اللہ تو مجھے سب کچھ دے بیٹھا تھا


تقریباً چار سال ہوئے الیکشن مہم زوروں پر تھی۔ ہم خیر پور جا رہے تھے۔

صبح کا وقت تھا۔ ایک سرائے پر بس ڈرائیور نے سستانے کے لیے بس روکی۔ مسافر ناشتہ پانی کے لیے بسوں سے اترے۔ ایک چھوٹے سے ہوٹل کے سامنے کچھ لوگ چارپائی پر بیٹھے تھے، کئی چارپائیاں خالی پڑی تھیں۔ کچھ لوگ بیت الخلا کی طرف روانہ ہوئے۔ بچے بھی بیت الخلا کی طرف لپکے۔ ہم ایک خالی چار پائی پر بیٹھ گئے۔

ٹی وی چل رہا تھا۔

مارننگ شو کی اینکر کہہ رہی تھی، ہم آپ کے لیے یہ سب کرتے ہیں، صبح پانچ بجے اٹھ کر اسٹوڈیو آنا، بھاری میک، تیز لائٹ، ہماری اسکن خراب ہو جاتی ہے، ہمارے بال روز شیمپو، ڈائی اور ڈرائی کرنے سے خراب ہو جاتے ہیں، ہماری ازدواجی تعلقات بھی ٹھیک نہیں رہتے۔ ہمارے بچے نظر انداز ہوتے ہیں۔

ایک پکے رنگ کا لڑکا لوٹا ہاتھ میں لیے دوسرے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں پھیلا کر انہیں دائیں بائیں لہراتے ہوئے کچی زمین پر چھڑکاؤ کر رہا تھا۔ اس کی انگلیاں ساکت ہو گئیں وہ منہ کھولے اسے دیکھتا رہا۔

لیکن ہم یہ سب کس کے لیے کرتے ہیں۔ آپ کے لیے۔ آپ کو معلوم ہے نہ ہم میں سے کتنی ہیں جو آپ کے لیے اپنے شوہر چھوڑ دیتی ہیں ہمارا گھر تباہ ہو جا تا ہے، لیکن ہم آپ سے دور نہیں رہ سکتے۔

یار ہٹا اس کو سالی ہمارے لیے کرتی ہے۔ لڑکے نے پانچوں انگلیاں اسکرین کو دکھاتے ہوئے کہا۔ اور ہماری چار پائی سے ٹیک لگا کر سستانے کے لیے زمین پر بیٹھ گیا

ہوٹل کے بیرے نے کپڑے سے منہ پوچھتے چینل بدل دیا۔
یہ کوئی نیوز چینل تھا۔

کوئی وزیر کہہ رہا تھا: عمران خان کی پہلی شادی اسی لیے ٹوٹی کہ وہ جمائما کو وقت نہیں دے پاتے تھے، جمائما پاکستان میں رہنا نہیں چاہتی تھی لیکن عمران خان نے پاکستان کی محبت میں اسے چھوڑ دیا۔

مائک عامر لیاقت نے سنبھالا۔

میں سیاست میں کیوں آیا، آپ جانتے ہیں مجھے تو کوئی ضرورت نہیں تھی۔ میں عالم آن لائن کر رہا تھا، شہرت، دولت عزت پیسہ سب کچھ تھا میرے پاس، مگر میں عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرنے سیاست میں آیا، کیوں کہ یہ ہی ایک لیڈر ہے جو ملک کو بچائے گا۔

چارپائی کے بالکل سامنے ایک لینڈ کروزر رکی، ڈرائیور نے اتر کر گاڑی کا دروازہ کھولا کلف لگے سفید کپڑوں میں ملبوس ایک اکڑا ہوا شخص اترا، اور تیز تیز قدموں سے بیت الخلا کی طرف بڑھا۔

میں پھر اسکرین کی طرف متوجہ ہو گئی۔

عامر لیاقت بول رہا تھا۔ اس ملک کو ایک صاف ستھری سچی ملک کے جذبے سے سر شار سچی قیادت کی ضرورت ہے، اور وہ۔ ۔ ۔

ایک طرف سے ہذیانی انداز میں آواز آئی : دادل!
جی سائیں، وہ لڑکا جو ہماری چارپائی پر ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھا تھا تیزی سے کھڑا ہو گیا۔
تو نے صاحب کا لیٹرین صاف کر دیا تھا نا۔
جی جی سائیں۔

رحیم بخش تو جا کر صاحب کا کمرہ صاف کر، مہربان علی تو صاحب کے لیے فرج سے بکرے کا گوشت گرم کر لے کیا پتہ صاحب کھانا مانگیں۔

اچانک اکڑے ہوئے شخص کی دھاڑ گونجی۔
چاچڑ! یہ ہوٹل تجھے میں نے کیوں بنوا کر دیا۔ کیا اس لیے۔
سائیں آپ کی خدمت کے لیے۔ چاچڑ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔
پھر یہ میرے لیٹرین میں کون گھسا۔
سائیں! میں گیا تھا۔ چاچڑ نے ہاتھ جوڑے۔
تیری اتنی اوقات!
سائیں غلطی ہو گئی۔ ایک دم اکڑے ہوئے شخص کو یاد آیا کہ وہ تو الیکشن میں وزارت کا امیدوار ہے۔
کوئی بات نہیں چاچڑ میں تو مذاق کر رہا تھا۔

یہ ہوٹل میں نے عوام کی خدمت کے لیے بنوایا ہے۔ ورنہ کھانا کھانے اور نکالنے کے لیے اللہ کی زمین بہت بڑی ہے۔

اکڑے ہوئے شخص کا خوفناک قہقہہ برآمد ہوا، میں تو عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔

سائیں مہربانی، مہربانی
اکڑا ہوا شخص اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔
چاچڑ، دادل، مہربان علی اور رحیم بخش گاڑی پر اس وقت تک نظریں جمائے رہے جب تک وہ غائب نہیں ہو گئی۔
پریس کانفرنس جاری تھی۔
مائک اب وزیر اعظم کے امید وار نے سنبھالا ہوا تھا۔

میں آپ کو بتا تا ہوں میں سیاست میں کیوں آیا، مجھے یہ تہتر سالہ گند صاف کرنا ہے، مجھے ان چوروں ڈاکوؤں اور لٹیروں کو پکڑنا ہے۔ مجھے اوپر سے گند صاف کرنا ہے اس نظام کو ٹھیک کرنا ہے۔ میں آپ لوگوں کی خدمت کے لیے سیاست میں آیا۔ مجھے کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بیس سال سے میں جد و جہد کر رہا ہوں کس کے لیے، مجھے تو کوئی شوق نہیں ہے۔ میری تو ساری جد و جہد قربانیاں آپ کے لیے ہیں۔

میرا کیا مفاد ہے آپ بتائیں۔ میں نے تو گند صاف کرنا ہے، اللہ تو مجھے پہلے ہی سب کچھ دے بیٹھا ہے۔
دادل: میں تو اسے ووٹ دوں گا
چاچڑ کی آواز آئی۔

ماما۔ یہ تیرے والے گند کی بات نہیں کر رہا ہے۔ بھین۔ ۔ ۔آج تو نے میری بینڈ بجا دی تھی۔ میں نے تجھے کہا تھا کہ جا کر صاف کر دے کیا پتہ جانی صاحب کبھی بھی آسکتے ہیں۔ شکر کر الیکشن ہیں ورنہ اس نے تو میری ماں بہن ایک کر دینی تھی۔ سور کے بچے ان سب کا تو کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ تو بتا، بتا تو مجھے تو اس دنیا میں ہی کیوں آیا۔

دادل نے ایک مرتبہ پھر ٹی وی کی طرف نظر ڈالی، لوٹا اٹھایا چھڑکاؤ کرنے کے لیے اپنی پانچوں انگلیاں سیدھی کیں۔

چاچڑ پھر دھاڑا: پہلے لیٹرین صاف کر، پھر چھڑکاؤ کرنا۔
دادل نے پانچوں انگلیاں اپنے منہ پر چپکا دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments