ہالینڈ میں دہشت گردی: نعرے بازی سے ہونے والا نقصان


یہ محض اتفاق بھی ہوسکتا ہے بلکہ شاید اتفاق ہی ہوگا کہ گزشتہ روز ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے نیوزی لینڈ کے دہشت گرد کی ویڈیو دکھا کر سفید فام لوگوں پر ترک دشمنی کا الزام لگایا تو آج ہالینڈ کے شہر اوٹریکٹ میں ایک 37 سالہ ترک نژاد شخص نے متعدد مقامات پر فائرنگ کرکے کم از کم تین افراد کو ہلاک کردیا۔ آخری اطلاعات موصول ہونے تک پولیس گوکمان تانیس نامی شخص کو ایک ٹرام پر فائرنگ کرکے تین افراد کو ہلاک کرنے اور دہشت گردی کے الزامات میں تلاش کررہی تھی۔ پولیس نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس شخص سے چوکنے رہیں اور خود اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اس خطرناک شخص کے بارے میں پولیس کو مطلع کیا جائے۔ ملک کی تمام مساجد بند کردی گئی ہیں اور مساجد کے علاوہ ائیرپورٹس پر سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

کرائسٹ چرچ میں پچاس مسلمانوں کے المناک قتل اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم ، حکومت اور عوام کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ مثالی اظہار یک جہتی کے روشن مظاہرے کے تیسرے ہی روز ایک مسلمان باشندہ ایک یورپی ملک میں دہشت گردی کی ایک واردات میں ملوث ہؤا ہے۔ ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک روٹے نے اس صورت حال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے شہریوں کو اطمینان دلانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ابھی اوٹریکٹ کی فائرنگ میں ملوث شخص گرفتار نہیں ہؤا ۔ اس لئے اس کے اسباب اور اس شخص کی ذہنی کیفیت اور مقاصد کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا ۔ لیکن یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ کرائسٹ چرچ حملہ کے بعد نیوزی لینڈ، آسٹریلیا کے علاوہ یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کے لئے ہمدردی کی جو لہر ابھری تھی اور سیاسی نظریہ کی بنیاد پر جان لیوا تشدد کی مذمت کرتے ہوئے مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اسلاموفوبیا کے حوالے سے جو رائے عامہ ہموار ہورہی تھی، ہالینڈ میں دہشت گردی کے بعد اس کام کو نقصان پہنچے گا۔

مسلمان لیڈروں نے نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے یہ نکتہ سامنے لانے کی کوشش کی تھی کہ دہشت گردی کا کسی ایک عقیدہ اور مذہب سے تعلق نہیں ہوتا۔ اس طرح اسلام اور دہشت گردی کو خلط ملط کرنے کے طرز عمل کو مسترد کرنےکی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ برینٹن ٹیرینٹ نے خود کو ایک فسطائی اور سفید فام برتری کا نمائندہ قرار دیا ہے لیکن مسلمان معاشروں میں اس سانحہ کو ایک عیسائی کے مسلمانوں پر حملہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش بھی کی جارہی تھی۔ اب ایک مسلمان نے ایک عیسائی معاشرہ میں دہشت گردی کی ایک نئی واردات کے ذریعے ایک بار پھر لوگوں کو عقیدہ اور نسل و رنگ کے خانوں میں بانٹنے کے مزاج کو قوت دینے فراہم کی ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ ترک صدر طیب اردوان نے بھی کرائسٹ چرچ میں حملہ کو مسلمانوں کو مظلوم ثابت کرنےا ور مغربی ممالک کو شرمندہ کرنے کا ہتھکنڈا بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس مؤقف کا مقصد اپنی مسلمان آبادیوں کے دکھ اور جذبات کا استحصال کرتے ہوئے ، ایک سیاسی سلوگن بلند کرنے سے زیادہ نہیں تھا۔ طیب اردوان نے گزشتہ روز اسی مقصد سے ٹیرنٹ کی بنائی ہوئی ویڈیو کو ایک جلسہ عام میں دکھا کر یورپ اور سفید فام نسل کے خلاف لوگوں کے اشتعال یا صدمے سے فائدہ اٹھاکر انتخابات میں ووٹروں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ۔

صدر اردوان نے ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جمعہ کے روز نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر حملہ کرکے پچاس لوگوں کو ہلاک کرنے والے دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کی بنائی ہوئی ویڈیو سامعین کو دکھائی تھی ۔ یہ ویڈیو ٹیرینٹ نے دو مساجد میں قتل عام کے دوران خود لائیو اسٹریم کی تھی۔ دنیا کی بیشتر حکومتوں نے اس انسانیت سوز ویڈیو کو نشر کرنے یا دوسروں کو بھیجنے کی ممانعت کی ہے اور فیس بک نے حملہ کے چوبیس گھنٹے کے دوران پندرہ لاکھ اکاؤنٹس سے اس ویڈیو کو ہٹایا تھا۔ اس کے باوجود لوگوں نے نجی طور پر اور متعدد میڈیا چینلز نے اس ویڈیو یا اس کی تصاویر کو نشر کرنا ضروری سمجھا۔ ترک صدر نے انتخابی ریلی میں یہ ویڈیو دکھا کر دلیل دی تھی کہ سفید فام نسل پرست ، ترک قوم کو اس کے اپنے علاقے سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ طیب اردوان کے اس سیاسی عمل کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے سیاسی جلسہ میں ایک انسانی المیہ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کیا۔

نیوزی لینڈ کی حکومت نے اس طرز عمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے۔ وزیر خارجہ ونٹسن پیٹرز کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے دنیا میں نیوزی لینڈ کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے اور لوگوں کے ذہن میں ایسی تصویر نقش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو نیوزی لینڈ کے تشخص کی نمائندہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح تشدد سے بھرپور ویڈیو کی تشہیر سے دنیا بھر میں نیوزی لینڈ کے باشندوں کی سلامتی کو اندیشہ لاحق ہوسکتا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آج ہالینڈ مین تین لوگوں کی ہلاکت کا سبب بننے والے ترک نژاد شخص کے فعل پر اپنے ملک کے صدر کی باتوں کا کس قدر اثر تھا لیکن اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ جب کسی ملک کا لیڈر کسی المیہ پر اصولی بحث اور مؤقف سامنے لانے کی بجائے، اسے جذباتی کیفیت پیدا کرنے، قوم پرستی کو ابھارنے یا کسی ایک خاص طرح کے لوگوں پر الزام لگانے کے لئے استعمال کرے گا تو اس سے نفرت اور فاصلوں میں اضافہ ہوگا۔ نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر حملے اور وہاں پچاس بے گناہ نمازیوں کی شہادت سے صرف یہی سبق اخذ ہو سکتا ہے کہ دنیا کو سب لوگوں کے رہنے کے قابل بنانے اور امن و آشتی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے فاصلے اور نفرتوں کو ختم کرنا ضروری ہے۔

نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد اب ایک مسلمان کے ہاتھوں ہالینڈ کے تین بے گنا ہ لوگوں کے قتل سے دہشت گردی کے خلاف پیدا ہونے والے اتفاق رائے میں دراڑ پڑ سکتی ہے۔ مسلمانوں کے بعض کوتاہ نظر نمائندوں کی طرف سے نیوزی لینڈ سانحہ کے بعد اسے عیسائی بمقابلہ مسلمان کا ماحول پیدا کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ یورپی ملکوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں تشدد کے واقعات میں ہلاکتوں کے بعد بھی بعض انتہا پسند عناصر اسلام اور مسلمانوں پر الزام تراشی کرتے ہیں اور دہشت گردی کا تعلق ان کے عقیدہ اور سماجی و معاشرتی رویوں سے جوڑتے ہیں۔ امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک اور بھارت سے لے کر یورپی ملکوں تک مسلمانوں اور دہشت گردی کو ملاکر دیکھنے کا ایک عمومی رویہ مستحکم ہؤا ہے اور انتہا پسند لیڈروں نے اس صورت حال کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کی ہے۔

 یورپی ملکوں کے متعدد مین اسٹریم لیڈر اس صورت حال سے نمٹنے اور مسلمانوں کے خلاف ایک گروہ کے طور پر پیدا ہونے والی نفرت کو قابو میں رکھنے کی خواہش کے باوجود ، اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پاتے۔ قوم پرست اور تارکین وطن دشمن پارٹیاں سویڈن سے لے کر بلجئیم اور فرانس تک قوت پکڑ رہی ہیں۔ متعدد یورپی ملکوں میں ایسے انتہا پسندانہ سیاسی نظریات رکھنے والی پارٹیوں کی سیاسی نمائندہ حیثیت کی وجہ سے انہیں حکومت سازی میں شریک کیا جارہا ہے ۔

البتہ بعض ممالک میں مسلسل ایسے سیاسی عناصر کے خلاف مین اسٹریم پارٹیاں مزاحمت بھی کررہی ہیں۔ لیکن جمہوریت میں اگر ہزار خوبیاں ہیں تو یہ ’برائی‘ بھی موجود ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے لوگوں کی اہمیت کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے سب سے اہم یہ ہے کہ عوام کو نسل پرستی کی طرح مذہبی شدت پسندی سے گریز کی طرف راغب کیا جائے ۔ اس کے علاوہ دو تاثر ختم کرنے کے لئے کام کرنا اہم ہے ۔ ایک یہ کہ تارکین وطن مقامی باشندوں کے روزگار چھین رہے ہیں اور دوسرے یہ کہ مسلمان تارکین وطن کی وجہ سے معاشروں میں دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس تناظر میں ہالینڈ کے مسلمان حملہ آور نے مسلمانوں کے کاز کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

مسلمان لیڈروں کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ مذہب کو سیاست کا موضوع بنا کر وہ ان مسلمانوں کی کوئی خدمت نہیں کرسکتے جو روزگار کی تلاش میں مغربی ممالک میں جا کر آباد ہوئے ہیں اور ان معاشروں میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے گزشتہ تین روز کے دوران اسلاموفوبیا کے خلاف کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس مقصد کے لئے  جمعہ کے روز استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی منعقد ہونے والا ہے۔ اس حوالے سے یہ بنیادی نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان اکثریت والے ممالک اپنی اقلیتوں کی حفاظت اور عقیدہ کو دہشت گردی کے عذر کے طور پر استعمال کرنے کے مزاج کو تبدیل کرکے ہی مغرب اور امریکہ و آسٹریلیا میں آباد مسلمانوں کے بارے میں منفی رویہ کو بدلنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

 کرائسٹ چرچ کے سانحہ کو مسلمانوں کی مظلومیت اور اپنی سچائی کا اشتہا ر بنانے کی بجائے، اس سے نفرت اور تعصبات کے خلاف کام کرنے کا سبق سیکھا اور عام کیا جائے۔ دوسروں کے تعصبات پر بات کرنے سے پہلے اپنے دلوں میں دوسروں کے لئے بھری ہوئی نفرت و عناد کو ختم کرنا ضروری ہے۔ مسلمان لیڈر الزام تراشی کرنے اور سیاسی تماشہ لگانے کی بجائے، اپنے لوگوں میں مفاہمت اور احترام کا جذبہ عام کرسکیں تب ہی وہ ایک بہتر اور پر امن دنیا کے لئے کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایسی ہی دنیا میں دوسرے لوگوں کی طرح اسلام پر عمل کرنے والوں کے خلاف بھی نفرت و تعصب ازخود ختم ہوجائے گی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali