آزادی اظہار کے متوالے
کچھ افراد کی رائے میں آزادی اظہار یہ ہوتی ہے کہ وہ جو بات کہیں، وہ ہر سننے والا شخص دہرانی شروع کر دے، اور جو دہرانے سے انکار کرے، وہ آزادی اظہار کا مخالف ہے۔ وہ جس جگہ اپنی رائے بھیجیں وہ اس کی نشر و اشاعت میں جت جائے، اگر ٹی وی چینل ہے تو اسے بریکنگ نیوز بنا کر دے۔ اگر اخبار ہے تو اسے صفحہ اول نہ سہی، ادارتی صفحے پر نمایاں انداز میں شائع کرے۔ اگر یہ ادارے ایسا نہیں کرتے تو یہ آزادی اظہار کے دشمن ہیں۔
کیا کبھی ان کو یہ خیال آیا ہے کہ ان کی رائے کی دلیل یا انداز و الفاظ ایسے ہو سکتے ہیں کہ انہیں دہرانے والا محض اپنی عقل و شعور یا ذوق پر سوال اٹھاتا پایا جائے گا۔
ایک دوسری قسم لوگوں کے خیال میں آزادی اظہار کا یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی بات جس شخص سے بھی کریں، وہ اس کا جواب دینے کا پابند ہے۔ اگر سننے والا اس بات کرنے والے شخص کی بات کا جواب دینے کی بجائے تہذیب کے ہاتھوں مجبور ہو کر محض مسکرا کر خاموش ہو رہے، تو وہ اسے آزادی اظہار کا مخالف سمجھتے ہیں۔ کسی وجہ سے ان دوسری قسم کے لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ساری دنیا پر یہ فرض ہے کہ اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر ان کی ذہنی تربیت کرے اور ان کے خلجان دور کرے۔
کاش ان کو یہ بات سمجھ آ جاتی کہ ایک خاص حد سے آگے جا کر تو والدین اور اساتذہ تک ایسی تربیت سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور ایسے نابغوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔
ہر دو طرح کے حضرات کو خبر ہووے کہ آزادی اظہار آپ کو اپنی بات کہنے کی اجازت دیتی ہے، مگر دوسرے شخص کو آپ کی بات کو نظرانداز کر کے اپنی رائے قائم کرنے کی اجازت بھی دیتی ہے۔ آپ اپنی کتاب میں جو چاہے لکھیں، مگر آپ کی کتاب کا جواب لکھنا دوسروں پر لازم نہیں ہے، اور نہ ہی آپ کی کتاب کے اقتباسات اپنی کتاب میں شامل کرنا دوسروں پر فرض ہے۔
ان افراد کو دیکھ کر یہی خیال آتا ہے کہ یا تو یہ خود کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جب یہ بات شروع کریں تو ساری دنیا ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھ جائے، یا پھر ان کو اپنی فہم و دانش کے متعلق کوئی شدید قسم کی غلط فہمی ہے۔ یا پھر یہ کسی وجہ سے دوسرے تمام انسانوں کو اپنا برخوردار یا بزرگ سمجھے بیٹھے ہیں۔
حضرات اپنی بات اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر کریں۔ اگر بات معقول ہو گی تو سننے والے خود ہی جمع ہو جائیں گے۔ اگر بات معقول نہیں ہو گی، تو سننے والے نہیں سنیں گے۔ اور اگر بات بہت ہی نامعقول ہو گی، تو پھر لوگوں کا مجمع لگ جائے گا۔
استاد محبوب نرالے عالم کو سننے والے بہت ہوتے ہیں۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).