منعقد ہوا تھا اور اگلے میلے کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کا انحصار گاؤں کے امیر سرپرستوں پر ہے۔

40 برس کے ڈرائور، رمیش سیوگن کہتے ہیں کہ باہر کے لوگ گاؤں والوں کی اس داستان کو توہم پرستی کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اور کچھ نہیں تو اس داستان کی وجہ سے گاؤں والوں کی ایک مضبوط پہچان اور برادری ہے۔’

انھوں نے کہا ‘اس نے ہم سب کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ گاؤں میں سب لوگ ایک ہی گھرانے کے محسوس ہوتے ہیں۔’

اس احساس نے دوسرے مقامی روایتوں کی بھی بنیاد رکھی ہے۔ جیسے کہ امیر یا غریب، گاؤں میں جب کوئی فوت ہوتا ہے تو گاؤں کا ہر فرد لواحقین کو 20 روپے دیتا ہے۔

رمیش سیوگن نے کہا کہ ‘اپنے پڑوسیوں کی مدد کرنے، اچھے اور برے وقت میں ان کا ساتھ دینے کے علاوہ اس (رواج) کی وجہ سے ہم سب اپنے آپ کو ایک دوسرے کے برابر محسوس کرتے ہیں۔’

میں نے سوچا کہ کیا وقت اور بیرونی اثرات نے ان احساسات پر کوئی فرق ڈالا ہے۔

میں نے یہ سوال ویربھدر سے کیا کہ کیا وہ آج بھی اس روایت کے متعلق ویسے ہی جذبات رکھتے ہیں جیسے وہ اپنے بچپن میں رکھتے تھے۔

انھوں نے کہا ہاں، وہ آج بھی ننگے پاؤں اپنے گاؤں میں چلتے ہیں اور ملک سے باہر کئی سال رہنے کے بعد بھی ان کا جذبہ کم نہیں ہوا۔

‘ہم جو بھی ہیں یا ہم جہاں بھی رہتے ہوں، ہم ہر صبح اس یقین سے جاگتے ہیں کہ ہم سلامت رہیں گے۔ اس کی کوئی ضمانت نہیں، لیکن ہم پھر بھی نکل کے اپنے روز کے کام کرتے ہیں۔ ہم مستقبل کے بارے میں حکمت عملی بناتے ہیں، ہم خواب دیکھتے ہیں، ہم آگے کی سوچتے ہیں۔

‘ہر طرف زندگیاں ایسے سادہ عقیدوں کے گرد گھومتی ہیں۔ یہ بس ایسی ہی ایک اور مثال ہے جسے آپ ہمارے گاؤں میں دیکھتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp