نقل سے توبہ


فخر ایک شرارتی لڑکا تھا۔ وہ پڑھائی میں بالکل دل چسپی نہ لیتا۔ دن بھر نت نئی شرارتوں کے منصوبے بنایا کرتا۔ کبھی کسی کے دروازے کی گھنٹی بجا کربھاگ جانا، کبھی کسی جانور کو اذیتیں دینا، کسی خوانچہ فروش کی نقل کرنا، کسی بھکاری کو زچ کرنا۔ حتی کہ اسکول میں بھی اس کا ذہن شرارتوں ہی کی طرف مائل رہتا۔ وہ کبھی ایک طالب علم کی چیزیں چھپا کر کسی دوسرے کے بستے میں ڈال دیتا، کلاس میں ہوٹنگ کرتا، جماعت کے نظم و ضبط کو خراب کرتا، اسکول کے چوکیدار کو تنگ کرتا، الغرض نت نئی سازشیں، نت نئی چالیں۔

اگراس کے اساتذہ اور والدین اس کی توجہ تعلیم کی طرف دلاتے تو انہیں سہانے خواب دکھا دیتا۔ اپنی فرضی محنت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا۔ وہ امتحانات کے سلسلے میں بہت پر امید بلکہ پراعتماد تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ بہت ذہین ہے اوراپنی ذہانت کے استعمال سے وہ نقل کے لئے ایسے نئے نئے حربے آزمائے گا جن کا توڑ کسی کے پاس نہ ہو گا۔ اس نقل سے نہ صرف وہ پاس ہو جائے گا بلکہ اعلیٰ نمبر حاصل کر لے گا۔

سالانہ امتحان کے آغازسے قبل جب اس کے ایک دوست نے امتحان کی تیاری کے متعلق استفسار کیا تو اس نے استہزائیہ انداز سے کہا کہ مکمل تیاری ہے۔ نیا یونیفارم، نئے جوتے، نیا قلم الغرض تمام اشیا بالکل نئی خرید چکا ہوں۔ اب صرف امتحان کا انتظار ہے۔

جب امتحان کا باقاعدہ آغاز ہوا تو پہلے پرچے کے دوران مکمل تیاری کے ساتھ گیا لیکن پرچا اس کی توقعات کے برعکس نکلا یعنی اس کے لائے ہوئے کارتوس ناکارہ ثابت ہوئے۔ جب پرچا توقع کے برعکس دیکھا تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اس نے ادھر ادھر جھانکنا شروع کر دیا۔ کبھی کسی سے سوال کرے کبھی کسی سے کچھ مانگے، التجا کرے۔ اس کے استاذ نے جب اسے اس طرح التجا کرتے اوردوسروں سے مانگتے دیکھا تو کہا تم اگر سال بھر محنت کرتے تو آج دوسرو ں سے بھیک نہ مانگ رہے ہوتے بلکہ اپنی محنت کے بل بوتے پر اب امتحان دے رہے ہوتے۔ یوں فخر کو سب کے سامنے خفگی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس عمل سے توبہ کرنے کے بجائے وہ اپنے ذہن میں کوئی اور ہی منصوبہ بنا رہا تھا، کہ کل میں مزید تیاری سے آؤں گا اور مجھے کسی سے کچھ مانگنا نہ پڑے گا۔

اگلے دن اس نے ساری رات بیٹھ کر بہترین انداز سے نقل کی تیاری کی۔ اس نے نوٹس بنانے کے علاوہ اپنے رومال، جراب، آستینوں، دامن الغرض ہر دستیاب جگہ پر شارٹ ہینڈ کی طرز پر اپنی علامات بنائیں اوربہت ہی باریک بینی سے کشیدہ کاری کی۔ اس نے یہ تمام کام اس قدر مہارت سے کیا کہ اس کے علاوہ کوئی اور اس تحریر کو اول تو پڑھ ہی نہ سکتا تھا اور سمجھنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بہرحال اس تمام تر جدوجہد کے بعد صبح جب وہ میدان کارزار میں داخل ہوا تو بہت مطمئن اور مسرور تھا۔

امتحان گاہ پہنچ کر اس نے سب سے پہلے اپنے چشمے کی طرف ہاتھ بڑھایا کیونکہ اس کی قریب کی نظر کمزور تھی۔ لیکن یہ کیا۔ جیب میں ہاتھ ڈالتے ہی اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے کہ وہ اپنی نظرکا چشمہ لانا تو بھول ہی گیا تھا۔ اب وہاں بیٹھ کر وہ صرف اپنی بے بسی پر آنسو بہا سکتا تھا! اچانک اسے کین نسبت (Kenn Nesbitt) کی نظم This Morning is Our History Test یاد آئی جس کے آخری بند میں اسی کیفیت کو بیان کیا گیا تھا جس سے آج وہ گزر رہا تھا۔

I came to school so well prepared۔

I wasn ’t nervous، wasn‘ t scared۔

But here it is، the history test۔

I look inside my coat and vest

to get the dates and famous quotes

and find I cannot read my notes۔

So much for Shakespeare، Greece and Rome۔

I left my glasses back at home۔

لیکن وہ فخر ہی کیا جو نامساعد حالات سے گھبرا کر پس پائی اختیار کر لے۔ اور ویسے بھی امتحان کے دنوں میں تیاری نہ ہونے کے سبب اس کے پاس اور کوئی حل بھی نہ تھا۔ اگلے دن وہ فخریہ انداز سے ہر طرح کی بوٹی اور کارتوسوں سے لیس کمرائے امتحان میں داخل ہوا۔ ہاں اور اپنا چشمہ لانا وہ ہرگز نہ بھولا۔ پرچا سامنے آتے ہی اس کا ذہن بڑی تیزی سے کام کرنے لگا کہ کون سا سوال کہاں رکھا ہوا ہے۔ ابھی وہ بمشکل سوالوں کے جواب ہی ڈھونڈ پایا تھا کہ اچانک معلوم ہوا کہ آج اچانک بورڈ سے انسپیکشن کی ٹیم آ گئی ہے۔

اب اس نے سوچا کیا کیا جائے۔ انتظار کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ٹیم نے اس کے کمرے میں بہت وقت لگایا۔ نگران بھی بہت مستعد اور چوکس تھے۔ اس کا قیمتی وقت برف کے مانند بڑی تیزی سے اس کے ہاتھوں سے پھسلتا رہا۔ جب اس نے وقت ہاتھ سے نکلتا دیکھا تو اس نے تمام تر خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بڑی رازداری اور خاموشی سے نقل کرنا شروع کی۔ یہ کیا ابھی وہ پہلا سوال ہی کر رہا تھا کہ نگران نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔

وہیں پر انہوں نے ہیڈ ماسٹرصاحب کو بلا لیا۔ وہ نفسیات دان تھے اور قابل، لائق اور محنتی طلبا سے بہت محبت کرنے والے تھے۔ انہوں نے کچھ عجیب سے لہجے میں کہا کہ فخر تم چور کب سے بن گئے؟ اس نے کہا میں نے تو کبھی چوری نہیں کی۔ انہوں نے کہا یہ چوری نہیں تو اور کیا ہے۔

نقل کرنا اوراس میں معاونت کرنا ایک گناہ عظیم ہے۔ یہ ایسی لعنت ہے جو کئی برائیوں کا مجموعہ ہے۔ ظلم اور نا انصافی ہے۔ حقوق العباد کی حق تلفی ہے۔ نقل کی مدد سے اگر کوئی ڈگری حاصل بھی کر لے تاہم تعلیم و تربیت کی اصل روح یعنی وہ خود اعتمادی، عزت نفس، اطمینان قلب و سکون نفس سے یکسر محروم رہے گا۔ الغرض نقل صرف معاشرے کو علمی اعتبار ہی سے نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ ایک ایسے ناسور کے مانند ہے جس سے مواد رِس رِس کر پورے معاشرے کو تہذیبی، معاشرتی، اخلاقی، مذہبی، شخصی اوراجتماعی طور پر کرپٹ کر دیتی ہے اور ملک و قوم کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

پھر انہوں نے مزید فرمایا کہ اتنا بڑا گناہ اور چوری کرنے کے باوجود تم جھوٹ بھی بولتے ہو۔ اور جھوٹ بھی ایسا جو پوری زندگی پر محیط ہو؛ کیونکہ جب تم کہتے ہو کہ میں نے اتنے نمبر حاصل کیے ہیں تو یہ صریح جھوٹ ہے کیوں کہ تم ان نمبروں کے اہل توقطعاً نہ تھے۔ نیز تم اس ملک و قوم کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان کی بنیاد رکھ رہے ہو۔

فخرنے پوچھا وہ کیسے۔ ہیڈ ماسٹرصاحب نے فریا، ذرا غور کرو اگر یہ شخص ناقص علم، ادھوری معلومات اور بے ترتیب انداز سے واقعی کسی سخت مشکل پیچیدہ معاملے میں الجھ جاتا ہے تو یہ کس قدر نقصان دہ ہو گا۔ دیکھو اگر کوئی شخص نقل کر کے ڈاکٹر بن بھی جائے تو وہ اس وقت مریضوں کی جانوں سے کھیل رہا ہو گا، جس کے لئے یہ محاورہ تم نے ضرور سنا ہو گا نیم حکیم خطرہ جان، نیز جان لو اس قبیل کے تمام نا اہل افراد جس بھی میدان کارزار میں حصہ لیں گے وہاں فساد اور بگاڑ کے سوا کچھ نہ کر سکیں گے۔ نقل کر کے امتحان پاس کرنے والے کا معاملہ یہ ہے کہ دنیا سمجھتی ہے یہ شخص اس سند کا حامل ہے اور ضرور اس شخص میں ان معاملات کو حل کرنے کی قابلیت ہو گی۔ اس اعتماد کے ساتھ جب اس کے سپرد معاملات کیے جاتے ہیں تو یہ تعلیم یافتہ شخص ایک ایسے دانا (نادان دوست) کی طرح معاملات حل کرتا ہے جیسا اس تمثیل میں ہے:

ایک دفعہ ایک شخص بلند و بالا درخت پر چڑھ گیا اور بلندی دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے اوراس کے لئے نیچے اترنا ناممکن ہو گیا اس وقت ایک نام نہاد دانشور کو بلایا گیا جس نے اپنے تئیں انتہائی فراست کے ساتھ حکم دیا کہ ایک رسی لائی جائے اور اس شخص سے کہا تم اس رسی کو اپنی کمر سے باندھ لو۔ جب اس نے باندھ لی تو دو آدمیوں کی مدد سے بلندی پر موجود شخص کو تمام تر قوت کے ساتھ کھینچا۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا اس کی لاش کے پاس بیٹھ کر یہ حضرت کہتے ہیں کہ میں نے بارہا کنوئیں سے آدمی نکالے ہیں آج تک کوئی نہیں مرا اس شخص کو کیا ہو گیا شاید اس کی قسمت ہی خراب تھی۔ تو بہرحال بیٹا اس قبیل کے آدمیوں سے اس قسم کے فیصلوں ہی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں جعلی ڈگری ہولڈروں سے بچائیں اورہمارے ملک اورقوم کے امور اہل اور باکردار افراد کے سپرد کرے۔

اس تمثیل کے بعد وہ دوبارہ فخر سے مخاطب ہوئے، اور سحرانگیز الفاظ میں کہا کہ ”تم تو جھوٹے بھی ہو، بھکاری بھی اور چور بھی“۔ یہ تمام الفاظ فخر کے دل پر ہتھوڑے برسا رہے تھے۔ پوری کلاس کے سامنے اس طرح کی شرمندگی، رسوائی، بے وقعتی کا اس نے کبھی خواب میں بھی تصور نہ کیا تھا! لیکن اس کا ضمیر بیدار ہو چکا تھا اور اسے کچوکے لگا رہا تھا، چیخ چیخ کر پکار رہا تھا کہ واقعی استاد محترم صحیح فرما رہے ہیں۔ اس (نقل) کے لیے تمہیں دائمی جھوٹ کا بھی سہارا لینا پڑتا ہے۔ یعنی ایک برائی کئی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ اگر تھوڑی سی محنت کر لیتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

استاد محترم کے ان بصیرت افروز واقعات اور حکیمانہ درس نے اس کی دل کی دنیا بدل دی۔ اب یہ سب باتیں سن کر وہ رونے لگا اور اس نے عہد کیا کہ آیندہ کبھی ایسا نہ کرے گا بلکہ خوب محنت کرے گا۔

اور واقعی اگلے سال اس نے ابتدا ہی سے انتہائی منظم انداز سے تعلیم کو وقت دیا۔ تمام شرارتوں سے توبہ کی۔ اور پھر جب سالانہ نتیجہ آیا تو واقعی وہ نہ صرف اعلیٰ نمبروں سے پاس تھا بلکہ پورے اسکول نے اس نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ اب تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔

ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا بیٹا اب آپ کو سچی خوشی حاصل ہوئی ہے۔ اس مقام کو آپ نے اپنی محنت سے حاصل کیا ہے اب آپ فخر سے کہہ سکتے ہو کہ میں نے امتحان میں پہلی پوزیشن لی ہو اور آپ کا ضمیر آپ کو کچوکے نہیں لگائے گا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔

فخر نے دل کی گہرائی سے ہیڈ ماسٹرصاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اسے ڈانٹنے یا مارنے کے بجائے اس کی اصلاح کی اورآج کی اس کامیابی کا ذریعہ بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).