تعلیم یافتہ لوگ لوگوں کو کیا بتائیں؟


کل میں ‌معاشرے کے ایک اہم فرد سے مغز ماری کرتا رہا کہ ہم پڑھے لکھوں کو لوگوں کو کیا بتانا چاہیے مگر انہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ میں کوئی دیوانہ ہوں جو عام روش سے ہٹ کر بات کروں تاکہ لوگ نہ صرف یہ کہ مجھ سے ملنے سے گریزاں ہوں بلکہ عین ممکن ہے میرا ناطقہ بند کر دیں۔

بات ہو رہی تھی نام نہاد میڈیا کی جانب سے دماغ میں ٹھونسے جانے والے خیالات و نظریات کی۔ کہ جو روش اس وقت عمومی طور پر عالمی میڈیا اور خصوصی طور پر پاکستان کے طفیلی میڈیا نے اختیار کی ہوئی ہے اس سے لوگوں کے اذہان کی سمت کے تعین کا کام لیا جا رہا ہے۔ ہم تعلیم یافتہ لوگوں کا کام ہے کہ بین السطور جاننے کی کوشش کرتے ہوئے جو بات درست سمجھ آئے اسے زبانی یا سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچائیں۔

حقیقت یوں ہے کہ تجزیہ نگار اپنی صنف میں بڑھئی سے مماثل ہوتے ہیں جنہوں نے مثال کے طور پر ویسی ہی میز گھڑنی ہوتی ہے جس نگاہ سے وہ میز کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ میز کے کامل پن کو وہی جانتا ہے جس نے اجزاء تیار کرکے میز تیار کی ہوتی ہے جو مختلف زاویوں سے دیکھنے والے کو مختلف دکھائی دیتی ہے۔ میز کی حقیقت اور مخفی اوصاف کو بنانے والا میز کو کبھی مکمل آشکار نہیں ہونے دیتا۔

ملک کے سیاسی، معاشی حالات سے متعلق جو حقائق ہیں وہ بالادست ہئیت مقتدرہ کبھی سامنے نہیں آنے دیتی۔ اس کے برعکس مخصوص صحافیوں کے ذریعے لوگوں کی اذہان سازی کی جاتی ہے یعنی دماغ خراب کیا جاتا ہے، خاص طور پر بے خبری اور بدخبری پھیلائی جاتی ہے تاکہ لوگ مبینہ طور پر زیر حراست ”اسرائیلی پائلٹ“ کی بات کریں یہ بھول جائیں کہ ایف اے ٹی ایف کی سر پر لٹکتی تلوار کیا انتباہ کر رہی ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ بہت پہلے سے طے بجلی اور گیس کی قیمتیں کس طرح بڑھائی گئیں، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی چھلانگیں کیونکر لگیں اور ڈالر کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے پہلے ڈیڑھ سو روپے کی قیمت تک کیسے پہنچایا جائے گا۔

ہمارے وزیر خزانہ تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ معاشی حالات ٹھیک ہوتے ہیں تو مہنگائی بڑھا کرتی ہے البتہ ہم نے یہ دیکھا کہ جب 18 مارچ 2014 میں یوکرین کے تحت کریمیا نے ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں روس کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کیے تھے تب امریکہ اور یورپ نے روس کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں جن میں وقت کے سات ساتھ اضافہ کیا جاتا ہے یوں روس کے معاشی حالت خراب تر ہوئے اور مہنگائی میں اضافہ۔

دیکھیے دنیا میں کہیں بھی سرمایہ کار تب تک نہیں آتے جب تک اس ملک میں ایک تو یہ کہ امن نہ ہو، دوسرا یہ کہ لوگوں کے اذہان متشددانہ بنیاد پرستی سے صاف نہ ہوں، تیسرے یہ کہ ہمسایوں کے ساتھ تعلقات پر امن نہ ہوں، چوتھے یہ کہ سیاسی استحکام نہ ہو۔ پاکستان کی ہندوستان کے ساتھ دشمنی، افغانستان کے ساتھ آویزش اور ایران کے ساتھ سرد مہری، لوگوں میں اضطراب اور ہیجان، معاشی بے یقینی، سیاسی طور پر معلوم ہی نہ ہو کہ حکومت ان کی ہے یا ان کی یہ سب سرمایہ کار کو یہاں آنے سے روکتے ہیں۔

جب تک سرمایہ کار نہیں آئیں گے تب تک صنعت کاری نہیں ہوگی۔ بڑی حد تک صنعت کاری کے بغیر مختلف مزاج، روایات اور مذہبی رویوں کے حامل لوگوں کا اختلاط ممکن نہیں ہوا کرتا۔ جب تک اختلاط باہمی نہ ہو تب تک رواداری جنم نہیں لیتی، رواداری کے بغیر معاشرے میں باہمی اعتماد کی فضا نہیں بنا کرتی، آویزش امن کا الٹ ہے۔

تعلیم یافتہ لوگوں کو چاہے ڈاکٹر ہوں یا انجنئیر، پروفیسر ہوں یا دیگر شعبوں سے وابستہ کہ پرنٹ میڈیا پہ پڑھی اور ڈیجیٹل میڈیا سے سنی باتوں کے اندر سے بات نکالنے کی کوشش کرکے لوگوں تک پہنچائیں۔ ایک متبادل میڈیم کی صورت اختیار کریں۔

ویسے نہ بنیں ‌ جیسے مضمون کے آغاز میں جن کا ذکر ہے بلکہ رومان پرست صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کے خانوادے سے خواجہ محمد عالم کوریجہ کی طرح ہوں جنہوں نے کل مجھ سے پوچھا کہ آپ 27 برس سے ملک سے باہر ہیں، مختلف اذہان کے لوگوں سے ملے ہوں گے، آپ نے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہمیں لوگوں کو کیا بتانا چاہیے تاکہ وہ سیکھیں۔ میں نے عرض کہ ایک تو میرے اتالیق ماسٹر فدا حسین گاڈی کا سبق ہے کہ لوگوں میں ان کی ثقافت کی ترویج کی جانی چاہیے ثقافتی ناستلجیا کو بڑھاوا دیے بغیر دوسرے لوگوں تک وہ سچ پہنچانا چاہیے جو قابض ہئیت مقتدرہ، اپنی زندگی میں معاشی انقلاب لے آنے والے اینکر پرسنز اور سٹیٹس کو کے حامی تجزیہ کار نہیں بتاتے مگر خواجہ صاحب آپ جیسے لوگ میز کو الٹ پلٹ کرکے میز کو حقیقی طور پر عیاں کرنے کے یقیناً قابل ہیں تو وہی کیجیئے، لوگوں کو میز کی اصلیت سے آگاہ کیجیے۔ وما علینا الالبلاغ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).