پچاس سالہ بزرگ کے لئے ضرورتِ رشتہ کا اشتہار


 مجھے اخبار اور بریکنگ نیوز جیسی فضول چیز سے حد درجے چڑ رہی ہے۔ کسی سوشل میڈیا گروپ میں دو منٹ بیٹھ کر یہ عقدہ ضرور کھل جاتا ہے کہ باڈر پر جنگ کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ وہیں سے کان لپیٹ کر نکل جانا میری پہلی ”درست حرکت“ ہوتی ہے۔ میرے خیال میں جنگ بارود میزائل یا جو بھی اس سے بڑی توپ چیز چلنی یا شروع ہونی ہو گی، تو مجھے میرے اپنے گھر کا دروازہ کھولنے کے بعد اگر نظر آئی تو میں صادقِ دل سے ایمان لے آؤں گی کہ ہاں بھئی باڈر پر کچھ تو چلا تھا جو گھر تک پہنچا ہے۔

ورنہ یہ ٹینک جہاں چلنا ہے چلے میری بلا سے۔ ہاں تو میں لفظ اخبار سے بات کی گرہ کو پھر سے جوڑتی ہوں۔ ضرورت ِ رشتہ والا صفحہ اکثر میں تب پڑھ لیتی۔ جب دنیا جہاں کے لطیفوں سے میرا دل اچاٹ ہو چکا ہو۔ سو وہی حالت ہے کہ ہنسنے والا یا ہنسا دینے والا مواد چاہیے۔ اور اخبار کا یہ صفحہ زندہ باد۔ ہاں تو جی لکھا تھا 50 سال عمر بیوی کو گھویلو ناچاقی کی وجہ سے پچھلے برس طلاق دے دی۔ پانچ بچوں کو بیوی کے پلو سے باندھ کر میکے پھینک دیا گیا۔اب بزرگ اکیلے ہیں تنہائی کا ساتھی چاہیے۔ جو خوش شکل اور خوش ادا یعنی کے ڈھکے چھپے لفظوں میں نو جوان بھی ہو، نیچے ایک پیراگراف میں بوڑھے تنہائی کے مارے انسان نے اپنی جائیدادوں کی کھول کر تفصیل بیان کی تھی۔ کبھی کبھی مجھے عورت ذات کو لے کر بڑا غصہ آتا ہے۔ اور کبھی کبھار حد درجہ رحم۔ ایسے انسان سے طلاق لے لی، سستا چھوٹ گیا۔ یقین جانیے، ایسی عورت ہی جس کی روح تک سے کھلواڑ کیا گیا ہو سڑک کے چوراہوں پر مردوں کے بیچ کھڑی ہو کر سیگریٹ پھونکنا چاہتی ہے۔

ایسی عورت ہی ننگی اور گندی گالیاں دیتی ہے۔ یہی وہ عورت ہے جو مرد کو اپنے بستر پر موجود دیکھ کر صرف یہی سوچ سکتی کہ اس کا وجود صرف بستر گرم کرنے کے لئے ہی وجود میں لایا گیا تھا۔ غصہ، انتہا پسندی انتقام اور یہاں تک کہ اپنے آپ کو تھپڑ تک مار دینے کی انتہاؤں تک پہنچا دینے والی ذات ایسے ہی مردوں کی ہے جو عورت کو کھلونا سمجھ کر کھیل لینے کے بعد کمرے کے ایک کونے میں پھینک دیتے۔ صنف نازک کے ہاتھوں سے نومولود بچہ لے کر ایک رات سنبھالیے۔

ان جسے مردوں کو نانی کی بھی نانی یاد نہ آئے تو کہنا۔ صنف نازک لکھنے والا بھی ایک مرد ہے عورت کو سڑکوں پر کھڑے ہو کر اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے پر اکسانے والا بھی ایک مرد۔ عورت کو ننگی گالی دینے والا بھی ایک مرد ہر گالی عورت کو لے کر ایجاد کی گئی مجھے مردوں کے اس خاص حلقے سے بس یہی گزارش کرنی ہے کہ ایک گالی تو بناؤ ایسی جس میں مرد بازارو ہو۔ کسی ننگے اور فحاش بینر کے پیچھے کی کہانی کوئی نہیں پوچھتا۔

ہاں اس بینر کو ایک ہاتھ سے پکڑے وہ صنفِ نازک والا ہاتھ وہ گردن پر لگا میک اپ زدہ چہرہ، جسم کے ساتھ چپکی جینز اور کھلے گریبان والی تنگ شرٹ سب کو نظر آتی ہے۔ چار دیواری میں سن لیتے بھئی اس عورت کو نہ اکساتے کہ سڑک پر کھڑی ہونے چل پڑے۔ تم پیار کے گلدستے بانٹ رہے ہو اس کے بچوں کو اس کے تھکے ماندے کندھوں سے لے کر اپنے سینے پر رکھ کر تھپک رہے ہو۔ رات بھر جاگی اس صنفِ نازک کو صبح اپنے ہاتھوں سے ناشتہ گرم کر کے دے رہے ہو یا بستر پر اگر وہ تمہارے ساتھ اپنی تھکاوٹ کو لے کر لیٹ ہی گئی ہے۔ تو کیوں نہیں اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر کر سلا دیتے کیوں اپنی طلب ہی تمھیں قرار نہیں لینے دے رہی۔

حسنِ اخلاق والا برتاؤ رکھو ایک عورت کے ساتھ، پھر کوئی فحش اور ننگے جملوں والا بینر اس کے نازک ہاتھوں میں تھما کر اسے کہو۔ جاؤ جا کر سڑک کنارے کھڑی ہو جاؤ۔ اور اپنے لئے آزادی مانگو قسم لے لو بھئی۔ وہ عورت یہی بینر اپنے ہاتھوں سے توڑ دے گی۔ اسے گھر چاہیے گھر کا سکون چاہیے جو تم نے اگر اسے دان کر دیا ہے۔ تو بھلے جس گلی چوراہے پر کھڑا کر دو اس کے ہاتھوں میں مرد کی محبت پر لکھے ترانوں والے بینرز ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ وہ عورت باتھ روم میں چھپ کر کبھی سیگریٹ پھونکنے کی چاہ نہیں کرے گی۔ کبھی تمھیں صرف ہوس کا پجاری نہیں سمجھے گی۔ تمھیں دغا دینا تو بہت، بہت دور کی بات ہے ایسے خیال کو بھی کفر سمجھے گی۔ بس آزمائش شرطِ اول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).