چپ کر جا بڑھیا


نوّے کی دہائی کے اوائل کا ذکر ہے۔ کراچی کے ایک چھوٹے سے سرکاری اسکول میں میرا آٹھویں جماعت کا پرچہ تھا۔ کلاس میں دو ٹیچرز نگرانی پرمامورتھیں۔ ایک تقریبا تیس کی اور دوسری پچاس کے قریب تھیں۔ ابھی پرچے تقسیم ہوئے دیر نہیں گزری تھی کہ پورے اسکول میں لڑکوں کا بڑاساغول داخل ہوا اور کلاسز میں دو دو اور تین تین کی تکڑیوں میں پھیل گیا۔ اُن کے ہاتھوں میں کتابیں، شرحیں اور نوٹس کی کاپیاں تھیں جووہ نقل کرنے کے لئے لڑکیوں میں تقسیم کر رہے تھے۔

جب وہ ہماری کلاس میں داخل ہوئے توسینئیر ٹیچران پر چلائیں، ”نکل جاویہاں سے میں تمھیں اس کلاس میں نقل نہیں کرانے دوں گی۔ “ اُن میں سے ایک لڑکے نے کہا، ”چپ کر جا بڑھیا ورنہ گولی مار دوں گا۔ “ یہ سُن کرٹیچر بھی آپے سے باہر ہوگئیں، ”چلاؤ گولی میں کھڑی ہوں یہاں، چلاؤ گولی۔ “ ان کا غصے سے بلڈ پریشر بڑھ گیا اور سانس پھول گئی۔ اسی چیخ پکار میں دوچار ٹیچرز پاس کے کمروں سے بھاگی بھاگی آئیں۔ انھوں نے اُس لڑکے کے آگے ہاتھ جوڑے اور معاملہ رفع دفع کرایا۔ سینئیر ٹیچر کو اسٹاف روم میں لے گئیں۔ فضا میں دہشت پھیل گئی تھی۔

ہمارے نوکر ی میں آنے تک یہ دہشت کچھ کم ہوگئی تھی کیونکہ زمانہ کچھ ایڈوانس ہو چکا تھا اور دوسرا نقل خدمت خلق کے جذبے کے علاوہ کمائی کا بھی ذریعہ بن گئی تھی۔ اب ایک اسپیشل ہال بنایا جاتا جہاں ایسے عملے کی ہی ڈیوٹی لگائی جاتی تھی جن کا بلڈ پریشر ہر طرح کے حالات میں انڈر کنٹرول رہتا تھا۔ یہ سب پرنسپل کی آشیر باد کے بغیر ممکن نہیں تھا کیونکہ ایسا بھی ہوا کہ کچھ عرصے کے لئے ایک دبنگ پرنسپل کی پوسٹنگ ہوئی تو امتحانات کے زمانے میں اس بیچاری کو نہ صرف بے پناہ دباؤ برداشت کرنا پڑتابلکہ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ پولیس کے ہوتے ہوئے ایک سیاسی جماعت کے کارکن  ان کو ڈرانے کے لئے ان کے قدموں کے پاس گولیاں داغ گئے۔

ملازمت کے بعد جب میرے کالج میں پہلا امتحان آیا تو میں کئی دن اسپیشل روم کے دیدار سے محروم رہی۔ آخر ایک دن تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کراسپیشل روم پہنچ ہی گئی۔ کتابیں، شرحیں، نوٹس اور ہر طرح کا چیٹنگ مٹیریل کمرے میں ایک دوسرے کی طرف اُچھالے جا رہے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے پرندے پنجرے میں پھڑپھڑاتے پھر رہے ہوں۔ دو نگراں خواتین کونے میں رکھی میزکے گرد سہمی سی کھڑی تھیں جو لڑکیوں کے طلب کرنے پر ایکسٹرا شیٹس وغیرہ فراہم کردیتیں اور واپس جا کر اپنی جگہ جا کرکھڑی ہو جاتیں۔

ہال کے درمیان میں ایک لحیم شحیم لڑکا کھڑا تھا جو زور و شور سے جاری نقل کے عمل کی ایمانداری سے نگرانی کر رہا تھا۔ میں اس کے پاس گئی اور ہمت کر کے سوال پوچھا بھائی یہ نقل کرواکے تم اپنی قوم کی کون سی خدمت کر رہے ہو؟ اُس نے بیزاری سے جواب دیا کہ ہم کیا کریں اوپر سے فون آ جاتا ہے۔ یہ کہے کہ وہ آگے بڑھ گیا شاید وہ کسی اخلاقیات پر کوئی بھاشن سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔ میں واپس آگئی لیکن خیر منائی کہ کم ازکم ہر کمرے میں یہ ماحول نہیں۔ کبھی کبھار ہم بھی کسی سیاسی لاوارث یا بھائی سے محروم لڑکی سے کچھ بوٹی شوٹی برآمد کر لیتے تو ہمارا ننھا منا ضمیراسی فتح کا جشن منا کے دوبارہ سو جاتا۔ لیکن پکچر ابھی باقی تھی۔

ایک دن ہمارے کالج میں ایک صاحب بطور کلرک جوائننگ دینے آئے۔ تعارف کرواتے ہوئے انھوں نے زور دے کر یہ بھی بتایا کہ وہ اُس وقت کے وزیراعلی کے گاؤں سے ہیں۔ سپریٹنڈنٹ نے رسمی کارروائی سے پہلے جو مختصرسی گفتگو کی اُس میں ان صاحب نے بتایا کہ وہ اکنامکس میں ایم اے ہیں۔ لیکن جب سپریٹنڈنٹ نے خود کاغذات دیکھے تو تو ڈگری پولیٹیکل سائنس کی تھی۔ سپریٹنڈنٹ نے کہا بھائی یہ تو پولیٹکل سائنس کی سند ہے تو بے نیازی سے جواب دیا، اچھا پھر پولیٹیکل سائنس ہی سمجھ لیں۔

سندھ کے ایک اور شہرسے تعلق رکھنے والی ہماری ایک بہت ہی پیاری اور نیک دل ساتھی ٹیچر نے ایک بار مجھ سے اپنے ایک ڈاکٹر بھانجے کی قابلیت کا ذکر کچھ یوں کیا ”میرا ایک بھانجا بہت ذہین اور اچھا ڈاکٹر ہے۔ ایک دن بھی میڈیکل کالج نہیں گیا اور اور اتنی اچھی دوا دیتا ہے کہ بندہ ایک دو دن میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔ سب اس کی تعریف کرتے ہیں“ یہ سُن کر میرے چہرے پر ٹوٹی فروٹی فلیور ایکسپریشن تھے اور دل میں دعا تھی کہ خدا سب کو اتنے اچھے ڈاکٹر سے ہمیشہ محروم رکھے۔

یہ تھی وہ قوم پرستی، وسائل، اختیار کی جنگ جو سندھ کے تعلیمی میدان میں بھی لڑی گئی جس میں مخالف دھڑوں نے اپنے اپنے لوگوں کو مصنوعی اور وقتی فا ئدے پہنچانے کے لئے تعلیم، امتحان کے تقدس کی بے حرمتی کر کے ایک نہیں تمام سرکاری اداروں کو بربادکر دیا۔ آج پورا سندھ پر َ نُچے پرندے کی طرح ہانپ رہا ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کے نوجوان حقوق اور ترقی کے پُر فریب نعرے سنتے جوانی لٹا بیٹھے نہ قابلیت ہاتھ میں ہے نہ ہنرپاس۔

رہے لیڈرکچھ پہلے ہی جاگیروں والے تھے کچھ نیتا بن کے امیر ہوگئے اقتدارکا سورج غروب ہوا تو پردیس سدھار گئے یا اتنے اثاثے بنانے میں کامیاب ہو گئے کہ اب ان کی کئی نسلوں کو عام آدمی کی طرح سرکاری اسپتالوں اور اسکول کالجز میں خوار ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اپنے بھروسے رہنا، پڑھتے رہنا، سیکھتے رہنا انقلاب کے بعد بھی گھر غریب نے خود چلانا ہوتا ہے صاحب لوگوں نے پھر کسی نئے سیاسی جھگڑے میں تمہیں بھول جانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).