سابقہ فاٹا میں قبیلے کی مانیں یا قانون کی؟


فاٹا انضمام

پاکستان کی وفاقی حکومت نے گزشتہ سال فاٹا انضمام کے بعد تمام کالے قوانین اور فرسودہ روایات کے خاتمے کا اعلان کیا تھا

پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے گزشتہ سال فاٹا کے انضمام کے بعد وہاں انگریز دور کے تمام قوانین اور روایات کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا۔ نئے نظام کے تحت ضم ہونے والے تمام اضلاع میں ان قوانین کا اطلاق ہوگا جو ملک کے دیگر شہروں میں نافذالعمل ہیں۔

تاہم قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد بھی فاٹا کے اضلاع میں ماورائے آئین و قانون کے واقعات کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا فاٹا کے انضمام کے بعد بھی وہاں ایسے اقدامات کی گنجائش ہے جو پرانے نظام کے تحت شاید جائز کہے جا سکتے تھے؟

یہ بھی پڑھیے

کورٹ کچہری سے قبائیلیوں کی توقعات؟

فاٹا عبوری گورننس ریگولیشن میں کیا ہے؟

فاٹا اصلاحات، سیاسی آراء منقسم

فاٹا انضمام

انضمام کے عمل کی سست روری کے باعث مختلف اضلاع کے قبائل کی طرف سے وقتاً فوقتاً احتجاج بھی کئے جاتے رہے ہیں

کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے نوجوان قانون دان عامر عباس طوری ایڈوکیٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 25ویں آئینی ترمیم کے بعد تمام قبائلی علاقے پختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں اور اب وہاں کسی لشکر، جرگہ یا پنچائیت کا کوئی تصور نہیں رہا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی قبائلی جرگوں اور پنچائیت کے فیصلوں کو ملکی قوانین کے ساتھ متصادم ہونے کی وجہ سے غیر قانونی قرار دے چکی ہے اور اس ضمن میں عدالت عالیہ کا باقاعدہ تحریر شدہ فیصلہ موجود ہے۔

عامر عباس طوری نے کہا کہ حکومت نے فاٹا کے انضمام کا اعلان تو کر رکھا ہے لیکن عملی طورپر کوئی اقدامات نظر نہیں آتے جس سے قبائل میں مایوسی روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔

فاٹا انضمام

پیر کو قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں مسلح قبائلی لشکر کی طرف سے دن دیہاڑے ایک مقامی صحافی حفیظ وزیر اور ان کے بھائی کے گھروں پر لشکرکشی کی گئی اور ان کے مکانات کو مسمار کردیا گیا۔

مقامی صحافی حفیظ وزیر نے رابطہ کرنے پر بی بی سی کو بتایا کہ تقریباً ایک سال پہلے ان کی طرف سے کچھ خاندانی زمین فروخت کی گئی تھی جس پر ان کے قبیلے خوجل خیل کی طرف سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا جارہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ سال پہلے خوجل خیل قبیلے کی طرف سے ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق کسی دوسرے قبیلے کے افراد کو زمین کی فروخت پر پابندی لگائی گئی تھی۔

فاٹا انضمام

صحافی حفیظ وزیر

تاہم انہوں نے کہا کہ فاٹا کے انضمام کے بعد یہ تمام مقامی معاہدے ختم ہوگئے تھے اور نئے نظام میں کوئی ایسی پابندیاں عائد نہیں تھی جبکہ اس دوران علاقے میں زمینوں کی خریدوفروخت بھی تیزی سے جاری تھی۔

حفیظ وزیر کے مطابق اس معاملے کے حل کےلیے تقریباً ایک سال سے قبائلی جرگوں کا سلسلہ جاری تھا اور اس دوران ان کی طرف سے ایف آئی آر کے اندراج کے علاوہ عدالت میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی۔ جس میں استدعا کی گئی کہ ان کا قبیلہ ان کے مکانات مسمار کرنے جارہا ہے لہذا انہیں فوری طورپر انصاف فراہم کیا جائے لیکن اس کے باوجود حکومت کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

فاٹا انضمام

انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز مقامی انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کی موجودگی میں ان کے خاندانی مکانات پر لشکر کشی کی گئی اور پہلے انہیں نذرآتش اور پھر مسمار کردیا گیا۔ جس سے ان کا تقریباً دو کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے اور سارا سامان بھی جل کر راکھ ہوگیا ہے۔

عامر عباس طوری ایڈوکیٹ کے مطابق انضمام کے بعد اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں ایسا ہوتا ہے تو یہ اقدام ملکی قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔

فاٹا انضمام

خیال رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں فاٹا کے انضمام پر عمل درآمد کے لیے کوئی پانچ مختلف کمیٹیاں بنائی اور تحلیل کی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ انضمام کے سلسلے میں اس وقت موجود کمیٹیوں کی کارکردگی پر بھی وقتاً فوقتاً سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ انضمام کے عمل کی سست روری کے باعث مختلف اضلاع کے قبائل کی طرف سے وقتاً فوقتاً احتجاج بھی کئے جاتے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32191 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp