اسد منیر کی یادیں


یہ کالم اخبار میں چھپ جاتا تو مجھ سے بہت پہلے بھائی اسد منیر اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرچکے ہوتے ۔ ایسا کرتے ہوئے کبھی کبھار انہوں نے مجھ میں دورِ حاضر کا منٹو بھی ’’دریافت‘‘ کرلیا ہوتا تھا۔گزشتہ جمعرات کی صبح بھی یہ کالم چھپا تھا۔ سوشل میڈیا پر لیکن ان کی جانب سے وہ پوسٹ نہ ہوا۔ حیرانی ہوئی۔ اگرچہ ’’خدا خیر کرے‘‘ والی فکر لاحق نہ ہوئی۔

بھرپور توانائی کی مجسم علامت اور مکمل اخلاص کی نمائندہ ان کی شخصیت کے بارے میں کوئی بری خبرملنے کی گنجائش ہی میرے ذہن میں کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اپنا کالم تلاش کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر نظر ڈالی تو ہولناک خبر آگئی۔ وہ اس دُنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔

جمعرات کی منحوس صبح میں لاہور کے ایک ہوٹل میں مقیم تھا۔سفر کے بعد چند طویل ملاقاتوں نے تھکن سے چکناچور کردیا تھا۔ اسد بھائی کے اہل خانہ کو فون کرکے تصدیق کی ہمت نہ ہوئی۔ ابھی تک انہیں افسوس کا فون بھی نہیں کرپایا ہوں۔ بے تحاشہ ذرائع کی بدولت ویسے بھی تصدیق ہوچکی تھی۔ پھر ان کے نام سے منسوب ہوا آخری خط بھی منظر عام پر آگیا۔ذہن میرا مائوف ہوگیا۔

ماتھے پر پسینہ۔طبیعت وہمی نہیں ہے مگر بائیں بازو میں درد کی ٹیس اُٹھی۔ زندگی میں پہلی بار بہت خوف سے شبہ ہوا کہ دل واقعتا دہل گیا ہے۔پانی کی کئی بوتلیں کمرے میں ایک دیوار سے دوسری طرف چلنے میں خرچ کرڈالیں۔آج سے تقریباََ دس برس قبل کئی دوستوں کی معرفت علم ہوا کہ سی ڈی اے کے کوئی ڈائریکٹر ہیں۔ اسد منیر ان کا نام ہے۔ کئی برسوں سے میری تحریر کے شیدائی ہیں۔ میرے کئی کالموں کے پیرے انہیں ازبریاد ہیں اور وہ مجھے ’’نصرت بھائی‘‘ پکارتے ہوئے سراہتے ہیں اور ملاقات کے شدید خواہش مند۔

اپنے ا یک ’’مداح‘‘ کے وجود نے شکرگزاری کے بجائے اترانے کو مجبور کیا۔ ملاقات کے امکان کو وقت کی کمی کے بہانے ٹالتارہا۔ بالآخر ان سے دوستوں کی ایک محفل میں ملاقات ہوگئی اور میں فی الفور ان کے خاندان کا فرد بن گیا۔ان کی جانب سے میرے مسلسل ذکر نے ان کے عزیزوں کو بھی میرا عزیز بنادیا تھا۔

اسد بھائی سے ملتے ہی ان کی شخصیت میں نمایاں ترین وہ مسکراہٹ رجسٹر ہوتی جو ان کے چہرے پر مسلسل رہتی۔ یہ مسکراہٹ فقط ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جنہیں ربّ کریم نے قناعت کی دولت سے مالامال کیا ہوتا ہے۔ گفتگو میں ہمیشہ شائستگی۔ دوسرے کی بات احترام سے سننے کی عادت اور اہم ترین بات یہ کہ اپنی عمر سے کہیں کم عمر نوجوانوں کی بات کو بزرگانہ بلندی کے بجائے اشتیاق سے سننے کی عادت۔

وہ ان معدودے چند مردوں میں سے تھے جو دل سے تسلیم کرتے کہ خواتین ’’سوچتی‘‘ بھی ہیں۔ان کے اپنے خیالات ہوتے ہیں۔ہمیں زندگی کو ان کے زاویہ نظر سے بھی دیکھنا ضروری ہے۔اسد بھائی نے اپنے فوجی کیرئیر کا بیشتر حصہ انٹیلی جنس کے کاموں میں صرف کیا تھا۔ بلوچستان میں بھٹوحکومت کے دوران ہوئے ملٹری آپریشن میں ایک نوجوان افسر کی حیثیت میں بہت متحرک رہے تھے۔ افغانستان اور اس سے ملحق علاقوں کی سیاست،قبائلی تقسیم،روایات اور تاریخ کے چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا تھے۔

پشتو شاعری اور موسیقی سے ان کی لگن جنونی تھی۔ کبھی کبھار ’’اتن‘‘ رقص کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے تو پنجابی محاورے والے ’’پھٹے چک دیتے‘‘۔زندگی سے اتنی محبت کرنے والے شخص کا ایک خط لکھ کر دنیا سے چلے جانا میرے لئے ابھی تک تسلیم کرلینا ناممکن ہے۔

اپنے دُکھ دوسروں کو بتانے کے اسد بھائی عادی نہیں تھے۔ گزشتہ ایک برس سے لیکن مجھے ان سے اس موضوع پر بات کئے بغیر بھی کامل یقین تھا کہ وہ شدید جذباتی دبائو کا شکار ہیں۔ان پر نازل ہوئے ذہنی اور جذباتی دبائو کی چند وجوہات کا مجھے بخوبی اندازہ تھا۔میری ذراسی پریشانی کے بارے میں مسلسل بے چین رہتے شخص نے مگر مجھے موقع ہی نہ دیاکہ ان کو ’’حوصلہ‘‘ دینے کے لئے ملاقات کروں۔

سوالات اٹھائوں۔انہیں دل کھول کر بات کرنے کو مجبور کروں۔ان پر آئی آفت کی گھڑی کا مداوا اگر ڈھونڈ نہ سکوں تو کم از کم محض گفتگو سے ان کے دل کا بوجھ بانٹنے کی کوشش ہوسکتی تھی۔اسد بھائی ٹویٹر پر ہمیشہ متحرک رہتے تھے۔ اس میڈیم کو انہوں نے لوگوں کی تضحیک کے بجائے ادبی چاشنی سے بھرپور طنزومزاح کے ذریعے مسکراہٹیں بکھیرنے کے لئے استعمال کیا۔

چند روز قبل مگر ا نہوں نے ناصر کاظمی کے اشعار پوسٹ کرنا شروع کردئیے تھے۔ ان کی جانب سے پوسٹ ہوا ناصر کاظمی کا پہلا شعر ٹویٹر پر دیکھتے ہی جی چاہا کہ فون اٹھائوں اور پوچھوں کہ اسد بھائی آپ جیسے ہمیشہ مسکراتے اور دوسروں کو خوش دیکھنے کے عادی شخص کا اس شاعر سے کیا تعلق جس کے گھر کی دیواروں پہ اداسی ہمیشہ بال کھولے سورہی ہوتی تھی۔ پھکڑپن کی مگر توفیق نہیں ہوئی۔

میں ان کی جانب سے ناصرؔکاظمی کی ’’دریافت‘‘ کا سبب جان ہی نہ پایا۔ان کی رخصت کے بعد سبق یہ سیکھا ہے کہ آپ کا کوئی دوست اچانک ناصرؔکاظمی کی محبت میں مبتلا ہوجائے تو اسے خطرے کا الارم جانو۔ سب کچھ تج کر اس سے رابطہ کرو۔اس وقت تک جان نہ چھوڑو جب تک وہ آپ کو سمجھا نہ دے کہ اسے ناصرؔکاظمی کی شاعری سے اتنی رغبت کیوں لاحق ہوگئی۔

ربّ کریم سے فریاد ہے کہ اس خواہش پر عمل کی توفیق عطا کرے۔اسد بھائی کی ناگہانی موت نے کئی سوالات اٹھادئیے ہیں۔ان کے جوابات ڈھونڈنے کی ہمارے ہاں کسی کو فرصت نہیں۔ کئی لوگوں نے مگر بنیادی سوالات سے توجہ ہٹانے کے لئے انتہائی سفاکی سے ہمارے دلوں میں جاگزیں تعصبات کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔

اپنی ’’پاک بازی‘‘ کے زعم میں مبتلا لوگوں کے رویے نے خون کھولادیا ہے۔جی بے چین ہورہا ہے کہ اسد بھائی کی طرح ٹویٹر پر ڈٹ جائوں اور حساب برابر کرنے کی کوشش کروں۔ دُکھ نے مگر ذہن کو مفلوج بناڈالا ہے۔

فی الوقت سوائے صبر کے اور کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی۔ اگرچہ یہ سوال ذہن میں مسلسل اُبلے چلا جارہا ہے کہ ہم اتنے ظالم کیوںہوگئے ہیں۔ کڑاوقت ہم میں سے کسی پہ بھی آسکتا ہے۔اس کڑے وقت کو سہنے کے لئے مگر آج کا انسان کاملاََ تنہا ہوچکا ہے۔ یہ تنہائی ’’جینے میں کیا رکھاہے‘‘ والی تشویش کا شکار بنادیتی ہے۔

ربّ کریم ہم سب کو اس تشویش کی زد میں آنے سے محفوظ رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).