ادھوری کہانیاں


سجاد جہانیہ کو سال 2008 میں آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی کی طرف سے ’’سال کا بہترین اردو کالم نگار‘‘ کا ایوارڈ مل چکا ہے۔ اس کے علاوہ ان تحریروں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ فیس بک پر میری کچھ کچی پکی نگارشات دیکھ کر انہوں نے مفید مشورے بھی دیے اور حوصلہ افزائی بھی کی۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا، جب ایک مستند اور معتبر لکھاری کہتا ہو، کہ تم اچھا لکھتے ہو، تو اس کا مطلب ہے، میں محض وقت ضائع نہیں کر رہا۔ لیکن اس کے بعد مجھے یہ احساس ہوا، چونکہ میری تحریر اتنے بڑے لکھاری کی نظروں میں آتی ہیں، اس لیے مجھے اب جو بھی لکھنا ہے، سوچ کر، سمجھ کر، مطالعہ و مشاہدہ کے بعد لکھنا ہے۔ چنانچہ اس احتیاط کا نتیجہ یہ نکلا کہ بات کچھ نہ کچھ  بن ہی جاتی۔ میں اس سے پہلے بھی تحریریں تو قلم بند کرتا تھا لیکن وہ جس قسم کی ہوتی تھیں، بس کچھ نہ پوچھیے۔

سجاد جہانیہ ہی وہ شخص ہیں، کہ جن کی وجہ سے اس کالم نگار کا حرف، لفظ، قلم، قرطاس سے رابطہ ہے۔ ان کی مہر بانیاں اس طور ہیں کہ میرے دل میں موجود ان کے لیے جذبہ محبت بالکل ختم ہی ہو گیا اور محبت سے اگلے درجے عقیدت میں تبدیل ہو گیا ہے۔ بقول انور مسعود:

خدا کی قسم محبت نہیں عقید ت ہے تم سے
دیار دل میں بہت احترام ہے تیرا

ہم نے معروف، صاحب اسلوب اور سینیئر جیسی اصطلاحات کو اس تواتر کے ساتھ ہر کس و نا کس کے لاحقے، سابقے کے طور پر استعمال کیا ہے، کہ ان الفاظ کی بے توقیری پر ندامت ہونے لگی ہے۔ اب جن شخصیات کے ساتھ ان الفاظ کو بطور سابقہ یا لاحقہ استعمال کیا جاتا ہے، زیادہ قابل اعتنا قرار نہیں پاتا۔ لیکن وقت بہر حال فیصلہ کر دیتا ہے کہ کون ان الفاظ کا بجا طور پر سزاوار ہے۔ سجاد جہانیہ واقعی معروف بھی ہیں، صاحب اسلوب بھی اور سینیئر بھی۔

اللہ کے فضل سے اب ان کے ساتھ ایک مربوط اور مضبوط تعلق قائم ہو چکا ہے۔ ہماری صبحیں، دُپہریں، شامیں، حلقے، مجالس ان کے ذکر اور فیض سے خالی نہیں،
؎ جہاں جائیں وہاں تیرا فسانہ چھیڑدیتے ہیں
کوئی بھی رنگ ہوتیرا رنگ محفل یاد آتا ہے۔

آج مجھے ان کی نو شایع شدہ کتاب ”ادھوری کہانیاں“ کا ذکر کرنا ہے، یہ کتاب مختلف شخصیات کے حوالے سے لکھے گئے خاکہ نما کالموں کا مجموعہ ہے۔ سجاد جہانیہ ایک قومی اخبار کے ملتان ایڈیشن کے ایک صفحے سماج کے لیے لکھتے رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے مختلف شخصیات کے ساتھ مکالمہ کیا۔ یہ مکالمے انہوں نے سوالاً جواباً چھاپنے کی بجائے، ایک کہانی اور افسانے کے سے انداز میں قلم بند کیے۔ وہی مکالمے آج ’’ادھوری کہانیاں‘‘ کے نام سے، پاکستان کے مایہ ناز پبلشنگ ہاؤس ’’سنگ میل‘‘ سے کتابی صورت میں شایع ہو کر ہمارے سامنے ہیں۔ ماہرین فن ان نگارشات کو ’خاکہ‘ گردانتے ہیں۔

یہ خاکے ملتان سے تعلق رکھنے والی شخصیات پر لکھے گئے ہیں۔ ان میں سے چند اشخاص تو ایسے ہیں جو اس سر زمین سے ابھرے اور اپنے کارناموں سے وطن کا نام روشن کیا۔ کچھ شخصیات، بعض اسباب جیسے ملازمت اور نقل مکانی کر کے ملتان سے منسلک ہوئے، یہ کتاب ان متنوع شخصیات کے چلتے پھرتے مرقعوں کا گل دستہ تو ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کے اہم تہذیبی مرکز ملتان کے سماجی و ثقافتی حالات و واقعات سے آگاہی کا بھی ایک مضبوط حوالہ اور وسیلہ ہے۔

خاکہ نگاری کے فنی تقاضوں کے مطابق خاکے میں موضوع کی شخصیت مصنف کی ذات کے آئینے میں منعکس ہوتی ہے۔ آئینہ جس قدر صاف شفاف ہو گا، عکس اتنا ہی صاف اور واضح ہو گا، اصل کے مطابق ہو گا۔ بلکہ جیسے کہا جاتا ہے نقل اصل سے بہتر اس کے مصداق ہو گا۔ کیونکہ وقت کی دھول مٹی ہٹا کر خاکہ نگار ایک مشاق مصور کی طرح اجلی اور نتھری تصویر، الفاظ کے پیرہن میں قرطاس پر منتقل کرتا ہے۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق اپنی کتاب ”چند ہم عصر“ جو کہ خاکوں کا مجموعہ ہے، اس میں ایک عام سپاہی نور خاں کا خاکہ ’’گدڑی میں لعل‘‘ کے نام سے رقم کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”انسان کا بہترین مطالعہ، انسان ہے۔ اور انسان ہونے میں امیر اور غریب کا کوئی فرق نہیں۔ پھول میں گر آن ہے کانٹے میں بھی ایک شان ہے۔ یہ کتاب بھی انسان ہی کا مطالعہ ہے اور انسانی زندگی جن قیمتی اقدار اور روایات کے سہارے نمو پاتی ہے، برگ و بار لاتی ہے، ان سے آشنا کرتی ہے، اس کتاب میں نور خان جیسے کئی گدڑی کے لعل چھپے بیٹھے ہیں، جن سے ملاقات کتاب کے مطالعے ہی سے ہو سکتی ہے۔

کتاب کی ابتدا میں مصنف ’’سر گوشی‘‘ کے نام سے خود کلامی کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ”اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔“ کیا غیر فطری جملہ ہے، حقیقت سے دور، واہیات اور بکواس۔ میں اس خود کلامی سے یہ سمجھا ہوں کہ مصنف بچپن ہی سے کہانی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ابتدا میں بچوں کی کہانیاں پڑھتے رہے، پھر انہوں نے لکھنے کا آغاز بھی ادب اطفال میں کہانی سے کیا ہے، اس دور میں بچہ خیالی دنیا میں رہتا ہے، کہانیاں پڑھ کر اور لکھ کر مصنف کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ انجام بخیر تو کہانی ختم، لیکن جب مصنف عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے اور اپنے ارد گرد کہانیوں اور کرداروں کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اگر ایک پَل کامیابی ہے، ایک پَل خوشی ہے، ایک پَل ملن ہے، ایک پَل خواب کی تعبیر اور خواہش کی تکمیل ہے تو دوسرا پَل نا کامی، دکھ، فراق، خواب و خواہشوں کا ٹوٹنا اور بکھرنا ہے۔ راحت اور دکھ، دکھ اور راحت کے درمیان قرار بہت تھوڑی مدت کا ہے۔

مصنف نے خاکے لکھتے وقت ایک خوبصورت طرز اظہار ایجاد کیا، قاری کہانی کا لطف بھی پاتا ہے اور پہیلی بوجھنے کی کش مکش میں بھی مبتلا رہتا ہے۔ یہ کہانیاں ایجاز و اختصار کا بہترین نمونہ ہیں خورشید کا حنیف سے آ پ اس وقت مل پاتے ہیں جب تحریر ختم ہو جاتی ہے، ’’کیہ ماپیاں پترا رسن رہندا‘‘، میں کس خوبصورتی سے ماں، باپ اور اولاد کے رشتوں، جذبات اور احساسات کو کس خوبی سے بیان کیا گیا ہے کہ ہر قاری اس میں خود کو کسی نہ کسی کردار میں دیکھتا ہے اور اچھی تحریر کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ قاری کو اس کے اپنے آپ سے ملاقات کرواتی ہے۔

فلم اسٹار الطاف خان کے خاکہ پڑھنے کے بعد ایسا احساس ضرور پیدا ہو گا کہ ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے کردار موجود ہیں، جو کسی وقت دِلوں اور اپنے اپنے شعبوں میں راج کیا کرتے تھے۔ آج تنِ تنہائی ان حرماں نصیبوں کی ساتھی ہے۔ کاش ہم اس تنِ تنہائی کو ختم کر کے ان لوگوں کو دوبارہ خوشیوں میں شامل کر سکیں۔ ہمارے یہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ فلاں بندہ جوانی میں فوت ہو گیا، اس کی شادی نہ ہو سکی، شادی ہو جاتی تو اولاد ہونے کی وجہ سے اس کا کوئی نام لیوا ہوتا۔ بعض اوقات ایک شادی سے بچے نہیں ہوتے تو لوگ دوسری شادی کرتے ہیں، تا کہ ان کا کوئی نام لیوا باقی رہ جائے۔ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح نام رہ جائے۔ سجاد جہانیہ نے جس جس کے بارے میں لکھا ہے، میرا ماننا ہے کہ وہ شخصیات ایک حد تک امر ہو چکی ہیں، شاید ایسی ہی شخصیات کے بارے میں کسی نے کہا ہو گا:

؎ ہم خاک میں ملنے پہ نا پید نہ ہوں گے
دنیا میں نہ ہوں گے تو کتابوں میں ملیں گے

کتاب میں موجود ستر کے قریب شخصیات اور کہانیوں کا احوال، اس کالم میں نہیں سما سکتا، تمام خاکوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے تو آپ کو کتاب ہی پڑھنا ہو گی۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب اردو ادب، با الخصوص خاکہ نگاری کے فن سے منسلک نو آموز قلم کاروں کے کے لیے نشان منزل ہی نہیں بلکہ سنگ میل ثابت ہو گی۔ میری دعا ہے کہ اللہ انہیں عمر خضر عطا کرے، تا کہ ان کے قلم کی زد پر آ کر، عامی خاص اور خاص، خاص الخاص کا مقام پاتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).