بھارتی حملے سے پاکستان نے کیا سبق حاصل کیا ہے؟


انڈیا ایس یو 30 طیارہ

بھارت کے ایس یو 30 طیارے جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں

پاکستان کی سول حکومت اور عسکری منصوبہ سازوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی سے چند نہایت اہم نتائج اخذ کئے ہیں جو ملکی سلامتی کے حوالے سے چند نئے سنگین خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں، جنہیں جوہری قوت کے استعمال کے تناظر میں نظرانداز کرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

کشیدگی اتنی تیزی سے آخری حدوں تک کیسے پہنچی

جوہری قوت رکھنے والوں ہمسایوں میں حالیہ جنگی ماحول میں پاکستان نے پہلا اور اہم ترین سبق اس حقیقت کی صورت میں سیکھا ہے کہ دونوں ممالک کی عسکری قوت کا ٹکراؤ بحران کے شروع ہوتے ہی آخری حدوں تک پہنچ گیا، جسے ایک خطرناک رجحان اور علامت تصور کیا جا رہا ہے۔

اس خطرناک کیفیت کو پاکستان کے ایک اعلیٰ فوجی افسر نے ان الفاظ میں بیان کیا کہ ’پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے بیان کے مطابق 27 فروری کی رات بھارت کا میزائل سے حملہ کرنے کا منصوبہ تھا۔ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کی اس انتہا کو نچلے درجے پر لانا ہوگا تاکہ خطرناک نتائج کا امکان کم کیا جا سکے۔‘

حالیہ جنگی ماحول ماضی کی نسبت بہت مختلف ثابت ہوا ہے۔ 2002 میں جب دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئیں تو بھارت کو اپنی فوج کو حرکت میں لانے میں کم ازکم 27دن لگے تھے۔ اس دوران وہ جنگی کارروائی کرنے والے اپنے دستے پاکستانی سرحد پر لایا تھا۔ دوسری جانب پاکستان کو اپنی فوج کی نقل وحرکت میں اس سے بھی زائد وقت لگا تھا۔

پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ26 فروری کی رات بھارتی فضائیہ کے 14 لڑاکا طیاروں نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو عبور کرکے ان علاقوں میں ‘پے لوڈ’ پھینکا جو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ ہیں۔

بھارتی حملہ آور لڑاکا طیاوں میں مگ 21 اور روسی ساختہ کے ایس یو30 جنگی جہاز شامل تھے۔ پاکستانی فضائیہ نے جوابی کارروائی میں ایل او سی پر چند ہی گھنٹوں میں بھارتی طیارہ مار گرایا۔ اگرچہ پاکستانی فضائیہ نے اس بارے میں الگ سے تو کوئی وضاحت نہیں کی البتہ پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ اس فضائی معرکے میں پاکستان کے مقامی ساختہ جے ایف 17تھنڈر لڑاکا طیارے استعمال ہوئے۔

خطرناک اور اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے زیراستعمال ایس یو 30 اور پاکستان فضائی کے جے ایف 17تھنڈر دونوں طیارے ہی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

دونوں ممالک کی فضائیہ میں سے کسی ایک کے لیے بھی فوری طورپر یہ پتہ چلانے کا کوئی طریقہ موجود نہیں کہ حملہ آور طیارے جوہری مواد سے لیس ہیں یا نہیں؟ جب راڈار آنے والے طیارے کا سراغ پائے گا تو یہی تصور کیا جائے گا کہ آنے والا جہاز جوہری ہتھیار بھی اپنے ہمراہ لا رہا ہے اور دونوں ممالک کی فضائیہ حملہ آور طیارے کے بارے میں یہی شک کریں گی۔

بالکل اسی طرح پاکستانی فوج کے لیے بھی یہ جان لینا ممکن نہیں کہ ان کے خلاف داغا جانے والا میزائل روایتی بارود لے کر آرہا ہے یا پھر اس کے ساتھ جوہری تباہی کا سامان بھی منسلک ہے۔ جیسا کہ وزیراعظم عمران خان نے پارلیمان سے اپنے خطاب میں بتایا تھا کہ ان کے پاس انٹیلی جنس رپورٹ تھی کہ بین الاقوامی سرحد پر بہاولپور سیکٹر میں جیش محمد پر ضرب لگانے کے لیے میزائل سے حملہ ہونا تھا۔ اسی نوعیت کی اطلاعات بعض دیگر افراد کے ذریعے بھی سامنے آئی تھیں۔

پاکستان اور بھارت کی افواج کسی داغے جانے والے میزائل کا پتہ صرف اس وقت ہی لگاسکتی ہیں جب یہ ان کی سرحد کے اندر داخل ہو جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کے مقابلے اورمیزائل کے خاتمے کے لیے اس ملک کے پاس صرف چار منٹ کا وقت میسر ہوتا ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق ماضی میں جب بھی فوجی کشیدگی یا جنگی کیفیت پیدا ہوئی تو اس کی شدت یک دم آخری حدوں تک نہیں پہنچی تھی بلکہ اس میں درجہ بہ درجہ شدت آتی تھی۔ اس مرتبہ یکسر مختلف صورتحال کا سامنا ہوا جس میں دونوں فوجیں ابتدا میں ہی انتہائی اقدام کی حد تک پہنچ گئیں۔

اظہر مسعود

دنیا بھارت کے بیانیہ پر یقین کرتی ہے

پاکستان نے اپنے لیے دوسرا سبق اس صورتحال سے یہ اخذ کیا ہے کہ بحران میں ‘دنیا بھارت کے اس اصرار میں شریک نظرآئی کہ پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردی کا ڈھانچہ ختم کرے’۔

بھارت کالعدم تنظیموں کی فہرست میں موجود جیش محمد اور جماعت الدعوۃ کے خلاف پاکستانی حکومت کی جانب سے کئے گئے حالیہ اقدامات کو محض بین الاقوامی دباؤ کا نتیجہ تصور کرتا ہے۔

ایک اعلیٰ فوجی افسر کے مطابق ’پاکستانی فیصلہ سازوں کو اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست کے ڈھانچے سے باہر کام کرنے والی تنظیمیں (نان سٹیٹ ایکٹرز) کی وجہ سے پاکستان کی کاوشوں کا وہ ثمر بھی ضائع ہوسکتا ہے جو اس نے بڑی محنت سے دہشت گردی کے خاتمے کی جدوجہد میں حاصل کیا ہے۔

بھارتی طیاروں کے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر پاکستان کے قریب ترین اتحادی بھی اس مرتبہ کھل کر سامنے نہیں آئے۔ اس صورتحال نے پاکستانی حکومت اور فوج کو تیزی سے کارروائی پر آمادہ کیا کہ ’ایسے عناصر ان کی اس محنت پر بھی پانی پھیر رہے ہیں جو ہماری سکیورٹی فورسز نے پاکستان کے مخصوص آؤٹ فٹس کے خلاف کی تھی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp