’وہ قدیم فن جسے ایک گھرانہ ہی زندہ رکھے ہوئے ہے‘


جندری

لوہے کی قلم سے لکڑی پر رنگوں کی آمیزش کو کندہ کرنا نازک انگلیوں کا کام نہیں ہے لیکن ایک پسماندہ علاقے کی نوجوان لڑکی نے یہ چیلنج قبول کیا ہے۔

آئینہ وسیم انٹرمیڈیٹ کی طالبہ ہیں لیکن وہ اپنے بزرگوں کے فن جندری یا لیکر ورک کو دنیا میں روشناس کرانے کا عہد کر چکی ہیں۔ تعلیم کے ساتھ وہ اس فن میں جدت لا کر نت نئے ڈیزائن تیار کرتی ہیں اور اس کے لیے وہ کمپیوٹر سے مدد کے علاوہ مہندی کے ڈیزانز کو لکڑی پر اتارنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔

اس خطے میں عام طور پر بیٹے فن کے وراث ہوتے ہیں لیکن ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بیٹی اپنے بزرگوں کے فن کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ماضی میں درجنوں خاندان اس فن سے وابستہ تھے لیکن اب ایک ہی گھرانہ رہ گیا ہے۔ استاد اشرف کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد وسیم اعوان نے یہ کام شروع کیا اور اب ان کی بیٹی آئینہ وسیم اس فن کو پوری دنیا میں متعارف کرانا چاہتی ہیں۔

اس خاندان کی یہ آٹھویں نسل ہے جو اس فن سے وابستہ ہے۔ اس خاندان کے افراد نے بتایا کہ ان کے ایک دادا کرم علی نے تاج محل کی تعمیر میں بھی حصہ لیا تھا اور اس کے بعد ان کے آباؤ اجداد نے جندری یا لیکر ورک کا کام شروع کیا تھا۔

آئینہ وسیم کے دادا محمد اشرف کچھ عرصہ پہلے فوت ہو گئے تھے۔ محمد اشرف نے یہ فن اپنی بیٹی فرحت اور بیٹے محمد وسیم کو منتقل کیا اور اب محمد وسیم یہ فن اپنی اہلیہ اور بیٹی آئینہ وسیم کو منتقل کر رہے ہیں۔

ماضی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں گلی کوچوں میں ماہرین لوہے کی قلم سے لکڑی پر ایسے نمونے تیار کرتے تھے کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے۔

جندری

جندری

آئینہ وسیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بچپن سے گھر میں یہی کام ہوتا دیکھتی آئی ہیں اور پھر اس کام میں ان کا دلچسپی پیدا ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک دلچسپ کام ہے اور اس میں نئے نئے آرٹ ڈیزائن تیار کرنے میں اچھا لگتا ہے اس لیے وہ کمپیوٹر سے مدد لیتی ہیں اور مہندی کے ڈیزائن بھی لکڑی پر کندہ کرتی ہوں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں آج یہ ایک ہی خاندان رہ گیا ہے جو اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ شہر کی تنگ گلیوں میں ایک چھوٹے سے مکان میں باپ ماں اور بیٹی صحن میں بیٹھے اس کام میں مصروف تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ان دنوں لاہور میں منعقد ہونے والی ایک نمائش میں حصہ لینے کے لیے تیاری کر رہے ہیں ۔

لکڑی کے خوبصورت ڈیکوریشن پیس پر تین مختلف رنگ کیے جاتے ہیں اور پھر لوہے کی قلم سے ڈیزائن بنا کر اسے کندہ کیا جاتا ہے جہاں جس رنگ کی جس قدر ضرورت ہوتی ہے اسے وہیں سے کندہ کرکے خوبصورت شاہکار تیار کیا جاتا ہے ۔

آئینہ وسیم نے کہا کہ یہ ان کا خاندانی کام ہے اور انھیں اس کا شوق ہے کیونکہ گھر میں سارا دن وہ یہی کام کرتے ہوئے دیکھتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ دکانوں پر یہ سامان نہیں دیتے بلکہ بڑے شہروں جیسےاسلام آباد اور لاہور میں نمائش میں لے جاتے ہیں تو وہاں لوگ بہت پسند کرتے ہیں اور لیتے بھی ہیں غیر ملکی یہ لیتے ہیں اور پسند بھی کرتے ہیں اور انھیں شوق بھی ہے۔

یہ خوبصورت اشیاء غیر ممالک کے حکمرانوں کو تحفے میں بھی پیش کیے جاتے ہیں۔

جندری

آیینہ وسیم کے والد محمد وسیم نے بتایا کہ ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی اشیاء مختلف ممالک کے سربراہاں اور اہم شخصیات کو تحفے میں دی جا چکی ہیں جبکہ ان کے والد کی بنی ہوئی بیشتر اشیاء دیگر ممالک کے حکمرانوں کو بھی بھیجی جا چکی ہیں ۔

آئینہ وسیم کا کہنا ہے کہ یہ فن ان کے چھوٹے سے گھر میں محدود ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ کاش کوئی ایسا ذریعہ بن جائے کہ دوسرے لوگ بھی یہ کام سیکھیں اور دیکھیں تاکہ اس سے ملک کو بھی فائدہ ہو اور لوگوں کو بھی فائدہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32193 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp