بلوچستان: ڈاکٹر رابعہ ظفر کان کنوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہیں
’ہزاروں فٹ گہری کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں کی زندگی ان کانوں سے کئی گنا زیادہ تاریک ہے۔‘
یہ کہنا ہے پروفیسر ڈاکٹر رابعہ ظفر کا جو بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدورں کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔
ایمپیرئیل کالج لندن سے ارتھ سائنسز انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کرنے والی وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جو اب سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کوئٹہ میں انوائرنمینٹل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں چیئر پرسن کے عہدے پر فائز ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ جب وہ 2017 میں ڈگری حاصل کر کے پاکستان آئیں تو انھیں جس چیز نے ان کانوں میں کام کرنے والوں کی مشکلات کا احساس دلایا وہ ادھر پیش آنے والے حادثات میں ہلاکتیں تھیں۔
بلوچستان میں جدید صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے میں کوئلے کی کان کنی یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے۔
یہ بھی ہڑھیے
بلوچستان: کوئلے کی ایک اور کان میں مہلک حادثہ
بلوچستان: ہرنائی میں کوئلے کے کان میں حادثہ، دو کان کن ہلاک
لسبیلہ: ’چینی کان کنوں کو نکالنے کا کام روک دیا گیا‘
مائنز ڈیپارٹمنٹ کے مطابق کوئلے کی کانوں کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے جس سے بلا واسطہ ایک لاکھ سے زیادہ کان کن وابستہ ہیں۔
ان کانوں میں ہونے والے حادثات کے باعث ہر سال بڑی تعداد میں کان کن ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں۔
ان حادثات کو دیکھا جائے تو سنہ 2018 بلوچستان میں کان کنوں کے لیے سب سے مہلک ثابت ہوا۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل لالہ سلطان کے مطابق 2018 میں بلوچستان میں مجموعی طور پر 93 کان کن ہلاک ہوئے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2010 سے اگست 2018 تک بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں 423 سے زائد کان کن ہلاک ہوئے ہیں۔
لالہ سلطان اس کی سب سے بڑی وجہ حفاظتی انتظامات کے فقدان کو قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر رابعہ کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے ان کانوں کا جائزہ لیا تو انھوں نے ان میں کام کرنے والے لوگوں کی آنکھوں میں زندگی کی رونق نہیں دیکھی۔
’میں نے کچھ کول مائنرز کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو ان کا کھانا بھی کوئلے کے گرد و غبار سے اٹا ہوا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے زندگی یہاں پر ہے ہی نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں کی صورت حال کے جائزے کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’کان کنوں کو اپنی صحت اور تحفظ کا احساس نہیں ہے یا وہ صحت اور تحفظ کے اصولوں سے واقف نہیں۔ اور اگر وہ واقف ہیں تو ان اصولوں کو اپنانے سے گریزاں ہیں۔‘
رابعہ نے کہا کہ انھوں نے کول مائننگ کے سیکٹر کو صحت اور تحفظ کے حوالے سے ٹارگٹ کیا اور ان کان کنوں کو ٹریننگ دینے کا سلسلہ شروع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مختلف کانوں سے کان کنوں کا انتخاب کر کے ان کو 10 دنوں کی ٹریننگ دی گئی اور ان کو سیفٹی کِٹ بھی فراہم کی گئی تاکہ مزدوروں کو یہ پتا چل سکے کہ ان کا تحفظ کیوں ضروری ہے۔ یہ نہ صرف ان کے خاندانوں کے لیے ضروری ہے بلکہ اس کول مائننگ سیکٹر کے لیے بھی۔‘
رابعہ کا کہنا ہے کہ ’اگر ایک کان کن کی جان جاتی ہے یا وہ معذوری کا شکار ہوتا ہے تو اس سے مائننگ سیکٹر بھی متاثر ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مائننگ سیکٹر اور اس کے قوانین میں بہت ساری خامیاں ہیں۔ اس لیے ان قوانین پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔‘
ڈاکٹر رابعہ کے مطابق ہم ابھی تک بنیادی مسائل کو ہی حل نہیں کر سکے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پرانے مسائل کو جدید نظر سے نہیں دیکھ رہے۔
رابعہ چاہتی ہیں کہ کانوں میں گیسز کی مقدار کا جائزہ لینے کے لیے ایک کنٹرول سسٹم ہو۔ ’اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ یا میتھین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے تو کنٹرول سسٹم اس کو مانیٹر کرے۔ اس کے لیے فوراً الارم کا انتظام ہو، تاکہ کان کن دھماکہ ہونے سے پہلے کان کو خالی کر سکیں۔‘
وہ ان کان کنوں کے لیے فکر مند ہیں جو کہ اندھیرے میں کام کرتے ہوئے نظر ہی نہیں آتے۔
ڈویژنل انسپیکٹر مائنز محمد عاطف نے بتایا کہ کان کنوں کی تحفظ اور سلامتی پر تربیت کے لیے ڈاکٹر رابعہ ظفر نے جو پروگرام شروع کیا ہے وہ کان کنوں کے لیے بہت زیادہ سود مند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تربیتی پروگرام میں ان تمام پہلوؤں کو شامل کیا گیا ہے جو تحفظ کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
محمد عاطف نے مزید کہا کہ اس پروگرام سے کان کنوں میں یہ شعور اجاگر ہوتا ہے کہ خطرے کی صورت میں بچاؤ کے لیے کس طرح کا رد عمل درکار ہوتا ہے۔ انسپیکٹر مائنز نے بتایا کہ حادثے کے دوران ریسکیو کے بارے میں بھی کان کنوں کو تربیت دی گئی تاکہ وہ کام کرتے ہوئے اپنے آپ کے علاوہ ساتھی مزدوروں کو بچانے کے لیے بھی حکمت عملی سے واقف ہوں۔
ان کے مطابق حکومتِ بلوچستان اور مائنز ڈیپارٹمنٹ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے افراد کے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کر رہے ہیں جس میں قوانین میں بہتری کے ساتھ ساتھ مائنز انسپیکٹروں کی تعداد کو بڑھانا بھی شامل ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).