عثمان بزدار پر عمران خان کو حیرت!


عثمان بزدار پر خان صاحب کو حیرت ہونا، میرے لیے سرپرائز ہے۔ خان صاحب نے جب جناب عثمان بزدار کو وزیر اعلی پنجاب لگایا، تو ایک وڈیو پیغام جاری کیا، جس میں خان صاحب نے ایک عجیب میرٹ بتایا کہ عثمان بزدار کا تعلق پسماندہ علاقے سے ہے، ان کے گھر بجلی نہیں ہے، یہ غریب کی پریشانی، اور ان کی مشکلات جانتا ہے،

عمران خان کے اس فیصلے پر اپنی پارٹی کے اراکین نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، پر خان صاحب کے نزدیک یہ ان کا وسیم اکرم نہیں، وسیم اکرم پلس ثابت ہوں گے، آہستہ آہستہ سب نے اس کڑوی حقیقت کو مان لیا، اور عثمان بزدار کو تھوڑا وقت دے دیا، عمران خان کے سو روزہ پلین کی تقریب پر ریفارمز کے خواب دیکھا کر عوام کو ایک مرتبہ بیوقوف بنا دیا گیا۔

بارہ کڑور کا سب سے بڑا صوبہ ایک نا تجربہ کار اور اناڑی بندے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، سب یہ سوچ رہے تھے، کہ سو روزہ پلین کا جائزہ لیتے ہوئے خان صاحب وسیم اکرم پلس کی سرزنش یا ان کو ہٹانے کا اشارہ دیں گے، پر عمران خان نے سو روزہ کارکردگی کو پچھلے دس سالوں سے بہتر قرار دے دیا۔ ایک درجن لوگ جناب عثمان بزدار کے مشیر اور ترجمان ہیں۔

اب کچھ ان واقعات کا احاطہ کرتے ہیں، جنہوں نے عمران خان کے بنائے ہوئے اصولوں کی دھجیاں بکھیر دیں اور بے عزت بھی بہت کیا پر عمران خان کو حیرت نہیں ہوئی۔

عثمان بزدار جب بھی کہیں جاتے ہیں، جناب کے ساتھ پچاس سے زائد گاڑیوں کا پروٹوکول ہوتا ہے، راستے میں آنے والی تمام دکانیں بند کروا دی جاتی ہیں، پاکپتن شریف جاتے ہیں، تو عام لوگوں کو باہر نکال دیا جاتا ہے، وہ شرم کا مقام تھا پر خان صاحب کو حیرت نہیں ہوئی۔

ڈی پی او پاکپتن شریف کا رات ایک بجے تبادلہ کر دیا، ایک پرائیویٹ شخص سہیل گجر کے کہنے پر، اور اس شخص نے رضوان گوندل کو خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر معافی بھی مانگنے کو کہا، سپریم کورٹ نے سماعت کرتے ہوئے کہا، کیوں نا ہم عثمان بزدار پر آرٹیکل 62، 63 لگا دیں، سپریم کورٹ نے جب سہیل گجر سے کہا کہ اپ نے کس حیثیت سے رضوان گوندل کو حکم صادر فرمائے، تو کہتے ہیں میں وزیر اعلی کا قریبی دوست ہوں، وزیر اعلی نے آ کر عدالت عالیہ سے معافی مانگی، اور کہا میں ایک قبیلے کا سردار بھی ہوں، تو اسی طریقے سے معاملہ نمٹانے کی کوشش کی، جس شخص کو پتا ہی نہیں میں نے کام کس طرح کرنا ہے، عمران خان ہمیشہ کہتے تھے، کہ ہم بیوروکریسی کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے، پر عمران خان کے اس ٹائیگر نے یہ کام بھی کر دیا، تب بھی عمران خان کو اپنے وسیم اکرم پلس پر حیرت نہیں ہوئی۔

ساٹھ سے زائد وزیروں کی کابینہ وہ شخص چیئر کرتا ہے، جو الیکشن سے دو ماہ پہلے پارٹی میں آیا، اس کے پاس تو اخلاقی اختیار بھی نہیں، کہ وہ کسی وزیر کو بلا کر اس کی کارکردگی پوچھ سکے، ہر ہفتے عمران خان خود پنجاب کابینہ کا اجلاس طلب کر کے جائزہ لیتے ہیں، تب بھی عمران خان کو حیرت نہیں ہوئی جب وہ ہر تقریر میں عثمان بزدار کا دفاع کرتے تھے۔

پولیس کو سیاست سے پاک کرنے کا مشن کرنے والوں نے دو آئی جی تبدیل کر دیے گئے، پولیس ریفارمز کا کوئی پتا نہیں،

ہر ضلع کے پولیس افسران پسند نا پسند پر لگائے جا رہے ہیں،

سیالکوٹ میں بھی ایک متنازع واقعہ بیوروکریسی میں پیش آیا پر وہ دب گیا، مگر عمران خان کو حیرت نہیں ہوئی۔

عثمان بزدار نے عمران خان کے ویژن کو قتل کرتے ہوئے، فیملی سمیت سرکاری طیارہ استعمال کرتے رہے، کل ایک بڑے سینئر صحافی بتا رہے تھے، کہ پنجاب میں دس تقرریاں بغیر کسی اشتہار، انٹرویو کی گئی ہیں، مگر وزیراعظم کو حیرت نہیں ہوئی۔

ساہیوال کا واقعہ ہوا، جناب عثمان بزدار نے کہا بہتر گھنٹوں میں رپورٹ آ جائے گی، تو ذمہ داروں کو سزا دیں گے، کہاں ہے رپورٹ، کہاں ہے عبرت ناک سزا، سی ٹی ڈی نے دس بار بیان بدلا، لیکن اس کے سربراہ کو دوبارہ بحال کر دیا گیا، کہتے ہیں اس کا قصور ہی نہیں تھا، سانحہ ماڈل ٹاؤن پر عمران خان نے شہباز شریف اور نواز شریف سے استعفیے کا مطالبہ کیا تھا، پر یہاں عمران خان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، اور حیرت یہاں بھی نہیں ہوئی۔

جہانگیر ترین کس حیثیت سے پنجاب اور وفاق کے وزیروں کو طلب کرتے ہیں، کبھی خان صاحب نے اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے، نواز شریف کی پارٹی صدارت اور پارٹی چلانے پر اپ ہی ہمیں کہا کرتے تھے، کہ ایک نا اہل اور بد دیانت شخص کس طرح منتخب نمائندوں کی صدارت کر سکتا ہے، پر یہاں پنجاب میں ایک پاور ہاؤس جہانگیر ترین بھی ہے، ایک بد دیانت اور عدالت سے نا اہل شخص منتخب نمائندوں کو طلب کرے اور خان صاحب کو حیرت نا ہو یہ میرے لیے حیرت کی بات ہے۔

جو بندہ اپنے گھر اور علاقے میں بجلی نہیں لگوا سکا، وہ پنجاب جیسا صوبہ چلائے گا، کہتے ہیں آہستہ آہستہ ٹریننگ ہو رہی ہے، یہ صوبہ ہے یا کوئی اکیڈمی، کیا ہم نے کبھی اپنے گھر کا مالی، باورچی، چوکیدار، ڈرائیور نا اہل شخص کو رکھا ہے، ہم ایک شخص کو مالی رکھ کر کہیں کہ کام بعد میں سیکھ لینا، ایک شخص کو ڈرائیور رکھ کر کہیں کہ ڈرائیونگ بعد میں سیکھ لینا، ایک شخص کو جہاز کا پائلٹ رکھ کر کہیں، کہ اب جہاز اڑانا سیکھ جانا آہستہ آہستہ، واہ مطلب غریب عوام کے پیسے پر یہاں اب ہم لوگوں کو حکومت کرنا سکھائیں۔

سیاست سیکھی جاتی ہے، ایک اچھا مینیجر اور ایڈمنسٹریٹر ہی نظام چلا سکتا ہے، شہباز شریف جیسا بھی تھا، لیکن تھا وہ ایک اچھا مینیجر اور ایڈمنسٹریٹر، یہ کسی لوٹے سیاست دان کا کام نہیں ہے، جو شخص اپنے نظریات ہی وقت اور بدلتے موسم کے ساتھ تبدیل کر لے وہ پنجاب چلائے گا، پنجاب کا مطلب پاکستان ہوتا ہے، ایک شخص جس نے تحصیل کونسل اج تک چلائی نہیں اپ نے اسے وزیر اعلی بنا دیا، یہ تو کچھ بڑے واقعات تھے، بہت کچھ تو بتایا یا رپورٹ ہی نہیں ہوتا۔

اب اس سانحہ پر بات کرتے ہیں، جو یہ آرٹیکل لکھنے کا موجب بنا اور ساتھ ساتھ عمران خان کی پنجاب حکومت پر حیرت کا موجب بنا، میرے لیے یہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا بل ایک سانحہ سے کم نہیں، جس میں بارہ کروڑ  افراد کا قتل ہی ہے، جس ملک میں تقریبا چالیس فیصد افراد بے روزگار ہیں، دو کروڑ بچہ سکولوں سے باہر ہو، ناخواندگی پچاس فیصد ہو، وزیر اعظم دوست ممالک سے قرضے مانگ کر ملک چلا رہا ہو، وہاں یہ عوام کا قتل ہے۔

پنجاب اسمبلی کی پریس ریلیز کے مطابق پانچ لوگوں نے جن میں دو ن لیگی، ایک پیپلز پارٹی اور دو پاکستان تحریک انصاف کے جنہوں نے یہ بل پیش کیا، اور پاکستان تحریک انصاف جلتی پر تیل کا کام کر کے سب اختلافات بھلا کر اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ اپنے مفادات میں تو بل لائے بھی جاتے ہیں، اور پاس بھی ہو جاتے ہیں، لیکن عوام کی بھلائی میں کہتے ہیں، ہمارے پاس تعداد پوری نہیں ہے۔

وزیر اعلی، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزیروں کی تنخواہ وزیراعظم سے بھی زیادہ، وزیر اعلی کو تا حیات گھر اور علاج معالجے کی سہولت مہیا کرنے کی شق بھی موجود ہے اس بل میں، سابق ارکان اسمبلی کے تا حیات علاج کی آڑ میں موجودہ ارکان بھی اس سے مستفید ہونے کے خواہاں، یہاں علاج کی اور سستے گھروں کی آڑ میں جو اس قوم کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے، اس پے ان کو فارغ کرنا چاہیے، حیرت تو اس بات پے ہونی چاہیے، کہ یہ حکومت ابھی تک، وزارت اعلی پر بیٹھی ہے، یہ عثمان بزدار گلے کی ہڈی بن چکا ہے، اندر لے جانا بہت نقصان دہ ہو گا، باہر پھینکا ہی بہتر رہے گا، کچھ دن لوگ باتیں کریں گے، اس کو ایک اور یو ٹرن کہ کر نمٹا دینا، قوم کی خاطر ایک اور یو ٹرن لینے میں کوئی برائی نہیں ہے،

یہ بات ٹھیک ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تنخواہ باقی تینوں اسمبلیوں سے کم تھی، لیکن ایک دم سے اتنی بڑھا دینا، اور اس بل کا ٹائم خراب تھا، یہ کام ایک دو سال لیٹ ہو سکتا تھا، جو اراکین الیکشن جیت کر اسمبلی آ سکتے ہیں، وہ پہلے والے تنخواہوں پر گھر بھی چلا سکتے ہیں۔

عمران خان کو حیرت ہوئی، کہ وزیر اعلی پنجاب نے یہ بل کس طرح پیش کر دیا، ہر رکنِ پارٹی نے اس بل کو اچھا اقدام کہا، لیکن جب وزیراعظم کا بیان آیا، تو سب نے اپنے بیانات سے یو ٹرن لے لیا، اب ترمیم کر کے نیا بل پیش کرنے کو کہا ہے، جس کے مطابق وزیر اعلی کی زیادہ تر مراعات ختم کر دی گئی ہیں۔ عمران خان کا یہ اقدام اچھا ہے، اس پر جلد از جلد عمل ہونا چاہیے۔

ہر شخص کسی کام نا کسی کام کے لیے بنا ہوتا ہے، عثمان بزدار کسی اور کام میں ماہر ہو سکتے ہیں، میری تنقید کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی کام کے نہیں ہیں، ان سے کوئی اور کام لیں، یہ کام ان کے کرنے کا نہیں ہے۔

حیرت تو عمران خان کو بہت پہلے ہو جانی چاہیے تھی، چلو دیر آید درست آید، حیرت تو اور بھی بہت سی چیزوں پر آنی چاہیے، لیکن وہ پھر کسی دن سہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).