چرنوبل جوہری حادثہ: یوکرین میں تین دہائیوں سے جاری تجربے کا اختتام


سنہ 1986 میں چرنوبل جوہری پاور پلانٹ میں دھماکے کے بعد سے 4000 مربع کلومیٹر کا علاقہ خالی پڑا ہے۔ اس علاقے کا ایک ہفتے پر محیط دورہ کرنے والی وکٹوریہ گِل کہتی ہیں کہ یہ حالات اب جلد ہی بدل سکتے ہیں۔

وکٹوریہ گل چرنوبل کے متاثرہ علاقے میں

جوہری حادثے نے اس علاقے کو ایک بڑی آلودہ تجربہ گاہ میں بدل دیا ہے جہاں سینکڑوں سائنسدانوں نے جوہری سانحے کے بعد ماحول کی بحالی کے لیے کام کیا ہے۔

یوکرینی سائنسدان گیناڈی لیپٹوو اور میں ایک خشک قطعہ زمین پر کھڑے ہیں جو کبھی چرنوبل جوہری پاور پلانٹ کو ٹھنڈا رکھنے والا تالاب ہوتا تھا۔

کشادہ کندھوں والے گیناڈی لیپٹوو کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی عمر کا آدھے سے زیادہ حصہ یہاں گزارا ہے۔ میں فقط 25 سال کا تھا جب میں تابکاری سے متاثرہ علاقے کی صفائی کے لیے یہاں آیا تھا۔ اب میں تقریباً 60 سال کا ہوں۔‘

سنہ 1986 میں وقوع پذیر ہونے والے تاریخ کے بدترین جوہری حادثے کے بعد وسیع پیمانے پر ہونے والے اس خطرناک صفائی کے کام میں ہزاروں افراد نے حصہ لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

چرنوبل پلانٹ، جہاں 24 ہزار سال تک انسان آباد نہیں ہو سکتے

یورپ کا ‘آسیب زدہ قصبہ’ جہاں درختوں کا راج ہے

جس نے تنِ تنہا ایٹمی بحران روک دیا

گیناڈی نے مجھے میز کے سائز کا گرد اکٹھا کرنے والا پلیٹ فارم دکھایا۔ سنہ 2014 میں جب نزدیکی دریا سے پانی کھینچنے والے پمپس بند کر دیے گئے تو تالاب کا یہ حصہ خشک ہو گیا۔ ایسا بچ جانے والے تین ری ایکٹرز کو بند کرنے کے بھی 14 سال بعد کیا گیا۔

گرد جانچ کر تابکار آلودگی کا اندازہ لگانا اس وسیع و عریض ویران علاقے پر کی جانے والی دہائیوں پر مشتمل ریسرچ کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ جوہری حادثے نے اس علاقے کو ایک بڑی آلودہ تجربہ گاہ میں بدل دیا ہے جہاں سینکڑوں سائنسدانوں نے جوہری سانحے کے بعد ماحول کی بحالی کے لیے کام کیا ہے۔

تجربہ جو عالمی سانحے میں بدل گیا

چرنوبل جوہری پاور پلانٹ

سٹیل کا حفاظتی ڈھانچہ متاثرہ ری ایکٹر کا احاطہ کیے ہوئے ہے جبکہ کرینز اندر موجود تابکاری کے بچے کچے حصوں کو توڑ رہے ہیں۔

26 اپریل 1986 کو رات ایک بج کر 23 منٹ پر انجینئرز نے چرنوبل جوہری پلانٹ کے ری ایکٹر نمبر چار کے چند حصوں کو پاور کی سپلائی منقطع کر دی۔

تجربے کا یہ اہم مرحلہ ان ممکنہ حالات کو سمجھنے کی کاوش کا حصہ تھا جو ری ایکٹرز کو بجلی کی مکمل عدم دستیابی یا بلیک آؤٹ کی صورت میں پیش آ سکتے ہیں۔

لیکن انجینئرز کو یہ علم نہیں تھا کہ ری ایکٹر پہلے سے ہی غیرمستحکم تھا۔

پاور منقطع ہونے سے ری ایکٹر کو ٹھنڈا پانی پہنچانے والی ٹربائنز کی رفتار آہستہ ہو گئی۔ کم پانی کی وجہ سے زیادہ بھاپ بننے لگی اور نتیجتاً ری ایکٹر کے اندر دباؤ بڑھنے لگا۔

جب آپریٹرز کو اس صورتحال کا علم ہوا اور انھوں نے ری ایکٹر کو بند کرنے کی کوشش کی اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

بھاپ کے دباؤ سے ہونے والے دھماکے نے ری ایکٹر کی چھت اڑا دی اور ری ایکٹر کا مرکزی حصہ بیرونی ماحول پر عیاں ہو گیا۔

دھماکے کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہو گئے اور ہوا کی وجہ سے لگنے والی آگ مسلسل 10 دن تک لگی رہی۔ تابکار دھوئیں کی گرد کے بادل ہوا کے ذریعے یورپ میں پھیل گئے۔

مہلک دھویں کے اخراج کے وقت امدادی کارکنوں کی پہلی کھیپ وہاں پہنچی۔

بعد ازاں ان میں سے 134 کارکنوں میں تابکاری سے متعلق بیماری تشخیص ہوئی۔ ان 134 میں سے 28 کارکنوں کی موت اس واقعہ کے چند ماہ کے اندر ہی واقع ہو گئی جبکہ بچ جانے والوں میں سے اب تک 19 مذید ہلاک ہو چکے ہیں۔

ہائڈرو میٹرولوجیکل انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ماحولیاتی سائنسدان گیناڈی نے انخلا کے تین ماہ بعد ہی اس ممنوعہ علاقے میں کام کرنا شروع کیا۔

وہ کہتے ہیں ’پانی اور مٹی کے نمونے حاصل کرنے کے لیے ہم ہیلی کاپٹر کے ذریعے روزانہ کیف سے آتے تھے۔‘

’ایکسکلوژن زون (ممنوعہ علاقے) کا پہلا نقشہ بنانے کے لیے اس وقت اہم یہ تھا کہ اس بات کا پتا لگایا جائے کہ ماحول میں تابکاری آلودگی کا پھیلاؤ کس حد تک موجود ہے۔‘

یہ ایکسکلوژن زون یوکرین اور بیلاروس تک پھیلا ہے۔ یہ علاقہ 4،000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جو کہ لندن کے رقبے کے دگنے سے بھی زائد ہے۔

پلانٹ کے 30 کلومیٹر کے حصار میں موجود تمام آبادیوں کا انخلا عمل میں آیا اور کسی کو وہاں دوبارہ جا کر بسنے کی اجازت نہیں تھی۔

ناروڈیچی، یوکرین

ناروڈیچی متاثرہ علاقے سے باہر واقع ایک گاؤں ہے جس کو سرکاری طور پر آلودہ علاقہ کہا گیا ہے۔

اس حادثے کے چند ماہ بعد ممنوعہ متاثرہ علاقے کے بیرونی حصے میں لوگوں کو خاموشی سے ان کے گھروں میں لوٹنے کی اجازت دے دی گئی۔

نیروڈیچی 2،500 لوگوں پر مشتمل ایک آبادی ہے۔

’30 کلو میٹر زون‘ سے مختلف اس تقریباً غیر آباد علاقے میں آمد و رفت روکنے کے لیے چیک پوائنٹس موجود نہیں ہیں۔ اس تابکاری سے متاثرہ علاقے پر کڑے قوانین لاگو ہوتے ہیں اور یہاں کی زمین کو کاشت کاری کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کو آباد کیا جا سکتا ہے۔

آج نقشے پر یوکرین کے اس حصے کو دو حصوں یعنی آلودہ یا صاف میں تقسیم کرنا آسان نہیں ہے۔

ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ چرنوبل حادثے کے بعد کی صورتحال بہت پیچیدہ ہے اور یہاں کا جغرافیہ نیروڈیچی پر لاگو ہونے والے ’ڈو ناٹ ٹچ‘ (یا ہاتھ مت لگائیے) جیسے کڑے قوانین سے زیادہ عجیب اور دلچسپ ہے۔

نیروڈیچی کے باشندوں کو تابکار شعاعوں سے زیادہ تابکار شعاعوں کا خوف نقصان پہنچا رہا ہے۔

’یہاں تابکاری جہاز میں موجود تابکاری سے کم ہے‘

ڈوزی میٹر

ڈوزی میٹر تابکاری کی اس مقدار کو جانچتا ہے جو کہ ہم ہر ایک گھنٹے میں حاصل کرتے ہیں۔

تالاب کے جس حصے پر ہم کھڑے ہیں اس سے ایک کلومیٹر سے بھی کم دوری پر واقع نیوکلئیر پلانٹ کو میں گیناڈی کے عقب میں دیکھ سکتی ہوں۔

یونٹ نمبر چار کو اپنے اندر سمائے ہوئے ایک بڑے حفاظتی سٹیل ’نیو سیف کنفائنمٹ‘ کا ڈھانچہ سورج کی روشنی سے دمک رہا ہے۔

سنہ 2016 میں اس کو سانحے کے مرکز پر نصب کیا گیا تھا۔ اس نے نیچے روبوٹ کرینز 33 سال پرانے تابکاری کے ملبہ کو گرا رہی ہیں۔

انخلا کے وقت لوگ جو کھیت اور باغ چھوڑ گئے تھے وہ زمین جنگلی حیات کے لیے حیران کُن طور پر زرخیز آماجگاہ بن گئی ہے۔ لمبے عرصے تک کی جانے والی تحقیق کے مطابق متروکہ دیہات میں جنگلی حیات کی تعداد اس زون کے باقی علاقوں سے زیادہ ہے۔ بھورے ریچھ، جنگلی سور اور سیاہ گوش یہاں گھومتے دیکھائی دیتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق تابکاری سے شدید متاثرہ علاقوں میں پائے جانے والے پرندوں کے ڈی این اے میں نقصان کے شواہد ملے ہیں۔

کیف چڑیا گھر میں کام کرنے والی ڈاکٹر مرینا کہتی ہیں ’15 سال تک ان پر تحقیق کرنے کے بعد ہمارے پاس ان کے رویے کے بارے میں بہت زیادہ معلومات ہیں۔ چرنوبل کے بھیڑیے یوکرین کے سب سے زیادہ قدرتی بھیڑیے ہیں۔‘

چرنوبل کے بھیڑیے، ہرن اور یہاں تک کے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ خفیہ کیمروں سے بنائی گئی تصاویر بھیڑیوں کے کھانے کی عادات ظاہر کرتی ہیں۔ انھیں لوگوں کے پرانے باغات کے درختوں سے پھل توڑ کر کھاتے بھی دیکھا گیا ہے۔

ہر گاؤں پر جنگلی حیات قابض نہیں ہیں، 30 کلومیٹر زون کے اندر کچھ لوگ بھی رہتے ہیں۔

چرنوبل

ماریہ ان 15 افراد پر مشتمل آبادی کا حصہ ہیں جو اس زون میں رہتی ہیں۔ یہ لوگ اپنی خوراک خود پیدا کرتے ہیں اور واڈکا بھی خود تیار کرتے ہیں۔

میرے اس علاقے میں قیام کے چوتھے روز ہم ماریہ کے گھر گئے۔

اُس دن ان کی 78 ویں سالگرہ تھی۔ وہ ہمارا انتظار کر رہی تھیں اور انھوں نے ہمارے لیے ناشتہ تیار کیا ہوا تھا۔

ماریہ نے مجھے، میرے ساتھیوں اور مترجم ڈینیس کو پھلدار درخت کے نیچے پڑے لکڑی کے میز پر بیٹھنے کی دعوت دی۔

انھوں نے کہا ’اگر آپ کو یہ واڈکا نہیں پسند تو آپ چیری والی لے لیں، یہ میں نے بنائی ہے۔‘

ماریہ اور ان کے پڑوسی 15 لوگوں کی ایک چھوٹی سی بستی میں رہتے ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا ’ہم سب بہت بوڑھے ہیں اور ہم مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتے‘۔

پرپیت

حادثے سے پہلے پریپیت میں 50 ہزار افراد بستے تھے

زیادہ تر لوگ پریپیت میں رہتے تھے۔ یہ شہر خاص طور پر پاور پلانٹ میں کام کرنے والوں کے لیے بنایا گیا تھا۔

حال ہی میں تھوڑے دورانیے کے لیے پریپیت کا دورہ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور اب یہ یوکرین میں سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ دلچسپ جگہ بن گئی ہے۔ پچھلے سال 60 ہزار افراد نے ڈرامائی انداز میں ہونے والی بوسیدگی کو دیکھنے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا۔

گیناڈی کہتے ہیں ’لوگ چاہتے ہیں کہ یہاں زندگی کی رونق مذید بڑھے۔ اور ہم بطور سائنسدان جانتے ہیں کہ اس علاقے میں بہت سی جگہیں ایسی ہیں جن پر سے پابندی ہٹائی جا سکتی ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ ایک بہت مثبت قدم ہوگا۔

سیاح

ممنوعہ علاقوں کے مضافات میں سیاحوں کے لیے اب سائن بورڈز نظر آتے ہیں۔

میں نے نیروڈیچی میں چھوٹے بچوں کے سکول کا دورہ کیا جہاں بچے دھوپ میں باہر کھیل رہے تھے۔

کنڈرگارٹن منیجر تاتیانا کراوچینکو کا کہنا ہے ’متاثرہ علاقے کی صفائی کے سلسلے میں بچوں اور اساتذہ کا انخلا ہوا تھا۔ تین ماہ میں ہمیں واپس بھیج دیا گیا اور ہمارے پاس 25 بچے تھے۔ رفتہ رفتہ لوگ واپس آئے، نئے بچے پیدا ہوئے اور بچوں کے سکول دوبارہ سے بھرنے لگے۔ اب ہمارے پاس 130 بچے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’ہم یہاں رہتے ہیں۔ ہمارے بچے یہاں رہتے ہیں۔ ہم کہیں اور نہیں جائیں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32551 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp