مالک اشتر: کچھ میں اور تُو کی باتیں


پیارے اشتر!
سلام قبول کرو۔
ہم نوالہ و ہم پیالہ میرے یار، دوست اور بھائی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ تمہیں کیسے مخاطب کروں، چند ماہ قبل بھی تمہارا ایک بہت جذباتی خط موصول ہوا تھا، میں نے بہت فرصت سے اس کا جواب دینے کا سوچا تھا، آدھا لکھ بھی رکھا تھا مگر گردش ایام اور روزی روٹی کے چکر میں ایسا بھولا کہ یاد ہی نہ رہا، آج جب یہ خط ملا ہے تو سب چھوڑ چھاڑ کر پہلے اس کا جواب لکھنے بیٹھ گیا ہوں، گو کہ میں نے اپنی کچھ مجبوریوں اور پریشانیوں کی وجہ سے خود سے ہی نہ لکھنے کا عہد کیا ہوا ہے، حالانکہ تم جانتے ہو میرا یہ عہد میرے ہی وجود کو گھائل کرنے کا سبب بنے گا، دسیوں سال سے جو بلا ناغہ کچھ نہ کچھ لکھتا رہا ہو اس کا اچانک  قلم رکھ دینا یا اس سے اس کے قلم کا چھین لیا جانا اس کے لئے کس قدر گراں باری کا سبب ہو گا۔
تمہارا خط کیا ملا ہے یادوں کا ایک طوفان ساتھ لایا ہے۔ یادوں، باتوں اور عام سی کہانیوں کو بھی خاص بنا دینے کا ہنر میں نے تم سے ہی سیکھا ہے۔ میں ہمیشہ جملہ سازی اور اس کے تراش خراش پر توجہ دیا کرتا تھا یہ تمہاری ہی رہنمائی کا نتیجہ تھا کہ میں بھی تمہاری طرح برجستہ لکھنے کی مشق کرنے لگا، مگر پھر بھی تمہاری اڑان اور پرواز کو چھو نہیں پایا، تم جس قدر تیزی کے ساتھ سوچتے اور لکھتے ہو میرے بس میں یہ نہیں ہے۔ میں نے بس ایک جملہ لکھا تھا اور تم نے ایک مکمل خط لکھ دیا۔
یار تم نے بھولی بسری یادوں کو اس طرح کہانی کا روپ دیا ہے کہ لائبریری میں بیٹھا میں بہت دیر تک تمہارے لفظوں کے سحر میں گم رہا، کیا کیا نہ یاد آیا۔ وہ منظر جو تم نے میرزا ادیب کی کتاب والا لکھا ہے میری نظروں کے سامنے ہے، مجھے پہلے بھی تمہارے حافظے پر ناز تھا اور اب تو خیر میں اس پر ایمان لا چکا ہوں۔ مجھے وہ واقعہ بھی یاد ہے تمہیں شاید یاد نہ ہو گا، غالبا میر امن دہلوی کی باغ و بہار تھی میرے ہاتھوں میں تھی، میں رکشے سے تمہارے ساتھ تمہارے گھر جا رہا تھا، تم نے مجھ سے کہا تھا مجھے اس کتاب سے کچھ اقتباسات  سناو، اور میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی تھی جب تم نے لفظ بلفظ اپنے گھر کے دہلیز کو عبور کرتے ہوئے میر امن کے الفاظ مجھے زبانی سنا دیے تھے۔
تمہیں یاد ہے جامعہ میں دلی کی صحافت میں ہم کیسے کیسے شرارت کیا کرتے تھے۔ تمہارے خط سے مجھے وہ واقعہ یاد آیا جب ہم باغ نانک میں کرکیٹ کھیل رہے تھے اور پراکٹر نے ہمیں دھر دبوچا تھا دوسرے دن ہم نے کیسے پراکٹر کے خلاف لمبی چوڑی کہانی بنا کر اخبار میں چھاپ دیا تھا۔ اور جامعہ کے اقلیتی کردار کے لئے تمہارا کیسا جذباتی رویہ تھا، ہم کیسے اس ایشو کو زندہ رکھنے کے لئے روزانہ نئی نئی کہانیاں گڑھا اور لکھا کرتے تھے۔ دنیا جہان کے مسائل کو لے کر ہم کیسے گھنٹوں بحث مباحثہ کیا کرتے تھے۔ مسلم اور اقلیتی مسائل پر ہم کیسے اور کتنے جتن سے اسٹوری لکھا کرتے تھے۔ اب اردو اخبارات میں ایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ دہلی کی اردو صحافت کو دیکھ کر تو اب گھن سی آتی ہے ساری ایجنسیوں کی خبروں کو من و عن بغیر اِڈٹنگ اور انتخاب کے اسی ترتیب سے دکھیل دیتے ہیں جس ترتیب سے ایجنسیاں انھیں خبریں فراہم کرتی ہے۔
کل ہی شاہد الاسلام بھائی سے اس پر طویل گفتگو ہوئی اس رویے پر وہ بھی بہت نالاں تھے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اردو صحافت کا قلع قمع ہوتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ تم ٹھیک ہی کہا کرتے تھے، میں بلا وجہ تمہاری باتوں کو لے کر جذباتی ہو جایا کرتا تھا۔ مجھے ایک دوست کے ذریعے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تم نے ہندی صحافت کی جانب اپنے قلم کو موڑ دیا، یہ بہت اچھا فیصلہ ہے، ایسے بھی اردو صحافت جس قوم سے وابستہ ہے اسے سچ سننے کی عادت نہیں ہے۔ تم نے ہندی صحافت میں اپنے قلم کو موڑ کر بہت اچھا کیا ہے اس سے تمہاری شناخت بھی بنے گی اور ہماری جو فکر قوم اور ملک کو لے کر رہی ہے اس سے تم براہ راست مخاطب ہو سکو گے۔
میں بھی ذریعہ زبان بدلنے کا ارادہ رکھتا ہوں، ابھی کچھ کہوں گا نہیں کہ کر نہ سکا تو اپنی ہی سبکی ہوگی لیکن ہاں میں بہت زور و شور سے کوشش میں لگا ہوں، دعا کرنا یار کہ جو بھی ہو بہتر ہو۔
اور سناو! دور درشن میں کام کرتے ہوئے جہاں پاوں باندھ نہ بھی دیے جائیں تو کیفیت تقریبا ویسی ہی رہتی ہے، تم جیسے آزاد پنچھی کو کہاں مزا آتا ہو گا؟ گزشتہ دنوں نو بھارت ٹائمز میں تمہارا مضمون کیا مسلمانوں میں صرف جرنیل ہی پیدا ہوئے؟ پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا، مضمون بہت عمدہ تھا کاش ہماری قوم اس جانب غور کرتی، میرے پیارے دوست ایسے ہی قوم کو جگانے کا کام کرتے رہو، میں جانتا ہوں، اس لکھنے لکھانے کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں ہے، لیکن تم خود سوچو اگر تم جیسے اہل علم اس جانب توجہ نہ دیں گے تو پھر وہی بے ہنر زاغ و زغن کو لوگ دانشوری کا تمغا دیں گے جنھوں نے صدیوں سے ہندی مسلمانوں کی ایسی تیسی کر رکھی ہے۔
تمہیں بٹلہ ہاوس انکاونٹر والا واقعہ یاد ہے ہم کیسے اس دن بھاگ بھاگ کے رپورٹیں کور کر رہے تھے، شاید ہندوستان میں ہمارا واحد اخبار تھا جس نے اول دن ہی اپنی رپورٹ میں اس انکاونٹر کو فیک کہا تھا اور رپورٹ ہم دونوں نے مل کر بنائی تھی۔
جامعہ ریڈیو میں ایف ایم پر دو گھنٹے کا ہمارا جو ادبی پروگرام ہوتا تھا کتنا ہٹ جاتا تھا، فون ان والے پرگرام میں کتنا مزا آتا تھا، کھیل کھیل میں ہم لوگ کیسے دقیق ادبی اور فلسفیانہ موضوعات پر گھنٹوں گفتگو کیا کرتے تھے۔ کمال یہ کہ وہ پروگرام ادبی ہوتا تھا، کبھی ہم اپنی گفتگو میں اس قدر محو ہو جاتے تھے کہ یہ بھی بھول جاتے تھے یہ کمیونٹی ریڈیو ہے اور ہم عام لوگوں کے لئے یہ باتیں کر رہے ہیں، پھر ہم کتنا ہنستے تھے، جب ان سب سے فارغ ہو کر چائے پلانے کی باری آتی تو کبھی تمہارے جیب خالی ہوتے تو کبھی ہمارے، مگر پھر بھی کرن چائے دے دیا کرتا تھا، کرن اب بھی ہے، میں ماس کام کی کیٹین جاتا رہتا ہوں، کئی مرتبہ وہ تمہیں یاد کرتا ہے، کہتا ہے تمہارے دوست سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا اب وہ نہیں آتا۔ میں اس کو کیسے بتاوں کہ میرا دوست تو اب مجھ سے بھی نہیں ملتا۔
تمہیں یاد ہے جامعہ نگر کے وہ سائبر کیفے جہاں ہم بیٹھا کرتے ہر منٹ امتحان جیسا ہوتا، جس میں رپورٹ فائل بھی کرنی ہوتی اور لکھنی بھی، اس وقت نہ تو اتنا اچھا موبائل تھا اور نہ ہی لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر پھر بھی پانچ دس اسٹوری ہم لوگ فائل کر دیا کرتے تھے، اب بہت آسانیاں ہو گئی ہیں پھر بھی اتنا نہیں لکھا جاتا۔ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ پہلے ہم جو کچھ بھی لکھا کرتے تھے سوچتے نہیں تھے، بچپنے کے جذبات جو آیا لکھ مارا، لیکن ہم لوگوں نے اس سے سیکھا بہت۔
جانتے ہو تمہارے خط سے کیا کیا نہ باتیں یاد آئیں، تمہیں اس مولوی کا قصہ یاد ہے جو ہر محرم میں شیعوں کے خلاف مضمون لکھ کر مذہبی تشدد کو بڑھاوا دیتا تھا، ہر سال کا اس کا معمول تھا، افسوس کی بات یہ کہ اردو اخبارات میں کیسے ایسے مضامین کو جگہ مل جاتی تھی، ہم نے کیسے فون پر اسے سمجھانے کی بھی کوشش کی تھی لیکن اس نے مان کے نہ دیا تو ہم نے اس کو کس طرح سبق سکھایا تھا؟ آج تک پھر اس نے اختلافی موضوعات پر لکھنے کی جسارت نہیں کی۔
دیکھو یاد آیا ایک اور مولوی کا قصہ غالب اکیڈمی میں تقریر کے دوران کس طرح ایک بریلوی مولوی نے دارالعلوم کو دہشت گردی کا اڈا کہا تھا اور جب ہم نے اس سے سخت و سست سوال کرنے شروع کر دیے تھے وہ بلبلا اٹھا تھا اپنی بات پر اڑا رہا تھا، نظام الدین میں ہی واپسی پر ہم نے دیر گئے رات رپورٹ فائل کی تھی اور اس پوری کہانی کو نمک مرچ لگا کر کیسے رقم کیا تھا  اور جب دوسرے دن رپورٹ چھپی تھی تو مولوی کو بھاگتے لنگوٹ نہیں پکڑا جا رہا تھا اور بعد میں وہ معافی مانگنے پر مجبور ہوا تھا۔
آج یہ باتیں یاد آئیں تو بے انتہا ہنسی آئی، ہائے رے بچپن کی شرارتیں۔ یار تم نہ ساری باتیں مجھ سے نہ لکھواو۔ کچھ آگے کے لئے بھی رہنے تو ایسے اشتر تم سے جڑی اتنی یادیں ہیں نا یار کہ ان سب کو لکھنے بیٹھوں تو دفتر تیار ہو جائے گی، رہنے دو ان سب کو یقین جانو اگر میں زندہ رہا تو ایک بھرپور مقالہ تمہارے اوپر میرے لئے قرض رہے گا۔ کبھی فرصت سے ساری یادوں کو رقم کروں گا، ابھی نہیں یار ان دونوں بہت بے چینی ہے۔ زندگی کا کوئی سرا ہاتھ میں نہیں آتا، ایک پکڑو تو دوسرا پھسل جاتا ہے، دوسرے کو پکڑو تو تیسرا پاوں کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ یار کبھی کبھی سوچتا ہوں یہ پہاڑ جیسی زندگی کاٹی کیسے جائے گی۔ کتنا بھی محنت کر لو کوئی منزل ملتی ہی نہیں، شاید اسی کا نام ہے۔ خیر اور سناو ان دنوں تم کیا نیا لکھ رہے ہو، اس بارے تو تم نے کچھ بتایا ہی نہیں، ’ہم سب‘ پر بھی بہت دنوں سے تمہارا کوئی کالم نہیں آیا۔
دیکھو! میں کیا لکھنے کے لئے بیٹھا تھا اور کیا لکھتا چلا گیا۔ جلد بازی میں میری یہی بے ترتیبی ہوتی ہے۔ خیر برا مت ماننا۔ بہت جلد تمہیں تفصیلی خط لکھوں گا، اپنی دعاوں میں یاد رکھنا اور ہاں، بابا جی کیسے ہیں یار ان سے بھی بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی، دیکھو بابا جی سے وہ واقعہ یاد آ گیا جب جامعہ میں بک فیئر لگا تھا اور ایک احمدی لوگوں کو کیسے گم راہ کر رہا تھا۔ تم نے کیسے اس کو گھنٹوں قائل کرنے کی کوشش کی تھی مگر کم بخت مان کے نہ دیا تھا اور دوسرے دن تم نے بابا جی کو بھڑا دیا تھا، بحث کے دوران کس طرح وہ پسینے پسینے ہو گیا تھا، اور بابا جی نے کیسے اسے فلسفے کی عمیق نکات اور نظریے سے مات دے دیا تھا۔ یار اب کی بابا جی آئیں تو مجھے ضرور ملوانا، اور جانی! سن نا یار ایسے ایسے ہی کچھ کچھ لکھتے رہا کرو اچھا لگتا ہے۔ چلو اب اجازت دو۔ میں چلتا ہوں۔ خدا حافظ۔
والسلام تمہارا بھائی
محمد علم اللہ
محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah