“قاضی العلما”عثمان قاضی کے ساتھ ایک شام


کہانیوں، کتابوں اور روایات میں بعض شخصیات کا تذکرہ ہوتا ہے کہ کیسے کیسےعالم، کیسے نابغے ہوا کرتے تھے۔ کیسی کیسی یادداشت اور کیا مطالعہ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں پڑھتے ہوئے یہ لوگ کسی دیومالائی کہانی، کسی الف لیلی کا کردار لگتے تھے۔ وقت اور شعور کے ساتھ معلوم ہوا کہ یہ اساطیری باتیں نہیں۔ ایسے لوگ خال خال ہی سہی، اسی دنیا کا حصہ ہوتے ہیں جنہیں قدرت فیاضی کے ساتھ علم اور علم سے محبت عطا کرتی ہے۔

سوشل میڈیا کا بالعموم اور “ہم سب” کا بالخصوص شکریہ کہ یہ ذرائع ایسے کچھ لوگوں سے تعارف کا ذریعہ ٹھہرے۔ بھائی وجاہت مسعود کی مہربانی کہ انہوں نے ایک سے بڑھ کر ایک خوشنما پھول گلدستہ میں سجا رکھا ہے۔ اسی رنگا رنگ اور قسم ہا قسم گلدستے میں بعض پھول گلاب کی سی خوشنمائی، خوشبو اور انفرادیت رکھتے ہیں۔

حاشر ابن ارشاد کے ساتھ ایک یادگار شام کے بعد برادرمحترم عثمان قاضی کے ساتھ ایک خوبصورت شام میں شرکت کا موقع ملا۔ بلکہ اسلام آباد سے بحریہ راولپنڈی تک ہم سفری بھی رہی۔ قاضی بھائی، اللہ بخش صاحب، حسنین جمال اور خاکسار ایک ہی گاڑی میں کافی پلانیٹ تک اور پھر واپس گھر بھی پہنچے۔

یوں تو ہمارے ہاں چار کتابیں پڑھ اور دو حرف لکھ لینے والا بزعم خود عالم فاضل اور توپ قسم کی چیز بن جاتا ہے لیکن یہ اصطلاح حقیقی معنوں میں عثمان قاضی جیسے کچھ لوگوں کو ہی زیبا ہے۔ پڑھے لکھے والدین، کتاب اور علما سے تعلق بلکہ بہت گہرے تعلق نےعثمان قاضی کو ہیرے سے زیادہ پارس بنا دیا ہے۔ دنیا جہان کے علوم پر بات کرلیں، سائنس، انجینئرنگ، سیاحت، مذہب، فلسفہ، منطق، سیاست، شاعری، ادب، تاریخ، معاشیات، معاشرت، شخصیات آپ جس مرضی موضوع پر قاضی سے بات کرلیں۔ باقاعدہ کتاب اور فرد کے حوالےکے ساتھ علم میں مستند اضافہ ہوگا کہ کتاب کے ساتھ فرد کے حدود اربعے سے بھی واقف ہوں گے۔ بقول فرنود عالم “کتاب کا نام لیجیے، عثمان صاحب نے پڑھی ہوتی ہے،افسوس تو یہ کہ کتاب انہیں یاد بھی رہتی ہے۔”

یہی وجہ تھی کہ اس شام بھی خوبصورت لہجے اور دھیمے انداز والے قاضی سے مختلف موضوعات پر سننے والوں میں اقبال احمد، عاصم بخشی، جمشید اقبال، ارشد محمود، مظفر بخاری، سلیم ملک، ظفر عمران ،علی زریون جیسے علم دوست حضرات موجود تھے۔ محفل میں عثمان قاضی کی شخصیت کے کئی رنگ سامنے آتے رہے۔ شعر وادب اور اس پر عثمانی لہجہ قیامت ڈھاتا رہا۔ اردو کے علاوہ ہندی اور انگریزی ادب اور ناول کی بات چلی۔ انگریزی نظم اور اس کا منظوم ترجمہ۔ درزبان کوئٹہ ایک خط اور بلوچستان کی محرومیوں اور المیوں کی داستان۔ کئی جملے، کئی باتیں حاضرین کے دلوں کو چھوتی رہیں اور بے ساختہ واہ واہ سے خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا۔ وطن عزیز کا ”ایک قاضی” ڈیم کی سائنس جانے بغیر قوم کو ڈیم فول بناتا رخصت ہوا لیکن ہماراقاضی واٹر مینیجمنٹ کو سمجھتے، تجربہ رکھتے ہوئےبہتے پانیوں کا طرفدار نکلا۔

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے

یدبیضا اور حاشر کے سوالات اور حسنین کا فیس بک لائیو جس سے بیسیوں لوگ مستفیض ہوئے بلکہ مسلسل ہورہے ہیں۔

عثمان قاضی کے ایک کالم پر حاشر بھائی نے خوبصورت تبصرہ کیا تھا کہ ایسے کالم کی واحد خامی یہ ہوتی ہے کہ یہ ختم ہوجاتا ہے۔ یہی اس نشست کی بھی واحد خامی تھی کہ یہ بھی بہت جلد ختم ہوگئی۔ ڈھیروں باتیں کرنی رہ گئیں۔ لیکن پوچھنے والے بھی کہاں تک پوچھتے، ظالم ہر موضوع پر تو بول سکتا ہے۔ لینہ آپا اور ظفراللہ خان کی میزبانی سے لطف اندوز ہو کر رات گئے ہم چاروں واپس لوٹ آئے لیکن یہ لوٹنا بدھوؤں کا لوٹنا نہیں تھا کیونکہ عثمان قاضی کی بکھیری خوشبو سے مقدور بھر ہم سب معطر تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).