ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی!


ایسا لگتا ہے جیسے دہشتگردی اورانتہا پسندی کی لہر ’سیکیولرازم‘ کا درس دینے والے یورپ پہنچ گئی ہے۔ 15 مارچ کو نیوزی لیں ڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دومساجد میں نمازِجمعہ کے اجتماع پر ہونے والے دہشتگرد حملے میں پچاس سے زائد افرادکے لقمہ اجل بن جانے کا غم ابھی تازہ ہی تھاکہ اگلے ہی روز لندن میں ایک مسجد کے باہرگاڑی پرہتھوڑی سے حملہ کرکے نماز پڑھنے کے لیے آنے والوں کو زخمی کردیا۔ کرائسٹ چرچ میں جاں بحق افراد کے خون کے دھبوں کیے نشان ابھی باقی تھے کہ یورپ ہی کے ایک اور ملک ہالینڈ میں ٹرام پر فائرنگ کرکے تین افراد کو قتل کر دیا گیا۔ ابھی سانحہ کرائسٹ چرچ میں مرنے والوں کے لواحقین کے آنسو خشک بھی نہ ہوئے تھے کہ یورپین ممالک سے ایک کے بعد ایک دہشتگردی کے واقعات کی خبریں مل رہی ہیں۔

سانحہ کرائسٹ چرچ پرہرآنکھ اشک بارہے جبکہ صرف مسلم دنیا ہی میں نہیں بلکہ انسانیت کے جذبات رکھنے والا ہر شخص صدمے میں ہے۔ اگریہ کہا جائے کہ 16 دسمبر 2014 کوپشاور کے آرمی پبلک اسکول میں پیش آنے والے سانحہ کے بعد یہ دہشتگردی، ظلم، تشدد، وحشت اوربربریت کابد ترین واقعہ تھاتوکچھ غلط بھی نہ ہوگا۔ آرمی پبلک اسکول پشاورسینکڑوں بچوں جبکہ کرائسٹ چرچ کی مسجد میں پچاس نمازیوں کو چندمنٹوں میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔

لیکن ہوسکتا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں یا سالوں میں ہم یہ دعویٰ نہ کر سکیں کہ یہ دو واقعات اکیسویں صدی میں دہشتگردی، ظلم اور تشدد کی بد ترین مثال تھے۔ ہوسکتا ہے 16 دسمبر 2014 اور 15 مارچ 2019 کا شمارتاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں نہ ہو۔ ہوسکتا مستقبل میں ہم کو دہشتگردی اور سفاکیت کی اس سے بدترین مثال دیکھنے کو ملے۔ ہوسکتا ہے ہم ان بد نصیب لوگوں میں سے ہوں جو یا تو اس سے زیادہ سفاک دہشتگردی کی واردات کا نشانہ بن جائیں یاپھرہمارے بچے اس سے زیادہ پرتشدد کارروائی میں مارے جائیں اوران کے لاشے ہماری جھولیوں میں پڑے ہوں۔

کیونکہ ہم اپنی سوچ اپنی روش اپنا بیانیہ بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم ہرحادثے، ہر سانحے ہر واقعے کو مذہب کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔ ہم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی وجہ اپنا مسلمان ہونا بتاتے ہیں۔ لیکن حقیقت شایدیہ ہے کہ تعصب ہمارے اپنے اندر ہے۔ یہ تعصب کا بیج جو بچپن سے ہمارے دل دماغ اور تربیت میں نشونما پاتا ہے ہم اس سے آگے کچھ سوچنے، سننے سمجھنے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ کے چند گھنٹوں بعد ہی سوشل میڈیا پرایک ہی پوسٹ وائرل ہوتی نظر آئی ’ہم کریں تو دہشتگرد، گورا کرے تو دیوانے‘ سوشل میڈیا پر اس جیسی اور بہت سی پوسٹس نظر آئیں جن میں صارفین کا کہنا تھا کہ اس کو دیوانہ پاگل کہہ کر چھوڑ دیا جائے گا۔ بہت سے افراد نے اس واقعے کو عیسائی دہشتگردی کا نام دیا جبکہ اخبارات کی سرخیوں میں ’عیسائی دہشتگرد‘ لکھا گیا۔ لوگ اس بات پر بضدنظرآئے کہ اسٹریلوی دہشتگرد کے ساتھ عیسائی دہشتگرد ضرور لگایاجائے ورنہ مذمت، دکھ اورغم کا اظہار ’نامکمل‘ رہ جائے گا۔

ہم نے پہلے ہی شور مچانا شروع کردیا کہ اب آسٹریلوی کو دہشتگرد نہیں بلکہ ’پاگل‘ ’دیوانہ‘ یا ’ذہنی مریض‘ کہا جائے گا۔ ہم نے خوب واویلا کیا کہ اب تو مسلمانوں کے ساتھ کوئی ہمدردی یا اظہار یکجہتی کے لیے نہیں نکلے گا۔ لیکن اس واقعے کے کچھ دیر بعدہی سب سے پہلے نیوزی لیں ڈ کی وزیر اعظم جیسنڈرا آرڈن نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے دہشتگردی کی کارراوئی قرار دیا۔ میڈیابریفنگ میں ان کاکہنا تھا کہ کرائسٹ چرچ کا واقعہ نیوزی لینڈ کی عکاسی نہیں کرتا۔ یہ ایک غیر مسلم وزیراعظم ہی ہیں جنہوں نے یہ باور کرایا کہ مسلمان شہریوں کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ ملک میں اپنی عبادات اور مذہبی رسومات کو مکمل امن وامان کے ساتھ انجام دیں۔

انہوں نے سیاہ لباس اورسر پر دوپٹہ پہن کراسپتال کا دورہ بھی کیا اورمسلم کمیونٹی سے تعزیت کی۔ مسلم خواتین کو گلے لگا کر ان کو تسلی دی اورہاتھ جوڑتی بھی نظر آئیں۔ پاکستان میں پشاور میں پیش آنے والاسانحہ آرمی پبلک اسکول سے لے کربلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کے قتل عام اور کبھی کسی چرچ پر حملے یا دھماکے کے کتنے ہی خوفناک سانحات رونما ہوئے کیا کبھی کسی سربراہ مملکت کی جانب سے ایسا ہمدردارنہ اورمثبت رویہ دیکھنے میں آیا؟ یہ ایک غیر مسلم ریاست ہی ہے جہاں مسلمانوں کے قتل عام کے واقعے کے بعدپارلیمنٹ کے پہلے اجلاس کا آغازتلاوت قران پاک سے کیا گیا۔ وزیراعظم جیسنڈرا نے تقریر کا آغاز ’السلام علیکم‘ سے کیا اورانتہائی جذباتی خطاب میں سخت الفاظ میں حملہ آورکوایک بار پھردہشتگرد، انتہا پسنداورکریمنل کہا۔

یہ ہی نہیں نیوزی لینڈ سمیت دنیا بھرکے تمام وہ افراد جو پہلے انسان اور پھر ملسمان، ہندو، یہودی، عیسائی ہیں سب سانحہ کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں کے روبرو کھڑے نظر آئے۔ وہ پاکستانی جوبرینٹن ٹارنٹ کو ’عیسائی‘ دہشتگرد کا ٹیگ لگانے کے لیے بضد تھے سانحہ کے تیسرے روزپی ایس ایل کی رنگینیوں اور مستیوں میں گم نظر آئے۔ جبکہ دنیا بھر میں مسلم کمیونٹی سے اظہار یکجہتی کے لیے کہیں یہودیوں نے پہلی بار اپنی عبادت گاہیں بند کیں تو کہیں غیر مسلم کمیونٹی نمازیوں کی صفوں کی حفاظت کے لیے ہاتھ باندھے ان کے پیچھے کھڑے نظر آئے۔ یقینا پاکستان میں ہونے والے اتنے بڑے ایوینٹ کو منسوخ یا ملتوی نہیں کیا جاسکتا تھالیکن کرائسٹ چرچ کے شہدا کی یاد میں اس کوسادگی سے ضرور اختتام پذیر کیا جاسکتا تھا۔

سانحہ کرائسٹ چرچ کے خلاف دنیا بھر میں مسلمانوں سے زیادہ ان لوگوں نے آواز اٹھائی جن کا شہدا سے نہ کوئی خونی رشتہ تھا نہ جذباتی وابستگی تھی اورنہ ہی مذہبی تعلق۔ اگر رشتہ تھا تو صرف انسانیت کا۔ ہم جو کہ مجرم کو ’عیسائی دہشتگرد‘ قرار دینے کا مطالبہ کر رہے تھے جس وقت پی ایس ایل کی خوشیوں اوررعنائیوں میں گم تھے اس وقت نیوزی لینڈ سمیت دنیا بھر میں جاں بحق افراد کی یاد میں شمع روشن کرنے، پھولوں کے گلدستے رکھنے اورتعزیتی پیغامات رکھنے کا سلسلہ جاری تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو چار روز بعد قومی پرچم سرنگوں کرنے کا خیال آہی گیا لیکن ’سیکیولر‘ نیوزی لینڈکو اپنا گھر بنانے والے تارکین وطن کی یاد میں پہلے روز سے ہی پرچم سرنگوں رکھا گیا۔ فرانس کے ایفل ٹاور کی روشنیاں بھی بند رکھی گئیں۔

اس وقت پورا نیوزی لینڈ، پورا آسٹریلیا سانحہ کرائسٹ چرچ کے شہدا کے اہلخانہ کے ساتھ کھڑے ہیں ان سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔ رنگ، مذہب اور نسل پرستی سے بالاتر ہوکر صرف انسانیت کی بات کی جارہی ہے۔ لیکن ہم اب تک مذہب، گورے اور کالے کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب، رنگ، نسل نہیں۔ اگر آپ نفرت پھیلائیں گے تو اس کے نتائج سب کوبھگتنا ہوں گے۔ چاہے آپ کی یہ نفرت نظریاتی ہو، نسلی ہویا مذہب کی بنیاد پر ہو اس کا نقصان صرف آئندہ آنے والی نسلوں کو ہوگا۔ ہمیں اپنی آنکھوں سے نفرت کی پٹی اتارنا ہوگی۔ ہمیں دہشتگردی کے واقعات پرلگے مذہب کے ٹیگ کو علیحدہ کر کے دیکھنا ہوگا کیونکہ دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا قتل صرف انسانیت کا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).