بچت اور سادگی کے نام پہ کھلواڑ!


بچت اور سادگی رویہ ہے جس کے تحت انسان زندگی کے فطری پن کو برقرار رکھتا ہے لیکن ہماری موجودہ حکومت بچت اور سادگی کے نام پہ بے جا اخراجات کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی، سادگی کا مظاہرہ تو سعودی ولیعہد کی آمد پہ دیکھ ہی چکے ہیں، ہیلی کاپٹر میں وزیراعظم ہاؤس تک سفر، کٹوں کا نیلام، گاڑیوں کا نیلام لیکن پروٹوکول حسب معمول، اسمبلی ممبران کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ، کہاں کی سادگی کہاں کی بچت۔

اب آتے ہیں موضوع پہ حکومت نے ایک نیا شوشا چھوڑا ہے، ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں قائم ٹاسک فورس برائے سادگی اور ادارہ جاتی اصلاح نے بچت اور سادگی کے سلسلے میں جب کچھ نہ بن پڑا تو قومی زبان اردو کے فروغ اور ترویج کے اداروں اردو سائنس بورڈ اور اردو لغت بورڈ کراچی کو ادارہ فروغِ قومی زبان میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا اور ان دونوں کی موجودہ شناخت ختم کرکے انھیں ادارہ فروغِ قومی زبان کا نام دیا جائے، اور ادارہ فروغ قومی زبان کو ماتحت ادارے کے بجائے خود مختار ادارہ بنا دیا جائے، موجودہ سربراہ فروغِ زبان اردو اور سربراہ اردو سائنس بورڈ کی قطعی نہیں سنی گئی جبکہ سربراہ لغت بورڈ کو اس اجلاس میں مدعو ہی نہیں کیا گیا۔

اس انضمام کے نتیجے میں ظاہر ہے ان تینوں اداروں کے ملازمین میں کٹوتی بھی کی جائے گی اور ان کے الگ الگ نوعیت کے کاموں پر بھی اثر پڑے گا۔ دیکھا جائے تو ان تینوں اداروں کا مینڈینٹ الگ الگ ہے، قومی، علمی و ادبی ادارے کئی دہائیوں کی عرق ریزی کے بعد اپنی شناخت اور وجود تسلیم کرواتے ہیں ان اداروں کی پہچان حرف غلط کی طرح مٹا کر نئے انداز میں پیش کرنے کا کیا جواز ہے۔

علمی اور ادبی حضرات سب جانتے ہیں کہ اردو سائنس بورڈ ایک الگ اور منفرد ادارہ ہے جو جدید سائنسی علوم کو اردو کے قالب میں ڈھال کر ایک بہت بڑی خدمت کررہا ہے، اردو سائنس بورڈ نے قلیل عرصے میں کثیر کتب چھاپی ہیں، اردو سائنس میگزین کا اجراء بھی کیا ہے، اس ادارے کو جس محنت اور لگن سے اشفاق احمد نے ترتیب دیا تھا اسی لگن سے ناصر عباس نئیر نے اس کام کو آگے بڑھایا۔

اسی طرح اردو لغت بورڈ بابائے اردو مولوی عبدالحق کی امانت ہے، اردو لغت بائیس جلدوں میں تیار کرکے ایک عظیم کارنامہ اس بورڈ کے ذریعے ہی تکمیل کو پہنچا، اردو لغت بورڈ سے جڑے ہمارے قابل فخر شعراء اور ادباء میں بابائے اردو مولوی عبدالحق، جوش ملیح آبادی، شان الحق حقی، ابواللیث صدیقی، فرمان فتح پوری، جمیل الدین عالی، محمد اظفر، ہادی حسین، جون ایلیا، فہمیدہ ریاض قابل فخر اور احترام ہیں۔

لغت بورڈ کے موجودہ سربراہ عقیل عباس جعفری کی نگرانی میں دوبارہ بائیس جلدوں کی تکمیل، اس لغت کو مکمل آن لائن، اور موبائل فون پر الفاظ کے معنی صوتی آہنگ کے ساتھ ساتھ، میڈیا ہاؤسزاور اخبارات کی رہنمائی کے لیے صحیح املا، درست تلفظ کے نام سے ضابطہ کا اجرابھی ہے۔ لغت بورڈ کے جریدے اردونامہ کا دوبارہ اجراء بھی ہوا ہے۔ اردو لغت کی تیسویں جلد جس میں پانچ ہزار سے زیادہ ان تمام ماخذات کا انداج ہوگا جن کی مدد سے بائیس جلدی لغت کی تکمیل ہوئی، یگانہ، غالب، داغ، میر انیس اور جوش کی فرہنگ مکمل ہوئیں۔

بائیس جلدوں کی لغت کی دو جلدوں میں تلخیص، طلباء اور بچوں کی رہنمائی کے لیے فرہنگ طلبہ کی تدوین، محکمہ ڈاک کی مدد سے ادارے کی ساٹھ سالہ اور مرزا غالب کی ڈیڑھ سو سالہ برسی کے موقع پر یادگاری ٹکٹوں کا اجراء، لغت بورڈ کے دفتر میں دیوار ِ رفتگاں اور گوشہ تبادلہ کتب کا قیام، قدرت نقوی، محسن بھوپالی اور فہمیدہ ریاض کے کتب خانوں کا حصول اور ادارہ کے کتب خانہ میں گوشہ قدرت نقوی، گوشہ محسن بھوپالی اور گوشہ فہمیدہ ریاض کا قیام اور ادارہ کے کتب خانے میں دس ہزار کتابوں کا بلا معاوضہ اضافہ۔ یہ گراں قدر کام لغت بورڈ نے انجام دیے۔

اس انضمام کے نتیجے میں ان کے کاموں میں رکاوٹ آئے گی اور خود مختاری بھی مجروح ہوگی۔ ان اداروں کا بجٹ بھی بہت کم ہے اور علمی کام کے لیے حکومت اتنا بھی نہ خرچ کرے تو ڈوب مرے چلو بھر پانی میں، بلکہ حکومت کو تو قومی زبان اردو کے نفاز کو ممکن بنانا چاہیے جبکہ سپریم کورٹ اس کا حکم دے چکی ہے۔

صدر پاکستان اور وزیراعظم اس طرف توجہ فرمائیں، تاکہ علمی کاموں میں بجٹ کٹوتی کے بہانے سے اداروں کو تباہ نہ کریں بلکہ حکومت کو تو ان اداروں کی گرانٹ بڑھانی چاہیے، وہی قومیں ترقی کرتیں ہیں جو اپنی قومی زبان کی ترویج اور تعلیم پر خرچ کرتی ہیں جبکہ ہمارے ملک میں اس مد میں بچت اور سادگی کا درس دیا جارہا ہے، پہلے بھی ریڈیو پاکستان کو ختم کرنے کی باتیں کی گئیں، اداروں کے بننے میں صدیاں لگتی ہیں جبکہ ختم ہونے میں لمحے اس لیے اس طرف غور کریں اور قومی نوعیت کے اداروں کو ختم ہونے سے بچائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).