عورتوں ‌ کے خلاف خواتین کون ہیں؟


ویک اینڈ پر میں اور میری فرانسس لوکل الیکشن میں ‌ حصہ بٹا رہے تھے۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ یہ 2019 ہے۔ 1921 تک خواتین کو امریکہ میں ‌ ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ یہ حق ان خواتین نے باہر سڑکوں ‌ پر نکل کر تمام خواتین کے لیے حاصل کیا جن کو پدرانہ معاشرے کی لعنت ملامت حاصل رہی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں ‌ خواتین کی جدوجہد کے نتیجے میں ان کی زندگی بہتر ہوئی ہے۔ بہتر زندگی کا کیا پیمانہ ہے؟ اس کی گہری تفصیل میں ‌ جائے بغیر اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ یورپ اور امریکہ میں ‌ زندہ خواتین کی شرح‌ جنوب ایشیا اور افریقہ سے زیادہ ہے جہاں ‌ 100 ملین خواتین بدسلوکی، ظلم اور نا انصافی کی وجہ سے مرچکی ہیں اور روزانہ ہی مر رہی ہیں۔

2016 میں ‌ جب ٹرمپ امریکی صدر کے لیے منتخب ہوگئے تو وہ میرے لیے ذاتی طور پر ایک صدمے کا لمحہ تھا۔ ایک مہاجر امریکی، براؤن، خاتون، میڈیکل ڈاکٹر اور ماں ‌ ہونے کے نقطہء نظر سے ٹرمپ کا انتخاب دنیا کے اختتام کی ابتدا محسوس ہوا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ٹرمپ اور ان کی ٹیم ان مالدار افراد پر مبنی ہے جو خود کو امیر تر بنانے میں ‌ گہری دلچسپی رکھتے ہیں جس پر وہ ماحولیات، سائنس، خواتین، تعلیم، صحت اور انسانیت کی بلی چڑھانے پر مکمل تیار ہیں۔ امریکہ میں ‌ نسلی تعصب موجود ہے جس میں ‌ گوروں ‌ کو دیگر نسلوں ‌ کے مقابلے میں ‌ فوقیت حاصل ہے۔ امریکہ میں ‌ جینڈر پے گیپ موجود ہے۔ ایک کالی خاتون کو ایک سفید فام مرد کے مقابلے میں ‌ ایک ہی نوکری کے لیے 40 فیصد کم تنخواہ ملتی ہے۔

ٹرمپ خود ایک بگڑے ہوئے امیر زادے ہیں جو منہ میں ‌ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے اور چالیس سال کی عمر کا ہونے کے بعد بھی ان کے مالدار والد صاحب ان کو سپورٹ کرتے رہے۔ اب بھی وہ جب منہ کھولتے ہیں تو دوسری جماعت کے طالب علم کی طرح‌ بات کرتے ہیں جس کو اپنے علاوہ دنیا میں ‌ کسی کی کوئی فکر نہیں۔ کئی خواتین نے ان پر جنسی جرائم کا الزام دائر کیا۔ ری پبلکن پارٹی غریب خواتین سے برتھ کنٹرول اور مفت ہیلتھ کئر چھین لینا چاہتی ہے۔

آج ہی اس بدترین حکومت کے دور میں ایک امریکی اسٹیٹ میں ‌ پلانڈ پیرنٹ ہڈ سے فیڈرل فنڈنگ کھینچ لی گئی ہے۔ چونکہ میں ‌ نے اپنی آنکھوں ‌ سے لاڑکانہ کے شیخ زائد ومن ہسپتال میں ‌ تڑپتی اور مرتی ہوئی خواتین دیکھی ہیں جن کے پلاسنٹا باہر صحن میں ‌ بلیاں کھاتی ہیں اور روزانہ صبح ان کے زخم دبا کر پیپ نکالی جاتی ہے، اس لیے اس موضوع پر میں ‌ صرف سوچ کر ہی بیمار پڑسکتی ہوں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ 53 فیصد سفید فام خواتین نے ہلری کلنٹن کے بجائے ٹرمپ کو ووٹ ڈالا؟ جبکہ 80 فیصد کالی خواتین نے ہلری کلنٹن کو ووٹ دیا۔

ٹرمپ کے الیکشن کے بعد ان کی حلف برداری کے اگلے دن وائٹ ہاؤس کے باہر خواتین مارچ اور احتجاج طے ہوا۔ میں نے اسی دن اپنے لیے اور اپنی بیٹی کے لیے واشنگٹن ڈی سی کے ٹکٹ خرید لیے تھے۔ جس دن ہم وہاں پہنچے تو ٹی وی پر ٹرمپ اناگیوریشن چل رہی تھی جو ایک تکلیف دہ منظر تھا۔ اگلے دن ہم سب صبح سویرے اٹھے اور اپنے سائن اٹھا کر وائٹ ہاؤس جارہے تھے تو ساری ٹرینیں ‌ گلابی ٹوپیوں ‌ والی خواتین، بچوں ‌ اور مردوں ‌ سے بھری اسی طرف رواں ‌ دواں ‌ تھیں۔

وہاں ‌ جاتے ہوئے مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ تمام دنیا سے اس مظاہرے میں ‌ شرکت کرنے کے لیے لوگ پہنچیں ‌ گے۔ وہاں ‌ سات سو پچاس ہزار افراد جمع ہوگئے تھے اور مارچ کرنے کے لیے جگہ نہیں بچی تھی۔ ٹرمپ کی صدارت کی حلف برداری سے زیادہ افراد نے اس احتجاج میں ‌ شرکت کی۔ سارے ملک میں ‌ مظاہرے ہوئے اور ان میں ‌ دو اعشاریہ 9 ملین افراد نے حصہ لیا۔ اس طرح‌ یہ خواتین مارچ امریکہ کی تاریخ‌ کا سب سے بڑا خواتین مارچ بن گیا۔

خواتین مارچ میں ‌ میری فرانسس نے وکٹورین زمانے کا لباس پہنا تھا اور ایک دلچسپ سائن اٹھایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا، لیڈیز اگینسٹ ومن یعنی کہ ”عورتوں کے خلاف خواتین“۔ خواتین مارچ کے اختلاف میں پدرانہ معاشرے میں ‌ صرف مرد ہی نہیں ‌ بلکہ خواتین بھی شامل ہیں۔ آج ہم تمام دنیا کا سرسری جائزہ لیں گے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں ‌ گے کہ عورتوں ‌ کے خلاف خواتین کون ہیں اور ان کو ایسا کرنے پر کون سی باتیں ابھارتی ہیں؟

دیگر ممالک میں ‌ اس اعداد شماری کی ضرورت ہے تاکہ ہم خواتین کے بارے میں ‌ مزید سیکھ سکیں کہ ان میں ‌ کون سی باتیں ‌ مختلف ہیں جن کی بنیاد پر ان کی سپورٹ مختلف ہے۔ امریکہ میں ‌ ہونے والی ریسرچ کے مطابق کالج کی تعلیم یافتہ خواتین، شہری خواتین اور دیگر نسلوں ‌ کی خواتین نے زیادہ تر اوبامہ اور ہلری کلنٹن کو ووٹ ڈالے جبکہ سفید فام، کم پڑھی لکھی اور چھوٹے شہروں اور گاؤں کی زیادہ مذہبی خواتین نے ٹرمپ کو ووٹ ڈالے۔

میرے ذاتی اندازے اور مشاہدے کے مطابق گوری خواتین جن کے شوہروں ‌ کو کالی خواتین کے برابر کام کرنے پر 40 فیصد زیادہ معاوضہ ملتا ہے وہ ان پیسوں سے اچھے گھروں میں ‌ رہ سکتی ہیں، اپنے بچوں ‌ کو اچھے اسکولوں ‌ میں ‌ بھیج سکتی ہیں اور گھر میں ‌ ایک دو نوکر بھی رکھ سکتی ہیں۔ اس بے انصاف نظام کی وجہ سے چونکہ ان کا تو فائدہ ہی ہورہا ہے اس لیے وہ اس نظام کو قائم رکھنے میں ‌ مدد دیتی ہیں۔ وہ صاف صاف یہ بھی نہیں ‌ کہتی ہیں کہ میں ‌ اپنے فائدے کے لیے اس بے انصافی کے ساتھ کھڑی ہوں۔ اس نظام کو وہ مذہب اور نسلی امتیازی سے درست ثابت کرنے میں ‌ لگی ہیں۔ ان کے خیال میں ‌ کالے نالائق ہوتے ہیں، اور ان کو خدا نے اسی لیے بنایا ہے کہ وہ غلامی کریں۔

بالکل اسی طرح‌ ایک پاکستانی شادی شدہ گھریلو خاتون کا گھر، وہ خود اور ان کے بچے ان کے شوہر پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ کبھی بھی یہ نہیں ‌ کہیں ‌ گی کہ میرے شوہر کے ساتھ پڑھنے والی لیڈی ڈاکٹرز کو جنسی ہراسانی یا صنفی تعصب کی وجہ سے نوکریاں ‌ نہیں ملیں۔ چونکہ اس بے انصاف نظام سے ان کا فائدہ نکلتا ہے، وہ اس کا ساتھ بھی دیں ‌ گی اور ساتھ میں ‌ اس نظام کو مذہب اور جنسی تفریق کے لحاظ سے درست ثابت بھی کریں ‌ گی۔

عام خیالات کے برعکس دنیا میں ‌ سے 100 ملین خواتین بدسلوکی، بے انصافی اور ظلم کی وجہ سے غائب ہیں۔ ان غائب خواتین کی زیادہ تر تعداد جنوب ایشیا، مشرقی ایشیا اور افریقہ میں ‌ ہے۔ انڈیا میں ‌ 1000 لڑکوں ‌ کے مقابلے میں ‌ 975 لڑکیاں ‌ ہیں۔ اس تعداد کو ایک اعشاریہ دو بلین کی آبادی کے تناظر میں ‌ دیکھا جائے تو معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ‌ ہوگا۔ تمام دنیا میں ‌ خود کشی کرنے والی ہر تین خواتین میں ‌ سے ایک انڈیا میں ‌ ہیں۔

انڈیا میں ‌ جوان شادی شدہ خواتین میں ‌ خودکشی کی شرح‌ میں ‌ اضافہ ہوا ہے۔ شوہر کی طویل عمر کے لیے روزے رکھنا، شوہر کی عبادت کرنا، اس کو بھگوان سمجھنا اور اس کے مرنے کے بعد خود جل کر مر جانا اس خطے کی خواتین کے لاشعور کا حصہ ہے۔ صرف وقت کے ساتھ نام بدلے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بدلتے وقتوں کے ساتھ نئے نظاموں کے مثبت حصوں ‌ کو قبول کیا جاتا۔ پہلے بھی منفی حصے غالب تھے بعد میں ‌ بھی رہے۔ خواتین کے حقوق کے استحصال میں دنیا کے تمام بڑے مذاہب کے پیروکار آگے آگے ہیں۔

ان تمام مذاہب کی پدرانہ تشریح کے باعث خواتین کی نفسیات میں دوسرے درجے کے شہری ہونے کا احساس کمتری مضبوطی سے گڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ خود کو ایک منفرد اور مکمل انسان سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہاں تک کہ خواتین کی زبان بھی اپنی نہیں ہے۔ سینکڑوں سالوں تک ایک پہلے سے طے شدہ کردار ادا کرتے رہنے سے وہ خود کو بھی نہیں جانتی ہیں۔ ان کو نہیں ‌ معلوم کہ ان کا کوئی مالک نہیں ہے۔

مسلمان خواتین کے حالات غیر مسلمان خواتین کے مقابلے میں ‌ مزید خراب ہیں۔ مسلمان خواتین میں ‌ زچگی کے دوران مرنے کی شرح‌، ان میں ‌ تعلیم کی شرح‌ اور ان کے نوزائیدہ بچوں ‌ میں ‌ موت کی شرح‌ ہر امیر اور غریب ملک میں ‌ غیر مسلمان خواتین سے زیادہ پائی گئی ہے۔ جماعت اسلامی کی خواتین برقع پوش سپاہی بن کر سڑکوں ‌ میں ‌ یہ کہتی پائی گئیں ‌ کہ وہ خواتین کو واپس گھروں ‌ میں ‌ بھیجنے کے لیے نکلی ہیں۔ یہ خود ساختہ مورل پولیس چائے خانوں پر دھاوا بولتے بھی پائی گئی ہے جہاں عام افراد ساتھ میں کھانے پینے اور بات چیت میں مصروف ہوں۔ حالانکہ ایک آزاد ملک کے آزاد بالغ شہری ہونے کے ناطے کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ‌ کہ کوئی بھی ان کے گرد دائرے میں ‌ بلا اجازت دراندازی کی کوشش کرے۔

وکٹر فرینکلن کی کتاب ہے ”مینس سرچ فار مینینگ“ یعنی آدمی معنی کی تلاش میں۔ ‌انہوں ‌ نے ہٹلر کے جرمنی میں ‌ کنسنٹریشن کیمپ میں ‌ گذارے ہوئے حالات کا ذکر کیا ہے۔ ان کیمپوں ‌ میں ‌ تعینات فوجی دستے قیدیوں ‌ پر مظالم ڈھاتے تھے۔ کوئی 6 ملین بے گناہ یہودیوں کو بموں کے دھماکوں سے، گولیوں ‌ سے، جلا کر اور گیس چیمبرز میں ‌ ان کا سانس کھینچ کر مارا گیا۔ ان کیمپوں کے باسیوں کو دو حصوں ‌ میں ‌ تقسیم کرسکتے ہیں۔

ایک ظالم اور ایک مظلوم۔ لیکن ان میں ‌ ایک گروہ اور بھی تھا، جو ان قیدیوں ‌ پر مشتمل تھا جو فوجیوں ‌ کے ساتھ مل کر اپنے مقید ساتھیوں پر ظلم کرتے تھے جس کے معاوضے میں ‌ان کی جان بھی بچی رہتی تھی اور ان کو کچھ بہتر زندگی گذارنے کا موقع ملتا تھا۔ عورتوں ‌ کے خلاف خواتین بھی اس گروہ کا حصہ ہیں جو پدرانہ معاشرے کی بینیفشری ہیں۔ چونکہ ان کی اپنی زندگی آرام دہ ہے اور ان کو ہر سہولت حاصل ہے تو وہ ان خواتین کے مسائل سے بے بہرہ ہیں جو اتفاق سے اتنی خوش نصیب واقع نہیں ہوئیں۔ جب احتجاج کرنے والی خواتین قربانیاں دینے کے بعد سیاسی حقوق حاصل کرنے میں ‌ کامیاب ہوجاتی ہیں تو یہ خواتین ان فائدوں کی بھی بینیفشری ہوتی ہیں۔

محسن بھوپالی کا شعر ہے

نیرنگیء سیاست دوراں تو دیکھئیے

منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).