ہم ایک دوسرے کے خلاف کیوں ہیں؟ ‎


خواتین نے اپنے حقوق کے لیے آٹھ مارچ کو ملک کے بڑے شہروں میں ریلیاں نکالیں۔ خواتین کے ہاتھوں میں پلے کارڈز تھے ان پر تحریر عبارتوں نے حسب توقع ملک میں نئی بحث چھیڑ دی۔ ان نعرے نما تحریروں کے حق اور مخالفت میں جو کچھ لکھا اور کہا گیا کیا اس سے یہ اخذ کرنا مشکل ہے کہ مختلف سماجی گروہ ایک دوسرے کے خلاف ایک انتہائی EXTREME پوزیشن لے چکے ہیں۔

ابھی وہ بحث جاری تھی کرائسٹ چرچ میں مساجد پر حملہ ہو گیا۔ دنیا بھر میں جہاں اس حملے کی مذمت، نشانہ بننے والے مظلوموں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جا رہا تھا پاکستان میں مختلف سماجی گروہوں میں بحث کا ایک اور موضوع چھڑ گیا۔ ایک گروہ مغرب میں سفید فام برتری کے قائل افراد پر تنقید کر رہے تھے۔ اسلاموفوبیا کی تشریحات ہو رہی تھی تو دوسری جانب ایک مختلف پوزیشن لے کر دوسرے گروہ نے ہمارے ملک میں ہونے والی دہشت گردی پر ہمارے حکومتی اور سماجی ردعمل کو موضوع بنایا۔ نیوزی لینڈ کے عوام نے مساجد پر حملوں کے ردعمل میں مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے جو طریقے اختیارکیے ان کی مثال دے کر پاکستان کے مذہبی گروہوں کو جتلایا گیا کہ مرنے والوں کی تعزیت اور ان کے لواحقین کے ساتھ یگانگت کا اظہار اس طرح کیا جاتا ہے۔

نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں جاں بحق ہونے والے افراد اس گفتگو سے یکسر غیر حاضر تھے۔ دونوں گروہوں نے اس واقعے کو استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے پر اپنا غصہ نکالا۔

قصور کی معصوم زینب تو آپ کو یاد ہوگی۔ اس مظلوم کے بہیمانہ قتل پر ہونے والی گفتگو بھی آپ کے حافظے میں موجود ہوگی۔ ایک گروہ نے مغربی میڈیا کی وجہ سے پھیلنے والی بے راہ روی کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ جبکہ دوسرے گروہ نے قاتل کے مذہبی پس منظر کو اس کی جنسی روش کا ذمہ دار ٹھہرا کر تیرزنی کی۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ نے ایسی کتنی تحریریں پڑھیں کہ جن میں اختلافات سے ماورا جاکر معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی؟

یہاں بھی آپس کی مخاصمت نے واقعہ نظرانداز کردیا اور اپنے سے مختلف نظریات رکھنے والوں کو نشانے پر رکھ لیا۔ اختلافات کی خلیج اس قدر پھیل چکی ہے کہ بقول شخصے ایک گروہ کے ہیرو کو دوسرا قاتل سمجھتا ہے اس طرح اب ہر گروہ کے اپنے قاتل اور اپنے شہید ہیں۔

مخالفت اور مخاصمت کی جو روش دو عشروں قبل تک صرف سیاستدانوں تک محدود تھی اب سماجی گروہوں تک پھیل چکی ہے۔ شعلہ فشانی اب سیاست دان اور مذہبی رہنما ہی نہیں کرتے بلکہ وہ دانشور جن سے معاملات کی تفہیم کی بجا طور پر امید کی جاسکتی تھی نے بھی اب زہرافشانی کو اظہار خیال کا ایک مؤثر طریقہ سمجھ لیا ہے۔ طنز، طعنہ اور تشنیع کو ہر تحریر کی ہر سطر سے ٹپکتا ہوا محسوس کیا جا سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ مخالفت کی اس خون آشام سطح تک آخر پہنچا تو پہنچا کیسے؟

مختلف گروہ ایک دوسرے کی جان اور عزت کے درپے آخر کیوں کر ہوئے؟

دیگر موضوعات کی طرح یہ سوال بھی ہم نے ہر فن مولا قسم کے صحافیوں اور دانشوروں کے سپرد کردیا۔ ہمارے ہر مسئلے پر سب سے پہلے صحافی اور چند سکہ بند دانشور اظہار خیال فرماتے ہیں۔ معاملہ اقتصادیات کا ہو یا سماجیات کا۔ حکومت کی گورننس پر تبصرہ کرنا ہو یا بین الاقوامی حالات پر۔ ہر موضوع پر حرف آخر صحافیانہ ہوتا ہے۔ سماجی علوم جیسے کہ عمرانیات، سیاسیات، اور نفسیات کے ماہرین نہ تو اپنے مضامین سے متعلق موضوعات پر بات کرتے ہیں اور نہ ان کی رائے لی جاتی ہے۔ ان موضوعات پر پاکستان میں صحافی بات کرتے ہیں۔ علم و تحقیق پر مبنی رائے کی بجائے کامن سینس کی بنیاد پر ہر معاملے کا تجزیہ پیش کردیا جاتا ہے۔

ہمارے سماج میں مخالفت کی موجودہ سطح پر بھی آپ نے مختلف آراء پڑھی ہوں گی۔ مخالفین کے بارے میں کافر، غدار، اغیار کے ایجنٹ رجعت پسند اور ملحد جیسے القابات کے استعمال سے تو آپ واقف ہوں گے۔ لیکن کیا کسی تجزیہ نے آپ کو یہ بھی بتایا کہ انیس سو ستر کی دہائی کے آخر تک ایک پرامن معاشرے میں رہنے والے مختلف گروہ بتدریج ایک دوسرے سے دور اور پھر ایک دوسرے کے دشمن کیسے ہوتے چلے گئے۔

ہر معاملے کو دیکھنے کے کئی اسلوب اور کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ زیرنظر معاملے پر ہوسکتا ہے کہ ماہرین اقتصادیات بھی اپنی رائے رکھتے ہوں۔ اہل مذہب کی رائے سے تو ہم سب واقف ہیں۔ سیاستدان بھی اس ذیل میں اپنی رائے رکھتے ہیں۔ آئیے آج اس مسئلے کی ایک اور نفسیاتی جہت دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

گزارشات کے ایک قسط وار سلسلے میں نوآبادیاتی نظام کے تسلط کے حوالے سے اپنے معاشرے میں بڑھتی ہوئی مخاصمت کی اس خلیج کی ایک وجہ بیان کرچکا ہوں۔ سائنسی مجلہ میں شائع شدہ ایک اور تحریر میں مخاصمت کی ایک اور وجہ بھی بیان کرچکا ہوں جسے آج یہاں دوہرانا مقصود ہے۔ اس طالب علم کا تعلق نفسیاتی امراض کی تعلیم، تدریس، تحقیق اور علاج سے ہے۔ ہمارے معاشرے میں موجود اختلاف کی موجودہ سطح کو آئیے نفسیاتی امراض کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے قبل کہ اپنی گزارشات آپ کے سامنے رکھوں دو باتیں عرض کرنا ضروری ہیں

اس گفتگو کو نفسیات کے ایک طالب علم کی گزارشات سمجھ کر دیکھیے گا اس معاملے کو نفسیاتی امراض کے حوالے سے دیکھنے یا دکھانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس معاملے سے اقتصادی اور سیاسی عوامل کو منہا کر دیا گیا ہے۔

دوسرے یہ کہ اس گزارش کا مقصد خدانخواستہ معاشرے کو پاگل ثابت کرنا نہیں ہے مجھے یاد ہے جب پہلی مرتبہ یہ تجزیہ ایک COLLOQUIUM میں پیش کیا گیا تھا تو ایک صاحب کا تبصرہ یہ تھا کہ آج پاکستانی معاشرے کو پاگل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک رویہ جس نے اس طالبعلم کو ہمیشہ حیران کیا ہے وہ ٹراما TRAUMA جیسی حقیقت سے ہماری لاعلمی اور بے اعتنائی ہے۔ آپ کو عالم فاضل عثمان قاضی صاحب کی ایک تحریر یاد ہوگی۔ کوئٹہ میں دہشت گرد حملے کے بعد قاضی صاحب نے زندہ بچ جانے والوں کے ٹراما کے نفسیاتی علاج کے لئے کوشش فرمائی تھی اس کوشش اور اس میں ناکامی کے احوال کو انہوں نے انتہائی درد دل کے ساتھ بیان کیا تھا۔ ان کی تحریر نے ٹراما کے بارے میں ارباب حل و عقد تو ایک طرف رہے صاحبان علم کی عدم واقفیت کو جس طرح طشت از بام کیا وہ اس طالب علم کے لیے بے حد تکلیف دہ تھا۔

پاکستان نے گزشتہ دو عشروں میں 80 ہزار افراد کے خون کو اپنی سڑکوں گلیوں اور بازاروں میں بہتے دیکھا ہے۔ قتل ہونے والوں میں ہر عمر اور ہر گروہ کے مردوزن شامل تھے۔ آئرلینڈ اور پاکستان کے وقت میں پانچ گھنٹے کا فرق ہے۔ پشاور میں جس وقت اسکول کے بچے قتل کیے جا رہے تھے آئرلینڈ میں لوگ اپنے دن کا آغاز کر رہے تھے۔ اس طالب علم کے ذہن میں روتی پیٹتی اور ادھر ادھر بھاگتی ہوئی بد حواس اور تشویش زدہ مائیں اور ان کے چہرے آج بھی محفوظ ہیں جو اپنے جگر گوشوں کو ڈھونڈنے کے لیے سکول کے اندر جانے کی کوشش کر رہی تھیں اور سکیورٹی اہلکار ان کو روک رہے تھے۔ پس منظر سے فائرنگ کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھی ماؤں کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2