نیب، سرکاری ملازم کا خوف اور اس کا نتیجہ


کریمنل لاء کا ایک بہت ہی لازمی اور بنیادی اصول ہے۔ وہ ہے جرم کرنے کی نیت۔ دوسرا عنصر اگرچہ اتنا بنیادی نہیں لیکن وہ بھی بہت اہم ہے۔ وہ ہے محرک یعنی motive۔
جرم، حادثہ، غفلت، نالائقی یا غلطی قانون کی نظر میں مختلف نتائج رکھتے ہیں۔

پاکستان میں پہلے توہین کے مقدمات میں ان بنیادی اصولوں کو نظر انداز کر دیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً کرنے والے کو معلوم ہی نہ ہو کہ اس نے کیا کیا یے۔ جیسے کوئی غریب یا ان پڑھ شخص اخبار کا کوئی ٹکڑا زمین پر پھینک دے جس پر کوئی مقدس حروف لکھے ہوں اور اس کو توہین کے جرم میں سزا دے دی جائے۔

دوسرے اب نیب نے نیت اور محرک کو نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے۔ عمران خان پر ہیلی کاپٹر کے استعمال کا الزام کچھ اسی طرح لگتا یے۔ صوبائی وزیراعلی یا کابینہ کے ساتھ دوروں میں بطور پارٹی چیئرمین جانا ہمارے خیال میں کرپشن کے جرم میں کھینچنا غلط ہے۔

نیب نے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی ایک شق یاد کی ہوئی ہے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا خرچہ فرد نے خود کو، اپنے کسی فرنٹ مین کو یا رشتے دار کو کوئی فائدہ پہنچانے کے لیے کیا یا وہ خرچہ اس کی سرکاری ذمہ داری کا نارمل حصہ تھا۔ ویسے تو ہر سرکاری خرچہ قومی خزانے کو نقصان قرار دیا سکتا ہے۔

جرم یا کرپشن کی نیت کے بغیر کسی ضابطے کی خلاف ورزی کرپشن نہیں ہوتی۔ محکمہ جاتی کارروائی ممکن ہے۔ کسی سرکاری ملازم کی نالائقی بھی جرم نہیں ہوتی۔ اس کے نتیجے میں اس کو ٹرانسفر، تنزلی یا ملازمت سے برطرفی کی سزا دی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ کرپشن کا جرم نہیں ہوتا۔

اسی طرح کسی سرکاری ملازم سے کسی معاملے میں تمام کوشش کے باوجود غلط فیصلہ ہوجائے۔ تو وہ بھی جرم نہیں ہوتا۔ اس کو محکمے میں اپیل یا شکایت یا عدالت میں کیس کرکے درست کیا جاسکتا ہے۔

غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ ہائی کورٹس کے فیصلے روزانہ سپریم کورٹ بدل دیتی ہے۔ بعض دفعہ خود اپنا فیصلہ بھی نظر ثانی میں بدل دیتی ہے۔ جب کہ ان کے سامنے فریقین کے وکلا معاملے کے تمام پہلو واضح کرتے ہیں۔ پھر بھی غلط فیصلہ ممکن ہے۔

اسی طرح نیب کے وہ کیس جو وہ عدالتوں میں ثابت نہیں کر پاتے۔ انھیں خود ان کے حساب سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانا سمجھا جاسکتا ہے۔ وسائل کا ضیاع بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔
لیکن سب سرکاری ملازمین کو قانون نیک نیتی کا تحفظ دیتا ہے۔ مطلب ان کی نیت جرم کی نہیں بلکہ اپنا کام کرنے کی تھی۔

تو عرض صرف اتنی ہے۔ کہ ہر سرکاری نوکر کے ہر کام پر نیب کا نوٹس یا جے آئی ٹی بٹھا دی جائے تو کچھ نہ کچھ بے ضابطگی نہیں تو کم از کم مختلف رائے یا آپشن نہ اپنانے پر سرزنش تو کی جاسکتی ہے۔

لیکن نتیجے اس کے دو نکلتے ہیں۔ ایک تو ملازمین سرے سے کام کرنا ہی بند کردیں۔ حسب توفیق لٹکائے رکھیں۔ یا پھر قوانین و ضوابط سے بالکل بے پروا ہوجائیں۔ کیونکہ جب انھیں غلط صحیح کا فرق کیے بغیر رگڑا جاسکتا ہے تو وہ غلط صحیح کے فرق میں کیوں مغز کھپائیں۔

سنا ہے بہت سا بجٹ محض اس لیے لیپس کرجاتا ہے کہ سرکاری ملازم آڈٹ یا نیب کے خوف سے کام نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ثنا اللہ گوندل ایڈووکیٹ۔
February 3, 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).