اسد منیر نے خودکشی کیوں کی؟


بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیرنے خودکشی سے قبل چیف جسٹس پاکستان کے نام ایک خط لکھا، جس میں کہا کہ اس امید پر جان دے رہا ہوں کہ چیف جسٹس نظام میں مثبت تبدیلیاں لائیں۔ خط میں انہوں نے لکھا کہ ہتھکڑی لگا کر میڈیا کے سامنے لائے جانے کی رسوائی سے بچنے کے لیے خودکشی کر رہا ہوں۔ نیب کی جانب سے بریگیڈیئر ریٹائرڈاسد منیر کے خلاف کرپشن ریفرنس دائر کیے جانے بعد گزشتہ روز انہوں نے خودکشی کر لی تھی۔ انہوں نے مجھے 2016 میں پیغام بھیجا تھا کہ میرا پاکستان میں کہیں گھر نہیں ہے، میں ایک اپارٹمنٹ میں رہتا ہوں، نہ ہی میرا کوئی کاروبار ہے اور نہ ہی کوئی کمرشل جائداد ہے، صرف 2005 کے ماڈل کی ایک کار ہے۔

یہ پیغام انہوں نے مجھے اس وقت بھیجا تھا جب انہیں انکوائریوں کا سامنا کرتے ہوئے 8 سال گزر چکے تھے۔ حالاںکہ وہ فوج میں اہم عہدوں پر فائز رہے تھے اور بعد ازاں سول بیوروکریسی میں اہم عہدوں پر رہے جس کی وجہ سے یہ باتیں کچھ عجیب تھیں۔ ابتدا میں اسد منیر نے خیبر پختونخوا اور فاٹا میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کی قیادت کی، جب کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ گورنر خیبر پختونخوا کے سیکرٹری بن گئے۔

ریٹائر منٹ کے بعد اسد منیر نے نیب میں بحیثیت ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، اسپیشل انویسٹی گیشن ونگ (نیب راولپنڈی) میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے بعد ان کی تقرری سی ڈی اے میں ممبر اسٹیٹ کے طور پر ہوئی جہاں وہ 2006 تا 2008 تعینات رہے۔ تاہم، جو لوگ انہیں جانتے تھے انہیں اس بات کا علم ہے کہ وہ مبالغہ آرائی نہیں کر رہے تھے۔ وہ سچے انسان تھے۔ ان کی دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور وہ ان دنوں اپنی اہلیہ کے ساتھ ڈپلومیٹک انکلیو کے ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہے تھے، کیوں کہ انہیں سیکورٹی خدشات تھے۔

وہ ایک خوش مزاج اور مہمان نواز انسان تھے۔ جب کہ ان کی حس مزاح بھی اچھی تھی۔ اس کے باوجود سب پوچھ رہے ہیں کہ انہوں نے خودکشی کیوں کی؟ کسی کو یقین نہیں آرہا کہ ان کی موت غیر فطری ہے۔ میں خود اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا، یہاں تک کے مجھے ان کے چھوٹے بھائی کرنل ریٹائرڈ خالد منیر نے اس بات کی تصدیق کی۔ دونوں بھائیوں کے درمیان رات گیارہ بجے آخری مرتبہ بات ہوئی تھی۔ جس میں خالد منیر کو ان کے خودکشی کرنے کی بھنک بھی نہیں ہوئی تھی۔

البتہ ان کے قریبی دوستوں سے بات کر کے ایسا محسوس ہوا کہ وہ یہ بات جان کر سخت افسردہ تھے کہ سی ڈی اے کے سابقہ افسران کے خلاف جو ریفرنس دائر کیا گیا تھا، اس میں انہیں بھی شریک ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔ انہوں نے ممبر اسٹیٹ کی حیثیت سے 2008 میں ایک درخواست گزار کے پلاٹ کی بحالی کی سفارش کی تھی۔ ان کی سفارش بھی سی ڈی اے کی بحالی پالیسی 2007 کے مطابق تھی۔ جب کہ مجاز اتھارٹی، چیئرمین سی ڈی اے تھے۔ انکوائری کا آغاز 2008 میں ہوا تھا جہاں اسد منیر کو بطور گواہ بلایا گیا تھا۔

تاہم، 2017 میں وہ مشکلات کا شکار ہو گئے۔ وزارت داخلہ نے ایک ایف آئی آر کی وجہ سے ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا، حالاں کہ ایف آئی آر میں ان کا نام بھی نہیں تھا۔ سیکرٹری داخلہ نے ان کی نظر ثانی کی درخواست پر غور نہیں کیا اور ایک سال سے زائد ان کا نام ای سی ایل پر رہا۔ جمعرات کے روز نیب نے ان کے خلاف ریفرنس کی منظوری دے دی، جس میں دیگر کے ہمراہ انہیں بھی ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔ جمعے کی رات خالد منیر سے بات کرنے سے قبل اسد منیر نے اہم عہدے پر فائز ایک دوست سے بھی بات کی تھی اور انہیں نیب ریفرنس سے متعلق بتاتے ہوئے اپنی گرفتاری کے خدشے سے بھی آگاہ کیا تھا۔

 انہوں نے اپنے دوست کو بتایا تھا کہ یہ ان کے لیے باعث رسوائی ہوگا، کچھ ہفتے قبل ہی انہوں نے سی ڈی اے کے اپنے دو دیگر ساتھیوں کو بھی ہتھکڑیوں میں جکڑے دیکھا تھا۔ جب وہ عدالت میں ان سے ملنے گئے تھے تو پولیس اہلکار انہیں دھکا دیتے ہوئے لے گئے تھے۔ یہ منظر ان کے ذہن میں عکس ہو کر رہ گیا تھا۔ انہو ں نے اپنے دوست کو بتایا کہ میں اس صورت حال کا سامنا کیسے کرسکتا ہوں۔ تصور کرو وہ مجھے عدالت میں لے کر جائیں گے، جہاں میڈیا بھی ہوگا اور مجھ سے اس کرپشن سے متعلق سوال کرے گا جو میں نے کبھی کی ہی نہیں۔

 اسی کیفیت میں رات ڈیڑھ بجے کے وقت ٹی وی پر نیب ریفرنس کی خبر پھر آئی۔ جس سے ان کے ڈپریشن میں مزید اضافہ ہوا۔ انہوں نے اپنا پستول نکال کر اپنے سر پر گولی چلانا چاہی مگر ناکام رہے۔ یہ دیکھ کر ان کی اہلیہ کی آنکھ کھل گئی، جنہوں نے پستول ان سے لے لی اور انتہائی قدم اٹھانے سے باز رکھا۔ جس کے بعد وہ سونے چلے گئے، ان کی اہلیہ کو بھی لگا کہ وہ سو چکے ہیں مگر دراصل وہ اپنی اہلیہ کے سونے کا انتظار کر رہے تھے۔

جب ان کا ملازم 4 بجے تہجد کی نماز پڑھنے اٹھا تو اس نے ایک سلگتا ہوا سگریٹ دیکھا۔ اسے دیکھ کر وہ حیرت زدہ ہوا کہ اسد منیر کے علاوہ اور کون سگریٹ پی سکتا ہے؟ جب کہ اسد منیر کو اپنے کمرے میں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ملازم کا اندازہ غلط نکلا. اسد منیر اسٹور میں پنکھے سے لٹکے ہوئے تھے۔ جہاں انہوں نے چیف جسٹس پاکستان کے نام ایک خط چھوڑا تھا۔

(بشکریہ: روز نامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).