باپ مہرباں ہے تو بھائی بھی سائباں ہے


جذباتی لوگوں میں ایک بڑی خرابی ہے، ہمیشہ جذبات سے ہی سوچتے ہیں۔ عقل کا استعمال کم ہی کرتے ہیں۔ جہاں ”دماغ“ کا کام ہو وہاں ”دل“ کو آگے کر دیتے ہیں اور جہاں ”دل“ کی باری آئے وہاں عقل کو ”پاسباں“ بنا لیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں نقصان بے چارہ دل ہی اٹھاتا ہے۔

پچھلے دنوں ہم سب کے پیج پر میڈم رابعہ الربا کا مضمون ”بہن کا جہاں اور ہے بیٹی کا جہاں اور“ ہے پڑھا۔ رابعہ الربا بہت ”دلربا“ لکھتی ہیں۔ لیکن یہ وہ واحد مضمون ہے جسے پڑھ کر ہمارا حساس دل کچھ پریشان سا ہو گیا۔ ایک کمنٹ کے ذریعے اپنے آپ کو کچھ ”رام“ کرنے کی کوشش کی مگر لا حاصل۔ دل ہے کہ مسلسل ضد پہ اڑا ہے اور دل کی ضد کے آگے بھلا کسی کی چلی ہے؟

میڈم نے جو لکھا وہ ان کا اپنا نکتہ نظر ہے جو ان کے تجربات اور مشاہدات پہ مبنی ہے۔ لیکن ہمارا مشاہدہ اور تجربہ اس سے ذرا ہٹ کر ہے۔ ان کے نزدیک جہاں بھائی ایک ظالم اور جابر کے روپ میں نظرآ تا ہے، وہاں باپ ایک بے حد مہرباں مشفق انسان ہے۔ ہو سکتا ہے کسی زمانے میں بھائی اتنے ظالم ہوا کرتے ہوں، مگر باپ تو کسی زمانے میں بھی اتنے کمزور نہیں رہے کہ اپنی بیٹیوں کی ”ڈھال“ نہ بن سکیں۔

چلئے ہم آپ کو سات بیٹیوں کی کہانی سناتے ہیں، جو شروع تو سات بیٹیوں سے ہوئی تھی مگر پھر بڑھتے بڑھتے سات سو ”لڑکیوں“ تک پہنچ گئی۔ ان میں بیٹیاں بھی شامل ہیں اور بہنیں بھی۔ یہ کہانی ہے ان کی جہاں باپ ”مہرباں“ بنے تو بھائی بہنوں کے لئے ”سائباں“ بن گئے۔ ہر وہ موڑ جہاں باپ رشتے داروں کے دباؤ میں آ کر تھکنے لگا وہاں بھائی ”چٹان“ بن کے کھڑے ہو گئے۔

یہ کہانی ہے ان بیٹیوں کی، جو پیدا تو ایک زمیندار گھرانے میں ہوئیں لیکن دادا کی وفات کے بعد وراثت کی تقسیم ہوئی تو زمیندار ”کاشتکار“ میں بدل گئے۔ جہاں حصہ دار زیادہ ہوں وہاں یہی ہوا کرتا ہے۔ کا شتکاروں کے گھر میں اگر مسلسل بیٹیاں پیدا ہونے لگیں تو ”آدھے جہان“ اور ”سارے رشتے داروں“ میں بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ بہانے بہانے سے ہمدردی جتانے آتے ہیں اود گھرانے کا سکون درہم برہم کر جاتے ہیں۔

سات بہنوں سے بڑا ایک بھائی تھا۔ سمجھ تو آپ گئے ہوں کے بہنوں کی یہ ”قطار“ مزید بھائیوں کے انتظار میں لگی تھی۔ لیکن وہ جو میڈم نے لکھا کہ بیٹی کا جہاں اور ہے تو ان بیٹیوں کا جہاں بھی کوئی اور تھا۔ ورنہ اس جہاں میں تو بیٹی پیدا ہونے پہ ”ماتم“ کیے جاتے ہیں اور وہاں ساتویں بیٹی کی پیدائش پر ”دیگ“ پکوائی گئی۔ وہ دیگ نہیں تھی، بغاوت کا آغاز تھا ایک باپ کی طرف سے۔ کہ آؤ دیکھو بیٹیاں بوجھ نہیں ہوا کرتیں، اپنے باپ کی شہزادیاں ہوا کرتی ہیں۔

وہ خاندان جہاں تعلیم لڑ کوں تک بھی محدود تھی وہاں وہ بیٹیاں پوری شان سے بڑے بھائی کے ساتھ سکول روانہ کر دی گئیں۔ لاکھ لوگوں نے ڈرایا کہ خرچہ کیسے پورا ہو گا؟ یہ تو لڑکیاں ہیں کل کلاں کو بیاہ کے دوسرے گھر چلی جائیں گی، آپ کو کیا فائدہ ہو گا؟ مگر باپ تو پھر باپ ہوتا ہے۔ اللہ مالک ہے ہمیشہ یہی جواب دیتے۔ ہر اگلی کلاس میں جانے پر خاندان کی بے چینی مذید بڑھ جاتی۔ سب چاچے، مامے، تائے، پھوپا، خالو نجانے کون کون سے ایرے غیرے نتھو خیرے قریبی رشتہ دار بن کر رستہ روکنے آ کھڑے ہوتے۔ اس دن باپ کی روٹی ”حرام“ ہوتی اور ماں کی آنکھیں سرخ۔

وقت گزرتا رہا، باپ ڈھلتا رہا اور بھائی گھبرو جوان بن گیا۔ اللہ کا کرم ہوا کہ بیٹیوں کی قطار کے بعد صبر کا پھل ملا اور اللہ نے مذید بیٹے عطا کیے۔ لیکن تب تک بیٹیاں سمجھنے لگی تھیں کہ کچھ ہے جو ”نارمل“ سے ہٹ کر ہے۔ کلاس فیلوز سے دوستی کہ دوران یہ عقدہ کھلا کہ یہ تو ہر گھر کی کہانی ہے لیکن اپنی کہانی میں ”کانٹوں“ کا تڑکا کچھ زیادہ ہی لگا ہے۔

بڑی بہن کا داخلہ میڈیکل کالج میں ہوا تو سمجھو تابوت میں آخری کیل گڑی۔ تابوت بھی وہ جو خاندان کے عین سینے پہ رکھا تھا۔ ہزار دلیلوں سے ذلیل کیا گیا، سوشل پریشر دیا گیا لیکن باپ کو کون روک سکتا ہے بھلا؟ بائیکاٹ تک کی دھمکیاں دی گئیں۔ یہ سب باپ اور بھائی نے کبھی بہنوں تک نہ آنے دیا اور تعلیمی سفر جاری رہا۔ بیٹیاں کالج تک آگئیں اور باپ نے فقط اتنا کہا ”بیٹا ہم نے تمھیں پڑھایا ہے، خیال رکھنا تم پہلی لڑکیاں ہو اور تمھارے پیچھے ایک لمبی قطار ہے، راہ کے کانٹے تم نے چننے ہیں، پیچھے والوں کا رستہ صاف و شفاف رہے“۔

کچھ دن سکون کے گزرتے مگر خاندان کو نجانے کون سا کیڑا کاٹ کے بیٹھا تھا جو ایک پل بھی سکون سے نہ بیٹھتے اور آ دھمکتے۔ اب نیا مسئلہ تھا کہ شادیاں کہاں ہوں گی ان کی؟ اور باپ کا وہی جواب کہ ”اللہ مالک ہے“۔ لیکن وہ جو ان بیٹیوں کے حصے کی تھوڑی بہت زمین تھی اس کے ”مالک“ بننے کو کئی گھرانے تیار تھے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ باپ کا ”شوق“ ان بیٹیوں کا ”جنون“ بن گیا۔ پڑھنا ہے اور آگے بڑھنا ہے اتنا آگے کے خاندان کے لڑکے بہت پیچھے رہ گئے۔

جب لڑکیاں خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ قابل بھی ہوں تو لوگوں کے سینے پہ خوامخوہ ہی سانپ لوٹتے رہتے ہیں۔ وہ لڑکیاں جن کی ”ڈگریاں“ ان کے سینوں میں انی بن کے گڑی تھیں، اب آنکھوں میں ”خار“ بن کے کھٹکنے لگی تھیں۔ لیکن ان کی دیکھا دیکھی سب نے ”اپنی اپنی بیٹیوں“ کو سکول بھیجنا شروع کر دیا۔ ہم عصر نہ سہی لیکن نئی نسل پہ تعلیم کے دروازے کھل گئے۔

نجانے یہ ”فخر“ کا مقام ہوتا ہے کہ ”شکر“ کا کہ والدین اپنی اولاد کے نام سے پہچانے جائیں۔ لیکن ان بیٹیوں کے لئے یہ فخر کا مقام تھا کہ اللہ نے ان کو ایسے والدین دیے، شکر کا مقام کا تھا کہ ایسا بھائی دیا جو ان کے آگے ڈھال بن کے کھڑا تھا۔ کہ زمانے کی سرد وگرم ہوا بھی ان کو چھو نہ سکی۔ وہ خاندان جس میں لکھنے کا مطلب صرف ”یار کو خط لکھنا ہو“ (معذرت کے ساتھ کہ ہمیشہ یہی لفظ سنا) وہاں کی بیٹی لکھنے لگی اور کلاس فیلوز حیران ہو کہ پوچھتے یہ تم نے لکھا؟

تعلیم اور قسمت دونوں اچھی ہوں تو ”نوکریاں“ بھی جلدی مل جایا کرتی ہیں۔ نوکری بھی وہ جو سرکاری ہو تو سمجھو لاٹری لگ گئی۔ اور ایسی ”بھاگوان“ خاندان کی جان بن جایا کرتی ہیں۔ پہلے جن کی ڈگریاں جان کو ”جلایا“ کرتی تھیں اب وہ دل کو لبھایا کرتیں۔ رشتے کے لئے امیدوار ہزار، خاندان سے بھی اور خاندان کے باہر بھی۔ یہاں آ کے والدین ہار گئے۔ باپ کی ہمت جواب دے گئی، ماں کا حوصلہ کم پڑ گیا۔ وہ بیٹیاں جن کے لئے پورے خاندان سے لڑ گئے، ان کو غیروں کے حوالے کیسے کر دیں؟

یہ وہ جنگ تھی جو بھائی نے لڑی اور اس شاندار طریقے سے لڑی کہ بہنوں پہ الزام بھی نہ آیا۔ وہ جو ایک بے وقوف سی جذباتی لڑکی تھی ان بہنوں میں، کبھی کبھی پھٹ پڑتی، جوش و جذبات میں نجانے کیا کیا بول جاتی۔ مگر وہ جو بھائی یے ہمیشہ ”چھاؤں“ کیے رہا۔ ہر سرد وگرم سے بچایا۔ یہی کہا کہ ہر کسی کے معاملے میں ٹانگ مت اڑایا کرو۔ لیکن بہنوں کا معاملہ ”ہر کسی“ کا تھوڑی ہوتا ہے۔ یہ تو شادی کے بعد پتا چلا ہے کہ بہن بھائی صرف ماں باپ کے گھر ہوتے ہیں۔ جب والدین کا گھر چھوٹتا ہے تو رشتے بھی ”نازک“ ہو جایا کرتے ہیں۔

اب وہ ساری بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں۔ اللہ ہمیشہ آباد رکھے، بھائی جو سائباں تھا اپنے گھر میں شاد ہے، ہمیشہ شاد رہے۔ چھوٹے بڑے ہو گئے ہیں، بڑے مزید بڑے اور والدین بزرگ۔ وہ کہانی جو سات بیٹیوں سے شروع ہوئی تھی اب سات سو لڑکیوں تک جا پہنچی ہے۔ ہر گھر میں باپ مہرباں ہے اور بھائی سائباں۔ اب بہن اور بیٹی کا جہاں ایک ہے۔ اب آنے والی بہنوں کے راستے شفاف ہیں۔ خدا کرے کہ ان کے راستے میں کبھی کانٹے نہ آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).