جب مسیحا خود بیمار ہو جائے


دو سال قبل جب ڈاکٹر لبنیٰ مرزا مجھ سے ملنے کینیڈا اتشریف لائیں تو انہوں نے چند دن میرے کلینک میں گزارے تا کہ وہ نفسیاتی مسائل اور گرین زون تھیریپی کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ کر سکیں۔ کلینک سے جاتے جاتے انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنے کلینک میں میڈیسن اور نفسیات کے طلبا و طالبات کو سائیکو تھیریپی سکھاؤں۔ چنانچہ پچھلے سال میرے کلینک میں ایک پاکستانی میڈیکل سٹوڈنٹ ماریا نفسیاتی مسائل اور سائیکوتھیریپی سیکھنے آئیں۔ ماریا اس تجربے سے اتنی خوش ہوئیں کہ انہوں نے اپنی سہیلی رافعہ کو مشورہ دیا کہ وہ بھی میرے کلینک میں ٹریننگ حاصل کرے تا کہ ایک بہتر ڈاکٹر بن سکے۔

ڈاکٹر مسیحا ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھتے ہیں۔ میری نگاہ میں اچھے ڈاکٹر اور مسیحا بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ذہنی صحت کا بھی خیال رکھیں۔

رافعہ نے میرے پاکستان کے تجربات کے بارے میں پوچھا تو میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان کے ڈاکٹروں نے مجھے یہ خبر دی کہ پچھلے چند ہفتوں میں پاکستان میں کئی میڈیکل کالج کے طلبا و طالبات نے خود کشی کر لی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی میڈیکل سٹوڈنٹ آخر خودکشی کیوں کرتا ہے؟ ایک مسیحا بیمار کیسے ہو جاتا ہے؟ ایک ڈاکٹر ڈیپریشن کا شکار کیوں ہو جاتا ہے؟

بہت سے لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنا آسان کام نہیں۔ اس میں ذہانت کے ساتھ ساتھ دن رات کی محنت اور انتھک ریاضت بھی کرنی پڑتی ہے۔ ڈاکٹروں کو بہت سی نفسیاتی ، سماجی اور خاندانی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ جب کوئی طالب علم میڈیکل کالج میں داخل ہوتا ہے تو اس سے خاندان اور سماج کی بہت سی توقعات وابستہ ہو جاتی ہیں۔ اگر وہ طالب علم ذہین نہیں، اس کی شخصیت مضبوط نہیں یا اسے محنت کی عادت نہیں تو وہ ان توقعات کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتا اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے اور اگر اسے بر وقت مدد نہ ملے تو وہ ڈیپریشن کا شکار ہو کر خود کشی بھی کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر بھی انسان ہوتے ہیں اور وہ بھی اور انسانوں کی طرح اپنی زندگی کا توازن قائم رکھنے کی کوشش میں اپنا ذہنی توازن کھو سکتے ہیں۔

جب رافعہ نے میری کلینک میں میرے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو میں نے اس کا تعارف فیصل سے کروایا [اصل نام بدل دیا گیا ہے ] جو میڈیکل سٹوڈنٹ تھا لیکن دو سال کی تعلیم کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ وہ سائنس سے زیادہ فنونِ لطیفہ میں دلچسپی رکھتا تھا اور ڈاکٹر بننے کی بجائے ایک فنکار بننا چاہتا تھا۔ ایسی سوچ نے اسے ایک تضاد کا شکار کر دیا۔ وہ کئی مہینوں تک کڑھتا رہا اور اس کا ذہنی دباؤ بڑھتا رہا۔ آخر ایک دن وہ ذہنی بحران کا شکار ہو گیا اور خود کشی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگا۔

خوش قسمتی سے اس کے ایک قریبی کنیڈین دوست جوزف نے محسوس کیا کہ وہ پریشان ہے۔ اس نے مدد کا ہاتھ بڑھایا۔ فیصل نے اسے اپنے دل کا حال سنایا تو جوزف نے کہا یا تو میں تمہیں ہسپتال لے جاؤں گا یا تمہارے والدین کو اطلاع دوں گا۔ فیصل جوزف کے ساتھ ہوسٹل سے اپنے گھر چلا گیا اور اگلے دن مجھ سے کلینک میں ملنے آیا۔

میں نے فیصل کا ادویات اور تھیریپی سے علاج کیا۔ علاج کے دوران اس نے میڈیکل کالج کو الوداع کہا اور فنونِ لطیفہ میں پیش رفت کی۔ اب وہ ایک کامیاب فنکار ہے اور خوش ہے۔

فیصل اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی میں ایک ہمدرد دوست بھی تھا اور محبت کرنے والا خاندان بھی جنہوں نے اسے خود کشی سے بچا لیا۔

ہمیں چاہیے کہ ہم ہر میڈیکل کالج میں ایسا انتظام کریں کہ جب بھی طلبا و طالبات کر نفسیاتی مدد کی ضرورت ہو تو وہ انہیں آسانی سے مہیا ہو تا کہ خودکشی کی روک تھام کی جا سکے۔ مسیحا خود صحتمند ہوں گے تو وہ دوسروں کی صحت کا بھی خیال رکھ سکیں گے۔ مشہور قول ہے

PHYSICIAN HEAL THYSELF

جب آپ ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں تو پرواز سے پہلے ایر ہوسٹس مسافروں سے کہتی ہے کہ اگر ہوائی جہاز میں دباؤ کم ہو جائے گا تو ان کے سامنے ایک ماسک گرے گا۔ ماؤں سے درخواست ہے کہ وہ اپنے بچوں کے منہ پر ماسک لگانے سے پہلے اپنے منہ پر ماسک لگائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گی تو بچوں کی مدد سے پہلے وہ خود بیہوش ہو جائیں گی۔ ڈاکٹر ماؤں کی طرح ہوتے ہیں اور مریض بچوں کی طرح۔ ڈاکٹروں کا فرض ہے کہ وہ مریضوں کا خیال رکھنے سے پہلے اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ اگر مسیحا خود بیمار ہو گئے تو وہ مریضوں کا اچھے طریقے سے خیال نہ رکھ سکھیں گے۔

ہمیں اپنے جوان بچوں کی صحت کا خیال رکھنا ہو گا۔ والدین اور اساتذہ کو بچوں پرتوقعات کا زیادہ دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کیونکہ ہمارے جوان بچے ’ہمارے میڈیکل سٹوڈنٹ‘ ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔ میرے ایک شعر ہے

؎ وہ جس کسی کی بھی آغوشِ جاں کے بچے ہیں
نویدِ صبح ہیں سارے جہاں کے بچے ہیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail