تہذیب کے لبرل اور الوہی سانچے


وِل ڈیوراں نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’ تہذیب کی کہانی ‘ کی پہلی جلد میں انسانی سماج میں ارتقا کا ذکر کرتے ہوئے ایک قبیلے کا ذکر کیا ہے جو تمدن کی ابتدائی سٹیج پر تھا۔ ابھی اس قبیلے میں کپڑے پہننے کا رواج نہیں پہنچا تھا۔ جب ان لوگوں  کو ملبوسات پیش کیے گئے تو بجائے اوڑھنے کے ان کی دھجیاں بنا کر رنگ برنگی پٹیاں سر اور جسم کے مختلف حصوں پرخوبصورتی بڑھانے کے لیے سجا لی گئیں۔ اس ابتدا سے پیرس کے فیشن شوز تک جہاں کم کپڑے اب عجیب و غریب پہناوے کے لیے جگہ خالی کر رہے ہیں۔ (غالباً یہ خلائی مخلوق کو خوش آمدید کہنے کی تیاری ہے)۔ یہ سماج و تہذیب کے وہ مظہر ہیں جو کلچر کہلاتے ہیں۔ کپڑے کبھی کم کبھی زیادہ ہوتے ہی رہتے ہیں۔ کیونکہ تبدیلی زندہ معاشروں کی صفات میں سے ہے۔

لیکن حیا :ایک فطری تصور؟

یہ تو ساری تہذیبی ترقی کی نفی کی کوشش ہے۔ دراصل تہذیب و سماج کا ہمہ جہت سفر پچھلے دس بارہ ہزار سال سے جاری ہے۔ مرد اور عورت کا بندھن بھی اسی زمانے کی پیشرفت ہے۔ ورنہ اس سے پہلے تو دوسرے جانوروں کے نر اور مادہ کی طرح انسانوں میں بھی نسل کی بقا کے لیے جفتی ہوتی تھی۔ ظاہر ہے زن و شو والا رشتہ اسی زمانے کی دین ہے جب کھیتی باڑی نے حضرتِ انسان کو ایک مستقل ٹھکانہ دے دیا تھا۔
یاد رہے کہ اس میں وہ زمانے بھی شامل ہیں جب عورت پردھان ہوتی تھی۔ اس وقت ایک عورت کے کئی کئی شوہر ہوتے تھے۔ (خدا جانے ادارہ تحفظِ فروج والے اس تاریخی حقیقت کے بعد کیا سلوک کریں گے؟ اپنے ساتھ!)۔ قدیم مصر میں شادی کا پہلا دعویدار بھائی ہوتا تھا۔ جبکہ جنوبی ہندوستان میں یہ سہولت آج بھی بڑے ماموں کو حاصل ہے۔

اس معاملے میں عالمِ وقت جناب جاوید غامدی صاحب کو بھی مغالطہ ہوا ہے جن کا بیان ہے کہ نسلِ انسانی میں اخلاقی طور پر درست یا غلط کی حس ابتدا سے یکساں رہی ہے۔ جب کہ تاریخی مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ تمام ممکنہ طریقوں کی آزمائش سے ہی حضرتِ انسان نے کچھ نتائج اخذ کیے ہیں۔

پیارے بڑوں،اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تہذیب و سماج، بشمول اخلاق، ایک ارتقا پذیر عمل ہے۔ جن میں سے کئی مراحل ہم طے کر چکے ہیں اور کئی باقی ہیں۔

ٹائن بی نے ’ مطالعہ تاریخ‘ میں کئی تہذیبوں کا ذکر کیا ہے۔ اس شاندار اور جاندار مطالعہ میں موصوف نے تہذیبوں کی کئی قسم کی دھڑے بندی کی ہے۔ جیسا کہ اتنے بڑے کام میں ہونا لازم ہے۔ کچھ درجہ بندیاں انتہائی اعلیٰ سوچ اور عمیق غور و فکر کی مظہر ہیں۔ کچھ انتہائی بیکار اور موضوعی خواہشات کا نتیجہ دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن الہامی تہذیب اور لبرل تہذیب! یہ ٹائن بی ہو یا وِل ڈیوراں،ان سے آگے کا کام ہے۔ پھر یار لوگ کہتے ہیں ہمارے ہاں اوریجنل کام نہیں ہوتا۔

دنیا کے ہر مخلوط معاشرے میں روحانی پیغامبر آئے ہیں۔ ( مخلوط سے مراد سماج جس میں الہامی اور لبرل طرزِ فکر دونوں موجود ہوتے ہیں)۔ اور وہ بھی ایک برتر قوت کے نمائندے کے طور پر۔
ہیمورابی سے شروع کریں تو آسمانی پیغام کے ساتھ ساتھ وہ شرح بھی لائے ہیں جس میں جزا و سزا، بالخصوص سزا والا حصہ خاصا تگڑا ہوتا تھا۔ بابل، چین،قدیم ہندوستان کے زرخیز میدانوں میں، خدا جانے، یہ نامہ بر کس کس روپ میں کتنی دفعہ آئے ہو گے؟ اگر فلسطین کی شاداب سرزمین پر بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا ذکر قرانِ حکیم میں بار بار آیا ہے تو اس لیے کہ مخاطب یہ حوالے اچھی طرح سمجھتے تھے۔ یہ تمام مخلوط انسانی تہذیب کی باتیں ہیں جس کو بہتر بنانے کے لیے خداوند کریم اپنے نمائندے بھیجتا رہا ہے۔
آخر یہ سلسلہ بھی حضورﷺ کی رسالت کے ساتھ ختم ہوا۔ بقول اقبال، سلسلہِ نبوت ختم ہونے کا مطلب ہے، انسانیت کا اس مقام سے برتر سطح پر پہنچ جانا جہاں اسے براہِ راست خدائی ہدایات کی ضرورت تھی۔

یہ بھی یاد رہے انسانی تاریخ میں کبھی کوئی ایسی تہذیب نہیں آئی جس میں الہامی پیغام شامل نہ ہو۔ ہاں جدید یورپی تہذیب کی تشکیل میں ترقی کی قوتیں متواتر کلیسا کو اپنی راہ میں حائل پاتی رہی ہیں۔ یہ رومن کیتھولک چرچ کا جدید سائنس سے ٹکراو تھا جس نے صرف سائنسدانوں اور فلسفیوں ہی کو نہیں، بلکہ مختلف ریاستوں کو بھی یہ باور کروا دیا کہ چرچ سے جان چھڑائے بغیر پیشرفت ناممکن ہے۔

اسی معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سپین اور پرتگال کے زوال کا سبب ان کی رومن کیتھولک چرچ سے وابستگی بیان کی جاتی ہے۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جدید دور کی ترقی اور کلیسا کا زوال ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اسی الہامی پیغام کے دو رُخ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ۔ ان دو فرقوں نے ایک دوسرے کا اس قدر خون بہایا اور اتنے لمبے عرصے تک کہ انسانوں نے مذہب سے ہی توبہ کر لی۔ اس عمل کو ریاست اور مذہب کا الگ الگ رکھنا کہتے ہیں۔ لہذا یورپ میں سیکولر کا مطلب ہو گا بغیر کسی مذہب کے۔ تاہم جب یہی لفظ برِ صغیر میں استعمال کیا جائے گا تو اس کا اطلاقی مطلب ہو گا، ہر فرد کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی آزادی۔ یہ بھی مدِ نظر رہے کہ دیگر مذاہب کا ان کے اپنے معاشروں پر اتنا ہمہ گیر اثر، رعب اور حکمرانی ہی کبھی نہیں رہی۔ (سوائے تبت کے)۔ لہذا شاید اتنا شدید ردِ عمل بھی کسی اور سماج میں نہیں ہوا جیسا کہ مغربی یورپ والوں کو اختیار کرنا پڑا۔ لیکن مغربی یورپ کو بھی غیر الہامی تہذیب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حتیٰ کہ آنجہانی یو ایس ایس آر عرف سوویت یونین بھی غیر الہامی تہذیب کا نمائندہ نہیں تھا۔ ہاں اس کے حکمران سرکاری طور پر غیر مذہبی بلکہ مذہب دشمنی کا رویہ ضرور رکھتے تھے۔

بقول ٹائن بی غیر مغربی معاشرے کے دانشور کا پہلا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جدید زمانے میں پڑھ لکھ کر سب سے پہلے وہ اپنے سماج میں بیگانہ (alienate ) ہو جاتا ہے۔ اسی عمل کا ایک ضمنی اثر یہ ہوتا ہے کہ نوجوان سکالر پڑھ مغربی یورپ کی تاریخ رہا ہوتا ہے اور اس کو منطبق اپنے معاشرے پر کر تا ہے۔ ظاہر ہے اس حرکت کے نتائج بھی اتنے ہی بھینگے ہوتے ہیں جتنا کہ یہ عمل خود ہے۔ اس اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے اردگرد پھیلے ہوئے دائیں بائیں کے دانشور وں کو پرکھیں۔ نتائج چشم کشا اور لرزہ خیز ہوں گے۔

تو معاملہ اتنا سادہ ہے نہیں جیسا کہ آپ کی تمنا ہے۔ سیاہ یا سفید منطق میں ہوتا ہے یا بہترین افواج میں۔ سماج تو رنگ برنگ کی پرتیں رکھتا ہے اور وہ انسانوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ہر قسم کے انسانوں پر۔ نظریاتی افراد میں، یہ جو غیر فطری تمنا ہوتی ہے کہ، پروکسٹس کی طرح، ہر فرد کو کانٹ چھانٹ کر ایک ہی سانچے میں ڈھال دیا جائے، وہ انہیں اور ان کے زیرِ اقتدار لوگوں کو مشین بنا دیتا ہے۔ حالانکہ تہذیب اور سماج کا حسن ہے نظریاتی رنگا رنگی۔ دیکھا جائے تو یہ وہ محاذ ہے جس پر ابھی کئی معرکے باقی ہیں۔ بقول چیرمین ماو؛ ہزاروں رنگ کے پھولوں کو اپنی بہار دکھانے دو۔

پیارے دانشورو، پس ثابت ہوا کہ لبرل اور الہامی تہذیب کوئی الگ الگ وجود نہیں رکھتی یعنی یہ تفریق کوئی تاریخی یا فلسفیانہ بُنیاد نہیں رکھتی۔ فطری طور پر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تقسیم کا مقصد اور مطلب کیا ہے۔ انسانی حقوق اور اخلاقیات کے لیے جاری و ساری جدو جہد میں یہ نظریہ مظلوم طبقات کا معاون ثابت ہو گا یا جابر و ظالم ریاست کے ہاتھ میں ایک اور ہتھیار؟ اس کے کچھ مظہر درج ذیل ہیں۔

جدید تاریخ میں کلیسا کے بدترین دور کے بعد، کیمونسٹ روس اور اسلامی جمہوریہ ایران نظریاتی ریاستوں کی بہترین مثال ہیں۔ (ہمارے کچھ دوستوں کی رائے میں بد ترین زیادہ مناسب لفظ ہے۔ حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی)۔ تو ان میں سے ترجیح کس کو دیں؟ اس کا وہی جواب ہے جو اونٹ نے اس سوال کرنے والے کو دیا تھا کہ جب تجھ پر بوجھ لدا ہو تو اونچائی اور اترائی میں سے تو کیا پسند کرتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments