’پودوں کی علاقائی زبانیں ہیں، وہ رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں‘


غروب آفتاب

ذہن کے بغیر بھی پودے ذہانت رکھتے ہیں

کیا پودے کھانا غلط ہے؟ اگر سائنسدان یہ کہہ دیں کہ پودوں کی بھی یادداشت ہے تو کیسا محسوس ہو گا؟

بی بی سی کے میزبان اور ماہِر نباتات جیمز وانگ نے یہ پتا لگایا ہے کہ پودے بے جان چیزیں نہیں ہیں بلکہ وہ ایسی خصوصیات کے مالک ہیں جو صرف جانوروں اور انسانوں کا خاصہ سمجھی جاتی تھیں۔

سائنسدانوں کی ایک تحقیق کے مطابق پودے اپنے اردگرد کی چیزوں کو سونگھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسی نئی شہادتیں سامنے آئی ہیں کہ پودے دوسرے پودوں کو کسی خطرے سے خبردار کرنے کے لیے مواصلات کے پیچیدہ نظام کو برو کار لانے، فیصلہ کرنے اور اطلاعات کو یاد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایسی شہادتوں کے زور پر کچھ ماہر نباتات یہ بھی کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پودے ذہین بھی ہوتے ہیں۔

خوشبو کےذریعے بات چیت

پودے

پودے ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں

پودے ہوا میں عطر گھول کر دوسرے بڑے پودوں سے اطلاعات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ پڑوسی پودے خوشبو میں پنہاں پیغام کو سمجھ کر اپنے دفاع میں اقدام کر تے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر ایک سنڈی ایک پودے کے پتے کو کھا رہی ہے تو وہ پودا ایسی مہک چھوڑے گا جسے پڑوسی پودے سمجھ کر اپنے دفاع میں ایسی بو جاری کریں گے جس سے سنڈی ان کی طرف نہ آئے یا اس سے پرندوں یا بھڑوں کو اطلاع ہو کہ ایک ان کے لیے خوراک کا بندوبست ہے اور وہ اس سنڈی کو کھانے کے لیے وہاں آ جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

’بائیونک‘ پودے دھماکہ خیز مواد ڈھونڈ سکتے ہیں

دنیا کے سات مقدس ترین پودے

پودے

پودے اپنے پڑوسی پودوں کے ساتھ اطلاعات کا تبادلہ کرتے ہیں

ساج بُرش جھاڑیوں کی علاقائی زبانیں

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر ڈیوس کاربن خوشبودار جھاڑیوں ساج برش پر تحقیق کر رہے تھے جب انھوں نے پتہ لگایا کہ یہ پودے اپنے پڑوسی پودوں کے ساتھ زیادہ اچھے انداز میں اطلاعات کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ ان کی علاقائی زبانیں ہیں۔ ایک تجربے کے ذریعے پتہ چلا کہ جنوبی ساج برش شمالی کزن کی طرف سے بھیجے جانے والے اشاروں کو اتنا زیادہ سجھ نہیں پا رہے تھے جتنی آسانی سے وہ جنوبی کزن کے اشاروں کو سمجھ رہے تھے۔

پروفیسر کاربن اور ان کی ٹیم یہ تصدیق کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ جنوبی اور شمالی ساج برش جھاڑیوں کی گفتگو مختلف نہ تھی لیکن ان کی زبان مختلف تھی۔

پودے گرافک

خوراک کہاں ہے ، پودے پتہ لگا لیتے ہیں

پودے خوراک کی آواز پہچان سکتے ہیں

انیسویں صدی میں روسی سائنسدان ایوان پاولوف نے پتہ لگایا کہ ان کا کتا ایسی گھنٹی کو پہچان لیتا تھا جس کے ساتھ خوراک آ رہی ہو۔

وہ کتوں کو خوراک دینے سے پہلے گھنٹی بجائے گا اور پھر جانوروں کو سمجھ آنا شروع ہو گیا اور گھنٹی بجتے ہی ان کی رالیں ٹپکنا شروع ہو جاتی تھیں۔

حال ہی میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کی ڈاکٹر مونیکا گیلیانو نے مٹر کے پودوں کے ساتھ یہ ہی تجربہ کیا۔

ڈاکٹر مونیکا گلیلیانو نے روشنی کے لیے نیلی بتی اور آواز کے لیے پنکھے کی ہوا کو استعمال کیا۔ انھوں نے ایسا یہ جاننے کے لیے کیا کہ کیا مٹر کی کونپلیں ان اشاروں کو خوراک کی آمد کے ساتھ جوڑ سکتی ہیں۔

انھوں نے وائی (Y) کی شکل کا ڈھانچہ بنایا اور اس کی بنیاد پر ایک پودا لگایا۔ خیال یہ تھا کہ پودا اس ڈھانچے کی اس سطح پر بڑھے جہاں سے اس کی دو راہیں بن جاتی ہیں۔ خوراک کی فراہمی سے ایک گھنٹہ پہلے پودا پنکھے کی آواز سنے گا۔ اس تجربے کا مقصد یہ تھا کہ پودا یہ فیصلہ کرے کہ اسے کس طرف بڑھنا ہے۔

نرسری یا لیب یمں پودے

پودے ہمیشہ روشنی کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں

نیلی لائٹ جو پودے کے لیے خوراک ہے، وہ ہر بار ایک طرف سے نہیں آئے لیکن وہ آواز ہر بار پنکھا چلنے کے بعد آئے گی۔ پودوں نے نیلی لائٹ کی طرف بڑھنے کا گر سیکھ لیا۔

پودے پیغام یاد رکھ سکتے ہیں

پودوں کے رابطے

پودے سرگوشیاں کرتے ہیں

پودے اپنی جڑوں سے نکالے گئے مادے اور پتوں کی مہک سے تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں۔

اسرائیل کی بین گورین یونیورسٹی آف نیگیو کے پروفیسر ایریئل نووپلانسکی اس عمل کو ’چینی سرگوشی‘ سے تعبیر کرتے ہیں جس کے تحت ایک لائن میں کھڑے بچے سرگوشی کے ذریعے اطلاع تمام بچوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ ایک بچہ دوسرے بچے سے سرگوشی کرے گا اور وہ اگلے بچے کے کان میں کچھ کہے گا اور اس طرح وہ سرگوشی آخری بچے تک پہنچ جاتی ہے۔

اس طرح پودے بھی پیغام پہنچاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک پودا پانی کی کمی کی وجہ سے پریشان ہے، وہ اپنی پریشانی دوسرے پودے کو بتائے گا اور اسی طرح پانی کی کمی کی اطلاع تمام پودوں تک پہنچ جائے گی اور دوسرے پودوں کو خبردار کرے گا کہ خشک سالی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ جن پودوں کی جڑیں جڑی ہوئی ہیں وہ ان جڑوں کے ذریعے پیغام اپنے پڑوسی پودوں کو پہنچاتے ہیں۔

درخت اپنے رشتہ داروں کو غذا مہیا کرتے ہیں

جنگل

درخت اپنے رشتہ داروں کو خوراک مہیا کرتے ہیں

درخت غذائی اجزاء کو دوسرے درختوں کے ساتھ بانٹتے ہیں لیکن وہ ایسا صرف رشتہ دار درختوں کے ساتھ کرتے ہیں اور اجنبی درختوں کے ساتھ غذائی اجزاء نہیں بانٹتے۔

جنگل کے کسی بھی حصے میں درخت زیر زمین نیٹ ورک کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ پروفیسر سوزین سمرڈ اسے ’وڈ وائڈ ویب‘ یعنی ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو نیٹ ورک کہتی ہیں۔ پروفیسر سوزین کے مشاہدے میں آیا ہے کہ درخت اپنی جڑوں کے نیٹ ورک کے ذریعے اپنی خوراک اور اطلاعات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ پروفیسر سوزین کے مشاہدےمیں یہ بھی آیا کہ درخت غذائی اجزا کا تبادلہ صرف اپنے رشتہ دار درختوں سے کرتے ہیں۔

پروفیسر سمرڈ کے مطابق درخت غذا کا تبادلہ صرف اپنے رشتہ دار درختوں سے کرتے ہیں۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر برائن پکلز نے پروفیسر سمررڈ کے اس سائنسی مفروضے کو ٹیسٹ کیا۔ انھوں نے ایک جگہ پر غیر رشتہ دار پودوں کو لگایا اور ایک جگہ رشتہ دار پودوں کو لگایا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ رشتہ دار پودے ایک دوسرے کے ساتھ خوراک بانٹتے ہیں۔

پودوں کی حواس انسانوں سے زیادہ ہوتی ہے

بلند عمارتوں کے کونوں پر باغ

پودے آنکھوں کے بغیر بھی روشنی کے بارے میں کئی معلومات حاصل کر سکتے ہیں

پودوں کے دماغ نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ کچھ ایسے کام کر لیتے ہیں جس کے کرنے کے لیے انسانوں کو دماغ کی ضرورت ہوتی ہے۔

پودے آنکھوں کے بغیر بھی روشنی کے بارے میں کئی معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور ناک کے بغیر ہی کیمیکل کا پتہ لگا لیتے ہیں اور کانوں کے بغیر ہی تھرتھراٹ کی آوازوں کو محسوس کر لیتے ہیں۔

اس کے علاوہ نئی تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ پودے برقی سگلنل، درجہ حرارت، برقی مقناطیسیت، بھاری دھات اور کشش ثقل کو محسوس کر سکتے ہیں۔

تو کیا ہم اسے ’ذہانت‘ کا لفظ دے سکتے ہیں۔

پروفیسر نووپلانسکی کہتے ہیں کہ اسے ذہانت قرار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp