نیولبرل ازم اورنظریہ کا مستقبل


\"nasir

(ناصر فاروق)

تہذیب مغرب میں ہروہ نظریہ مقبول ہوا، جس کا ہدف لذت پرستی اورمادی آسائشات کا زیادہ سے زیادہ حصول قرار پایا، فقط طریقہ کارکا اختلاف رہا۔ خودپرستی ہمیشہ خود شناسی پرحاوی رہی۔ موضوع ہی معروض سمجھا گیا، بندہ خود ہی خدا بن گیا۔ انسان کی مالی ومادی مسابقت ہی سارے مباحث کا مرکزی خیال رہی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مال کا ارتکازدرجہ بند رہا۔ کمیونزم میں محنت،قابلیت، اورمسابقت کا تصورمجروح رہا۔ غرض آج تک انسانی دنیا نظریہ حیات کے سنگین بحران میں مبتلا ہے۔ آج کے مغرب کا حاکم نظریہ نیولبرل ازم ہے۔ یہی یورپی یونین سے برطانیہ کی حالیہ طلاق کا سبب ہے۔ مدعا مضمون نیولبرل ازم کا تعارف، برطانیہ کی تنہائی، اورنظریہ حیات کے مستقبل کا سوال ہے۔

انیس سواڑتیس میں چند ماہرین معاشیات پیرس میں جمع ہوئے۔ \’نیولبرل ازم\’ کی اصطلاح وجود میں آئی۔ Ludwig von Mises اورFriedrich Hayek نے اصطلاح کی تعریف پیش کی۔ نیولبرل ازم پالیسی نمونہ ہے، جومعاشی امورعوام سے پرائیوٹ سیکٹرکےحوالے کرتا ہے۔ سن سینتالیس میں ہائیک نے نیولبرل ازم نظریہ کی ترویج کیلئے پہلی تنظیم Mont Pelerin Society بنائی۔ اس سوسائٹی میں آٹھ نوبیل انعام یافتہ ماہرین معاشیات سمیت بڑے بڑے سائنسدان، دانشور، اورپالیسی سازشامل تھے۔ مونٹ پیلیرن سوسائٹی نے آزاد منڈی اور آزاد خیالی کی آبیاری پرخطیر رقوم خرچ کیں۔ یہ نیولبرلزانٹرنیشنل تھے۔ بڑے بڑے عالمی اداروں نے نظریہ کے پرچارمیں اپنا پنا کردارادا کیا۔ نظریہ کے حامل افراد اہم اداروں کی اہم نشستوں پربٹھائے گئے، جامعات میں پروفیسرز، اورتھنک ٹینکس میں دانشورٹھہرائے گئے۔ تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد John Maynard Keynes کے معاشی نسخے رائج ہوسکے، جن کےمرکزی اہداف روزگارکی یقین دہانی اورغربت میں کمی تھے۔ ستر کی دہائی میں جب Keynesian پالیسیاں ناکام ہوئیں، نیولبرل نظریہ پھرمرکزی دھارے میں شامل ہوگیا۔ مانٹری پالیسی کیلئے نیولبرل نسخے تجویز ہوئے۔ جمی کارٹرحکومت نے امریکا اورجیمس کلاگھن حکومت نے برطانیہ میں نیولبرل معاشی پالیسیاں نافذکیں۔ مارگریٹ تھیچر اور رونالڈ ریگن کے اقتدارمیں آتے ہی یہ پالیسیاں پوری قوت سے رائج ہوئیں۔ امراء کے محصولات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی، تجارتی تنظیموں کا خاتمہ، ظابطوں سے آزادی (ڈی ریگولیشن)، نجکاری، پبلک سروسزمیں مسابقت اوراس کیلئے بیرونی ذرائع پرانحصارکرنا شامل ہیں۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، عالمی بینک، Maastricht، اورورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے نیولبرل پالیسیاں مسلط کیں۔ عموما جمہورکی رائے کا استیصال ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں بائیں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں نے سب سے زیادہ نیولبرل ازم کا خیرمقدم کیا، مثلا لیبر اورڈیموکریٹس۔ (نیولبرل ازم کا یہ تعارف برطانوی دانشورجارج مونبیٹ کے مضمون Neoliberalism – the ideology at the root of all our problems سے حاصل کیا گیا ہے)۔

\"412RLzPJ8lL\"

کینیڈین ماہرمعاشیات نومی کلین کی The Shock Doctrine کہتی ہے کہ نیولبرل ازم بحرانات استعمال کرکے غیرمقبول پالیسیاں مسلط کرتا ہے۔ جہاں یہ پالیسیاں مقامی سطح پر مسلط نہ کی جاسکیں وہاں عالمی دباؤسے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے لیے تجارتی معاہدے اورعالمی کارپوریشنزاہم کردارادا کرتی ہیں۔ جمہوریت تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔ نومی کلین کہتی ہیں \’عراق جنگ\’ کا بحران نیولبرل پالیسیوں کے تسلط کیلئے استعمال ہوا۔ درحقیقت برطانیہ آج تک ٹونی بلئیرکی جنگی جارحیت کے ثمرات سمیٹ رہا ہے، اورنہ جانے کب تک سمیٹتا رہے گا۔ یقینا، بریگزٹ نیولبرل ازم کے خلاف کامیاب بغاوت ہے۔ یہ آزاد تجارت سے جنگ ہے۔ ریاستوں کے اداروں پرقابض عالمی تاجروں، بینکاروں، اورپالیسی سازوں کے خلاف مقامی آبادیوں کا احساس ملکیت ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد نیٹومیں دراڑیں بھی اہل نظر کی بصیرت میں ہیں۔

حکومتیں بحرانات کوبطوربہانہ استعمال کررہی ہیں، امراء کے محصولات میں کٹوتی اورنجکاری مرکزی اہداف ہیں۔ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے اکثرممالک اورمشرقی یورپ سب سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ کارپوریشنزکومالی ظابطوں سے آزاد کیا جارہا ہے، اورشہریوں کونئے معاشی ظابطوں میں جکڑا جارہا ہے۔ برطانوی دانشورجارج مونبیٹ مذکورہ موضوع کی تفصیل میں لکھتے ہیں، کہ\’\’مالیاتی بحران، ماحولیاتی تباہ کاری، یہاں تک کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا چرچا نیولبرل ازم کا کھیل تماشا ہے۔ کیوں بائیں بازو والے اب تک نیولبرل ازم کا متبادل پیش نہیں کرسکے؟\’\’ (واضح رہے کہ لبرل ازم میں اشتراکی اقدارشامل ہوئی ہیں، اوریہی تبدیلی نیو لبرل ازم کولبرل ازم سے جدا کرتی ہے۔ )

برطانیہ جو یورپ سے علیحدہ ہوا، توسبب نیولبرل ازم کی ناکام پالیسیاں ہیں۔ نیولبرل ازم نے برطانوی عوام میں تنہائی کا احساس شدیدتر کیا۔ معاشی جکڑبندیوں سے مزدور طبقہ عتاب میں مبتلا ہوا۔ عام وباؤں میں صحت اورنفسیات کے مسائل نمایاں رہے۔ برطانیہ وہ ملک ہے، جہاں نیولبرل پالیسیاں سب سے زیادہ شدت سے اختیار کی گئیں۔۔۔۔ اسی لیے برطانیہ یورپ کا سب سے زیادہ \’تنہائی کا شکار\’ دارالحکومت قرارپایا۔ اس تنہائی پر John Bingham نے Britain the loneliness capital of Europe کے عنوان سے تفصیلی مضمون باندھا۔ غرض برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی نیولبرل پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ یہی یورپ میں نیولبرل ازم کے زوال کا اہم مرحلہ ہے، کیونکہ برطانیہ کے بغیریورپ کا نظریاتی استحکام محال ہے۔ آثارنظر انے لگے۔ پہلاواقعہ \’برطانوی ریفرنڈم سے پہلے\’ برطانوی خاتون رکن \’جو کاکس\’ کا قتل ہے۔ دوسرا واقعہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا استعفٰی ہے، اوراب نسل پرست برطانوی شہری اقلیتوں اورغیرملکیوں پرباقاعدہ حملے کررہے ہیں۔

نیولبرل ازم کا تعارف اوربرطانیہ کی یورپ سے علیحدگی کا ذکرمحض نیولبرل ازم کے نقصانات گنوانے کی خاطرہی نہیں بلکہ یہاں مغرب کے ہر نظریہ حیات کا رد مقصود ہے۔ کیونکہ ان سارے نظریات کا ہدف محض مادی آسائشات کا زیادہ سے زیادہ حصول ہے، جوانسانی فطرت اورنفسیات میں بہت بڑے عدم توازن کا سبب ہے، اوریہی عدم توازن نظریہ حیات کے مستقبل پرسوال اٹھارہا ہے۔

\"11351374\"

نظریہ زندگی کا مستقبل کیا ہوگا؟ ڈاکٹررفیع الدین کی گراں قدر اور نایاب تصنیف Future of The Ideology رہنمائی کرتی ہے۔۔۔ یہ کتاب مارکسزم کا ٹھوس، مدلل، اورمستقل رد ہے۔ مجموعی طور پر یہ تحقیق مغربی نظریہ حیات کا باطل ہونا ثابت کرتی ہے۔ گو اس کا عہد بیسویں صدی کا پہلا نصف ہے۔ گویہ سگمنڈ فرائیڈ، ایڈلر، اور کمیونزم سے مخاطب ہے۔ مگر ہر مادی نظریہ پر ایسی دور اندیش رائے ہے، جومکمل ہے، جامع اورناقابل تردید ہے۔ یہ رفیع الدین صاحب کے پی ایچ ڈی کا شاندار مقالہ اورسوشل سائنسز کی دنیا کا بڑا علمی کارنامہ ہے۔ ڈاکٹرصاحب مغرب کے معاشی اور نفسیاتی نظریات کے رد میں لکھتے ہیں، \’\’ اس کتاب کا نقطہ نظر یہ ہے، کہ جب سے انسان نے خودی کا احساس کیا ہے، انسانی گروہوں کے مابین زندگی کے بارے میں اعلٰی تصورات کا تصادم رہا ہے، اوریہ نظریاتی مسابقت جاری رہے گی، یہاں تک کہ انسان اپنی فطرت سے ہم آہنگ نہ ہوجائے، نفس \’مطمئن\’ تک نہ پہنچ جائے۔ جب تک اعلٰی تصورات کا ارتقاء جاری رہے گا۔ بتدریج ہرناقص نظریہ کے تضادات اپنی اپنی مدت پوری کرکے تحلیل ہوجائیں گے۔ آخرمیں وہ نظریہ سب پر غالب آجائے گا، جوجمالیات اورجامعیت کا مکمل مظہر ہوگا۔ رفیع الدین کی جانب سے تصور حیات کا یہ تعارف انسانی تاریخ اور فطرت سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ مغربی فلسفہ و نظریہ کی تاریخ اس پرگواہ ہے۔ ڈاکٹرصاحب کہتے ہیں کہ انبیاء انسان کا بہترین نمونہ ہیں۔ یہ بہترین انسان زندگی کا بہترین تصورپیش کرتے ہیں۔ بہترین انسانوں کا یہ ارتقاء اپنے کمال پرپہنچ چکا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا \’نظریہ مستقبل\’ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی جانب رہنمائی کررہا ہے۔ کمیونزم، سوشل ڈیموکریسی، لبرل ازم، اورنیولبرل ازم سب ایک ہی محرک اور ایک ہی منزل کے درمیان حرکت پذیر ہیں، مال اورمادی آسائشیں۔ یقینا یہ محرک اورمنزل انسان کے مکمل اطمینان کا سبب نہیں ہوسکتیں۔ دنیا کے حالات گواہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments