دو نمبر لڑکی


وہ خوبصورت تو نہیں تھی لیکن اسے خوش شکل کہہ سکتے ہیں۔ سلیو لیس کپڑوں میں اپنے انداز سے ماڈرن دکھائی دیتی تھی۔ اس کی عمر بیس اکیس برس ہوگی۔ میں اور عامر اس وقت جناح سپر مارکیٹ کے ایک کافی سٹال پر تھے۔ وہ لڑکی چلتے چلتے ہمارے قریب سے گزری۔ اسی دوران اس نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ہم پر ڈالی اور آگے بڑھتی چلی گئی۔ ”شرط لگا لو یہ لڑکی دو نمبر ہے۔ “ عامر نے کافی کا سپ لیتے ہوئے کہا۔ ”جانے دو یار کیوں کسی شریف لڑکی پر تہمت لگا رہے ہو۔ “ میں نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔

عامر کو شاید یہ بات بری لگی کہ میں نے اس کے گیان پر شک کیا ہے۔ وہ پوری سنجیدگی سے مجھے یقین دلانے لگا کہ وہ لڑکیوں کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور محض ایک نظر دیکھ کر بتا سکتا ہے کہ لڑکی کا کریکٹر کیسا ہے جب کہ میں مصر تھا کہ ظاہر سے کسی کے باطن کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ ”اچھا آؤ ذرا اس کا تعاقب کرتے ہیں ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ “ عامر نے تنگ آ کر کہا۔ میرے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ اس سمت چل پڑا جدھر وہ لڑکی گئی تھی۔

میں لپک کراس کے ساتھ چلنے لگا۔ عامر بھی ان لوگوں میں سے ہے جو ہار ماننا اپنی توہین سمجھتے ہیں اگر ایسی کوئی صورتِ حال ہو تو پھراس کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ میں اس کی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ عجیب بات تھی لیکن اس شام ہمیں کوئی خاص مصروفیت بھی در پیش نہیں تھی۔ جلد ہی وہ ہمیں نظر آ گئی۔ وہ ایک کپڑوں کی دکان میں داخل ہو رہی تھی۔ یہ بہت اعلیٰ معیار کی دکان تھی جہاں بہت مہنگے ملبوسات تھے۔

میں اور عامر بھی دکان میں داخل ہو گئے۔ ہم یونہی ڈریسز دیکھنے لگے۔ نظر اس پر تھی۔ وہ بڑی دلچسپی سے مختلف ملبوسات کا جائزہ لے رہی تھی۔ پرائس ٹیگ چیک کرتی تھی۔ پھر ایک لباس اسے پسند آ گیا۔ وہ اسے اسے مختلف زاویوں سے چیک کر رہی تھی۔ ”دیکھ لو وہ خریداری کرنے آئی ہے، ابھی یہ لباس خرید کر چل دے گی۔ “ میں نے سرگوشی کی۔ ”خاموش! تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو۔ “ عامر نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ پھر ایسا لگا جیسے اس لڑکی کا ارادہ بدل گیا وہ اس دکان سے نکل گئی۔ ظاہر ہے ہم وہاں کیسے رک سکتے تھے۔

چند لمحوں بعد ہم نے اسے اس طرف جاتے دیکھا جدھر جیولری شاپس تھیں۔ پہلے وہ مختلف دکانوں کے باہر سے گزرتے ہوئے جیولری سیٹس کو دیکھتی رہی جو اس مقصد کے تحت ہی رکھے گئے تھے کہ گاہک باہر ہی سے شیشے میں سے سیٹ دیکھ کر متوجہ ہوں پھر ایک دکان کے اندر چلی گئی۔ شیشے میں سے اسے دیکھا جا سکتا تھا۔ ہم باہر سے جائزہ لیتے رہے۔ چند منٹ اس دکان میں گزارنے کے بعد وہ یہاں سے نکلی اور آگے بڑھ گئی۔ اب اس کا رخ ایک شاپنگ مال کی طرف تھا۔

”میرا خیال ہے اب اس کا پیچھا چھوڑ دینا چاہیے، آؤ کسی ریسٹورانٹ میں کھانا کھاتے ہیں۔ “ میں نے عامر سے کہا۔ ”تو پھر یہ کیسے پتا چلے گا کہ میں نے جو کہا تھا وہ ٹھیک تھا۔ “ عامر نے تیز لہجے میں کہا۔ ”چلو میرے ساتھ۔ “ ہم بھی شاپنگ مال میں داخل ہو گئے۔ یہاں بھی اس لڑکی نے مختلف دکانوں میں کچھ وقت گزارا لیکن خریدا کچھ بھی نہیں تھا۔ میں کچھ اکتا سا گیا تھا۔ لڑکی وہاں سے بھی نکل آئی اور پیٹرول پمپ سے آگے چلتے چلتے ایک بیکری میں داخل ہو گئی۔

”اچھا اب مجھے جانے دو تم تحقیق کرتے رہو کہ یہ ایک نمبر ہے یا دو نمبر۔ “ میں نے بالآخر کہہ دیا۔ ”شرط لگا لو یہ لڑکی گاہک ڈھونڈ رہی ہے۔ “ عامر بولا۔ ”ایک تنہا لڑکی دیکھ کر الزام مت لگاؤ۔ مجھے ایسی کوئی بات نہیں لگتی۔ “ میں نے فوراً کہا۔ ”تو پھر ڈر کس بات کا لگاؤ دو ہزار روپے کی شرط۔ میں بھی ثابت کر دوں گا کہ یہ دو نمبر ہے۔ “ عامر نے زور دے کر کہا۔

”اچھا کرو ثابت میں ہار گیا تو اسی وقت دو ہزار تمہارے ہاتھ پررکھ دوں گا۔ “ میں نے کہا۔ عین اسی وقت وہ لڑکی باہر آئی۔ اس کے ہاتھ میں آئس کرم کپ تھا۔ وہ آئس کریم کھاتے ہوئے باہر نکلی تھی۔ ”یہاں رکو اور دیکھو میں کیسے ثابت کرتا ہوں۔ “ عامر آگے بڑھ گیا۔ وہ اس لڑکی کے پاس جا کر اس سے باتیں کرنے لگا۔ میں دور سے یہ منظر دیکھتا رہا۔ اس دوران عامر نے میری طرف اشارہ کیا۔ اس لڑکی نے مجھے دور سے دیکھا۔ گفتگو جاری رہی۔ پھر وہ دونوں میری طرف آنے لگے۔

میں سوچ رہا تھا کہ عامر نے اسے پتا نہیں کیا کہانی سنائی ہے اور وہ لڑکی نہ جانے کیا کہے گی۔ جب وہ میرے قریب آئی تو گہری نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں تذبذب کے عالم میں ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ ”ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔ تین ہزار میں بات طے ہوئی ہے۔ میں نے اسے بتا دیا ہے کہ تم تنہا ہو اور اس کی حسین رفاقت سے حظ اٹھانا چاہتے ہو۔ اب بتاؤ اسے کہاں لے جانا ہے۔ “ عامر نے آنکھ دباتے ہوئے کہا۔ نہ جانے کیوں مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔ عامر میرے سامنے سینہ پھلائے کھڑا تھا۔ میں نے جیب سے دو ہزار نکال کر عامر کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ ”اچھا اب تم جاؤ، تخلیہ۔ “ میں نے عامر کوگھورتے ہوئے کہا۔

”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے مجھے بھی کباب میں ہڈی بننے کا کوئی شوق نہیں۔ “ عامر نے مصنوعی غصے سے کہا اور چلتا بنا۔ میں لڑکی کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ بھی میری طرف دیکھ رہی تھی۔ انداز سے خاصی پر اعتماد نظر آ رہی تھی۔ ظاہر ہے اس طرح کے کاروبار میں پر اعتماد لوگ ہی ترقی کرتے ہیں۔ جبکہ میری حالت اس کے بر عکس تھی کیونکہ میں اس فیلڈ کا آدمی نہیں تھا۔ بات مذاق ہی مذاق میں یہاں تک آن پہنچے گی اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔

”کیا بات ہے؟ کس سوچ میں گم ہو؟ “ لڑکی بولی۔ میں سوچ رہا تھا کہ مناسب الفاظ میں اس سے معذرت کروں اور اپنی راہ لوں۔ مجھے اس لڑکی پر غصہ بھی آ رہا تھا۔ اس کی وجہ سے میں شرط ہار گیا تھا۔ ”کیا ڈر لگ رہا ہے؟ “ لڑکی نے لفظ چباتے ہوئے کہا۔ ”ایسی کوئی بات نہیں۔ در اصل میں تمہیں کہیں لے جا نہیں سکتا۔ “ میں نے تمہید باندھی۔ ”یہ تو بہت اچھی بات ہے، میں کسی کے ساتھ جاتی بھی نہیں، تمہیں میرے ساتھ چلنا پڑے گا۔ “ وہ بولی۔

”اؤ کے تو چلو۔ میری گاڑی یہاں قریب ہی کھڑی ہے۔ “ میں نے سوچا چلو اس کھیل کو تھوڑا آگے بڑھاتے ہیں۔ پھر اس سے پوچھوں گا کہ وہ اس کاروبار میں کیسے آئی۔ شاید کوئی نئی کہانی مل جائے۔ لڑکی میرے ساتھ چل پڑی۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی اس کی ہدایات کے مطابق رواں دواں ہو گئی۔ ”تمہارا نام کیا ہے؟ “ میں نے چند منٹ کی خاموشی کے بعد پوچھا۔ ”چھوڑو نام میں کیا رکھا ہے۔ “ اس نے کہا۔ معقول جواب تھا میں خاموش ہو گیا۔

وہ مجھے کھنہ پل کے پاس ایک آبادی میں لے آئی۔ پھر ایک گھر کے باہر گاڑی رکوا دی۔ یہ ایک عام سا گھر تھا۔ جیسے مڈل کلاس لوگوں کے گھر ہوتے ہیں۔ میں کچھ حیران ہوا میرا خیال تھا کہ وہ کسی پوش علاقے کے خوبصورت فلیٹ میں لے جائے گی۔ بہر حال گاڑی سے اتر کر اس نے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا میں چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑا۔ دروازے پر رک کر اس نے پرس سے چابی نکالی اور دروازہ کھولا۔ ”اندر آؤ۔ “ اس نے مڑ کر مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔

میں اس کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ ”آ گئی بیٹی! “ اندر کمرے میں بیڈ پر نیم دراز بوڑھی عورت نے موٹے موٹے شیشوں والی عینک سے اسے دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ”ہاں ماں آ گئی۔ “ لڑکی نے آگے بڑھ کر بوڑھی عورت کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ ”یہ میری ماں ہے، ان کی نظر بہت زیادہ کمزور ہے۔ “ لڑکی بولی۔

”یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ “ بوڑھی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں اسے اچھی طرح نظر نہیں آ رہا ہوں۔ ”ہمارے مہمان ہیں ماں۔ کھانا کھا کر جائیں گے لیکن پہلے میں تمہیں کھانا بنا دیتی ہوں۔ “

”اچھا اچھا! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اس گھر میں مہمان کہاں آتے ہیں۔ “ بوڑھی عورت نے خوش ہو کر کہا۔ لڑکی نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کچن میں چلی گئی۔ میں حیرت سے اس ماحول کا جائزہ لے رہا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہوں۔ میں نے کال گرلز کے حوالے سے جو کچھ سنا تھا۔ یہ لڑکی بہت مختلف لگ رہی تھی۔ جب بھی میں اسے دیکھتا تھا مجھے اس کی آنکھوں میں معصومیت نظر آتی تھی۔ اسے دیکھ کر کوئی بے ہودہ خیال دل میں نہیں آتا تھا۔ میں خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس لڑکی نے ماں کو کھانا دیا۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئی۔ ”آؤ“ اس نے آہستہ سے کہا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2