مغرب کے ضمیر کا امتحان: پہلا پتھر کون مارے گا


کراچی کے پارسی، پشاور کے سکھ، عمر کوٹ کے ہندو اور فیصل آباد کے عیسائی ایک ایک کر کے یہ ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے۔ مرد مقتول ہوتے گئے۔ بچیوں کا  مذہب جبری بدلتا گیا۔ 1947  میں اس ملک کی 23 فی صد آبادی اقلیتوں پر مشتمل تھی۔ آج اس ملک میں محض 3 فی صد غیر مسلم بچے ہیں۔ اس میں وہ بھی شامل ہیں جنہیں سرکاری طور پر 1974 میں غیر مسلم بنایا گیا۔ اگر اس کو مساوات سے نکال دیں تو شاید یہ تعداد ایک فی صد ہو گی۔ جس ملک میں غیرمسلموں پر زندگی اس قدر بھاری کرنے کا رواج ہو، اس کے مکین کیا کسی اور کے ضمیر کا امتحان لیں گے۔

المیہ یہ ہے کہ اسی ملک کے کتنے ہی پیروجوان روز جوق درجوق قطاریں لگا کر اسی مغرب کی شہریت پر رال ٹپکاتے ہیں جسے غاصب، قاتل اور لٹیرا کہتے ان کی زبان نہیں تھکتی۔ پھر وہاں پہنچ کر اپنی بچیوں کو آزادی مانگنے پر قتل کر کے، گرومنگ کے نام پر بچوں کا جنسی استحصال کر کے، سوشل سیکیورٹی اور کریڈٹ فراڈ کے بعد، داعش اور جیش الاسلام کے لیے بھرتیاں کرنے کے بعد یہ لیوٹن کی سڑکوں پر انجم چوھدری جیسے نفرت کے پیمبروں کی قیادت میں جلوس نکالتے ہیں اور شریعہ کے نفاذ کے نعرے لگاتے ہیں۔ اگلوں کی رواداری پھر بھی انہیں اجازت نہیں دیتی کہ ان کی خاطر خواہ کفش کاری کے بعد ان سے شہریت لے لیں۔

کیا ہم اپنے افغان، بنگلہ دیشی اور ہندوستانی مسلم بھائیوں کو یوں شہری حقوق دیتے ہیں۔ کیا سعودی عرب اور امارات کی شہریت حاصل کرنا آپ کے بس میں ہے۔ ملا کی دوڑ بھی لگتی ہے تو وہ کینیڈا، آسٹریلیا یا انگلینڈ میں براجمان ہوتا ہے۔ ملت اسلامیہ کا رخ نہیں کرتا۔

جس دن آپ کے بچے بھی چرچ پر حملے کے بعد وہاں جا کر دیواروں پر دل بنائیں۔ جب آپ بھی احمدیوں کے پیچھے صف بنا کر ان کی حفاظت کریں۔ جب ہندوؤں کے مندر کے گرنے پر آپ بھی وہاں پھولوں کی عمارت تعمیر کر سکیں۔ جب قتل عام کے اگلے دن ہی آپ بھی قاتل گرفتار کر سکیں، ملک کے قوانین بدل سکیں۔ مرنے والوں کو بلاتمیز اپنا بھائی اور شہید کہہ سکیں اس دن مغرب کے ضمیر کا امتحان لے لیجیے گا۔

پلوامہ ہو، تل ابیب ہو، پیرس ہو، نیویارک کہ غزہ، پشاور ہو یا ممبئی، لاس ویگاس کہ خرطوم۔ ہر سانحے کی توجیہہ ایک ہی ہے۔ نفرت، بے حد نفرت، بے حساب نفرت۔ اور یہ نفرت ہم اپنے بازاروں میں تھوک کے بھاؤ بیچتے ہیں۔ دور کیوں جاتے ہیں۔ سواد اعظم کے اس راہ نما کی تقاریر ہی سن لیجیے جو آج منظر عام سے غائب ہے۔ پھر دوسروں پر نفرت فروشی کا الزام دھریے گا۔ کیا وجہ رہی کہ کسی نے ان موصوف کے سر پر انڈا نہیں پھوڑا۔ آج آپ فریزر ایننگ کو ولن اور ول کانلے کو ہیرو کہہ رہے ہیں۔ چلیے درست ہے۔ پر اس وقت آپ کہاں تھے جب پیر افضل اور خادم رضوی جیسے لوگ عیسائیوں، ہندوؤں، یہودیوں اور احمدیوں کے لیے زہر اگل رہے تھے۔ چھوڑیے صاحب، بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔

کرائسٹ چرچ کا واقعہ اسلاموفوبیا کے بدترین نتیجے میں بدلنے والا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ دہشت گردی ہے؟ بالکل ہے۔ ایک پوری کمیونٹی کو خوف کے سائے میں دھکیل دینا والا سانحہ دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے۔

پر کیا مغرب میں کوئی ملک ایسے دہشت گردوں کا سپانسر ہے۔ کیا کوئی تنظیم ایسے واقعات کی بڑھ چڑھ کر ذمہ داری لیتی ہے۔ کیا کوئی تربیتی مراکز کہیں قائم ہیں۔ اگر ہاں، تو پھر ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہونا چاہیے جو ایران یا افغانستان کے ساتھ روا ہے، جو القاعدہ اور طالبان کے لیے مخصوص ہے۔ جو جیش محمد، الشباب یا بوکو حرام کے لیے ڈھالا گیا ہے۔ اگر نہیں تو پھر کہیں نہ کہیں ایسے واقعات کی وجوہات میں فرق ہے۔ اس فرق کو سمجھتے ہوئے ہر وہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے بے گناہ خون کی ارزانی روکی جا سکے۔

ہر دہشت گرد کا مذہب ہوتا ہے۔ یہ یاد رکھیے گا ۔ اور ہر دہشت گرد ذہنی مریض بھی ہوتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھیے گا۔ ہر بے گناہ لاشہ شہید کا ہوتا ہے۔ اپنے اور مخالف عقیدے میں جنت اور جہنم کے سودے نہیں ہوتے۔ یہ بھی یاد رکھیے گا۔

دہشت گردی کو منظم سانچے میں ڈھلنے سے بچانا ہے۔ مغرب میں، مشرق میں، ہر جگہ۔ پر نفرت کا علاج کبھی بھی نفرت سے ممکن نہیں ہے۔ آنکھ کے بدلے آنکھ کا فلسفہ پوری دنیا کو نابینا کر دے گا۔ یہ گاندھی نے کہا تھا۔ محبت کے راستے ڈھونڈیے۔ آج کے افسوس ناک دن پر ان لاشوں کو اپنے مخالف نقطہ نظر رکھنے والوں پر تبرا کرنے کے لیے کاندھوں پر مت اٹھائیے۔ اپنے دکھ میں اپنی نفرت کی آمیزش مت کیجیے۔ اس دکھ کو محبت پھیلانے کا وسیلہ بنائیے، اگر بنا سکتے ہیں۔ نہیں تو، خاموش رہیے۔۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad