کولمبیا: دنیا کا سب سے بڑا چکلہ


کولمبیا برِاعظم جنوبی امریکہ کی ایک آزاد ریاست ہے۔ پانچ کروڑ نفوس کی آبادی پر مشتمل اس ملک کی سرحدیں، پانامہ، وینزوئیلا، برازیل، ایکواڈرو، اور پیرو سے ملتی ہیں۔ بگوٹا شہر اس کا دارالخلافہ ہے۔ کولمبیا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے ان ممالک میں نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، آسٹریا، آئس لینڈ، برکینا فاسو، آؤری کوسٹ، جاپان، ناروے، رشیا، فرانس، جرمنی، یونان، بیلجیم، ڈومینیکن ریپبلک، تھائی لینڈ، ہنگری، لیٹویا، لبنان، پانامہ، پیرو، یوراگوئے، وینزویلا، گنی بساؤ، چلی، ترکی، نیدر لینڈ، ایکواڈور، برازیل اور کولمبیا شامل ہے۔

کچھ ممالک جیسے کہ انڈونیشا، بنگلہ دیش اور بھارت میں یہ قانونی تو نہیں ہے لیکن یہ اتنی زیادہ ہے اور قانون اس پر گرفت بھی نہیں کرتا تو کئی حلقے اسے قانونی تسلیم کرتے ہیں باوجودیکہ ان تین ممالک میں یہ غیر قانونی ہے۔ Medellín کولمبیا کادوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی 37 لاکھ کے قریب ہے۔ سترہویں صدی عیسوی میں اس شہر کی بنیا د El Poblado کے نام سے پڑی۔ دنیا میں کافی اور سونے کے علاوہ Medellín شہر ایک اور وجہ سے بھی جانا جاتا ہے اور وہ ہے یہاں کی جسم فروشی کی ”صنعت“۔

جی ہاں آپ اسے گلی بازار کی زبان میں دنیا کاسب سے بڑا ”چکلہ“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن شاید یہ بات بھی کوئی غیر معمولی بات نہ ہو، جو بات اس شہر سے متعلق سب سے زیادہ دل چسپی کی حیثیت کی رکھتی ہے وہ ہے کہ اس شہر میں کنواری لڑکیوں کی منڈی لگتی ہے جہاں ان لڑکیوں کی سرِ عام خرید و فروخت ہوتی ہے۔ کسی زمانے میں یہ شہر منشیات کے دھندے کی وجہ سے بدنام تھا اب خیر سے جسم فروشی کے قانونی ”کاروبار“ کی وجہ سے ”مشہور“ ہے۔

نوے کی دہائی میں لوگ اس شہر کا رُخ کرتے ہوئے گھبراتے تھے کہ یہاں قتل و غارت عام تھی اور دن دیہاڑے لوٹ مار اور خون خرابہ ہُوا کرتا تھا۔ اس خون خرابے اور منشیات کے دھندے کا Lord یا بادشاہ ایک ایسا شخص تھا جسے 44 برس کی عمر میں مار دیا گیا۔ 1993 میں جب سات متواتر برس اسے Forbes میگزین کی طرف سے دنیا کی امیر ترین شخصیات میں شامل کیا گیا تو شاید کم ہی لوگوں کو علم تھا کہ امریکہ میں 80 فی صد منشیات کی سمگلنگ کا سہرا ایک شخص کے سر تھا جسے دنیا Pablo Escobar کے نام سے یاد کرتی ہے۔

منشیات کا کاروبار تو ٹھپ ہوگیا لیکن اس کی مبادیات کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی۔ آپ آج بھی میڈیلین شہر میں داخل ہوئیے کسی بھی کیب میں بیٹھیے تو کیب ڈرائیور آپ سے خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد آپ کو اس شہر کی بہترین جگہوں اور بہترین دوشیزاؤں کے متعلق پوری تفصیلات بتائے گا کہ وہ اس ایک گینگ کا حصہ ہے جس نے اس شہر کو دنیا کا سب سے بڑا فحاشی کا اڈا بنا دیا ہے۔ دنیا میں سیاحت کی صنعت اس وقت تک کامیاب نہیں سمجھی جاتی جب تک اس میں جنسی تسکین اور اس کی مبادیات موجود نہ ہوں اور جب بات ہو ان عیوب کی قانونی آشیر باد کی تو کیوں نہ سیاح شہد کی مکھیوں کی طرح یہاں امڈے چلے آئیں۔

یہاں بہت سی جسم فروش خواتین نے نہ صرف اپنی ویب سائیٹس بنائی ہوئی ہیں بلکہ اس کی مختلف طریقوں سے تشہیر بھی کی جاتی ہے [دنیا کے کئی ایک ممالک ایسے ہیں جہاں جسم فروشی قانونی تو ہے لیکن اس کی تشہیر غیر قانونی ہے]۔ عام طور تشہیر کے لیے انسانی ذرائع کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ جہاں بھی کسی ”پروڈکٹ“ کی تشہیر محض انسانی ذرائع سے کی جاتی ہو سمجھ لیجیے کہ معاملہ گڑ بڑ ہے۔ پاکستان میں بھی ایک کمپنی جو دنیا کے سب سے بڑے بزنس کی دعوے دار ہے لوگوں کو جھانسا دے کر اپنے بزنس کا حصہ بناتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ شخص جو خود پھنسا ہوتا ہے مزید لوگوں کو منافع کے لالچ میں پھنساتا چلا جاتا ہے اور یوں ایک لامتناہی سلسلہ جنم لیتا ہے جس میں ایک کے بعد ایک شخص پھنستا چلاجاتا ہے اور اس سب کا فائدہ پردہ کے پیچھے سرمایہ دار کو پہنچتا ہے۔

ایسے ہی منشیات اور جسم فروشی کے اشتہارات بھی آپ کو کہیں نظر نہیں آئیں گے باوجودیکہ یہ دونوں ”صنعتیں“ دنیا کی بڑی صنعتوں میں شمار ہوتی ہیں۔ جسم فروشی کے لیے قانون کے مطابق کم از کم عمر 18 برس مقرر کی گئی ہے لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق میڈیلن شہر میں اس تجارت سے جڑی خواتین میں سب سے زیادہ طلب 18 برس سے کم عمر کی لڑکیوں کی ہے۔ 10، 12 اور 15 برس کی لڑکیوں کی یہاں بہت کھپت ہے۔ میں ایک ویڈیو میں ایک ایسی ہے خاتون کا انٹرویو دیکھ رہا تھا جس کا ماننا یہ تھا کہ ان کے سب سے زیادہ خریدار غیر ملکی ہوتے ہیں۔

کم عمر نابالغ لڑکیوں کی کم سے کم قیمت 100 ڈالر ہے۔ ایک خاتون جو آج بھی اس صنعت سے وابستہ ہے کہ اس کی دو بیٹیاں ہیں ایک کی عمر گیارہ برس اور دوسری کی سات برس اور چونکہ اس کا بزنس اسی صنعت سے منسلک ہے لہٰذا اس نے اپنے گھر ہی کو ”دفتر“ بنایا ہے لیکن اس کے ”صارفین“ میں سے زیادہ تر کی طلب اس کی گیارہ برس کی بیٹی ہوتی ہے لیکن اس نے اپنی بیٹی کو سختی سے منع کیا ہوا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے بہکاوے میں نہ آئے چونکہ وہ ابھی اس ”بزنس“ کے لیے تیار نہیں ہے۔

شہر کے اکثر چوکوں میں ”کنواری لڑکیوں“ کی خرید و فروخت [ جو کہ ایک جرم ہے ]عام ہوتا ہے لیکن پولیس اس پر خاموش رہتی ہے کہ ان تک ان کا حصہ مسلسل پہنچتا رہتا ہے۔ البتہ کولمبیا میں واحد شخص جو کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی عمل [ان کی مرضی سے] کرتا تھا بائیس برس کی قید کاٹ رہا ہے جس کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ 2011 میں اس شخص کو ایک ہوٹل سے گرفتار کیا گیا تھا جہاں وہ ان بچیوں کی فحش فلمیں بناتا تھا۔ جب اس شخص سے پوچھا گیا کہ آپ کم عمر بچیوں کے ساتھ ملوث پائے گئے تھے تو اس کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر شرمندہ نہیں ہے بلکہ بچیاں عمر میں بڑی لگی تھیں۔

اس شہر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں نہ صرف دنیا کے دیگر ممالک سے خواتین اس مقصد کے لیے تشریف لاتی ہیں یا اسمگل کی جاتی ہیں بلکہ مقامی مرد بھی ”ہڈ حرام“ ہوگئے ہیں اور وہ اپنی بیگمات اور بیٹیوں کو زبردستی اس صنعت کا حصہ بنا رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ جسم فروشی محض پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کی جاتی ہے غلط ہے گناہ اور مبادیات کو جب بھی قانونی چھتری تلے نمو یابی کا موقع ملا اس نے سب سے پہلے چھتری کو ہی دیمک زدہ کیا اور کولمبیا سمیت کئی ممالک اس کا شکار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).