حالتِ جنگ میں پلے بڑھے افغانستان کے بچوں کی کہانیاں، اینڈریو کویلٹی کے کیمرے کی زبانی


فوٹوگرافر اینڈریو کویلٹی نے فلاحی ادارے سیو دا چلڈرن کے ساتھ افغانستان کا سفر کیا اور جنگ سے متاثرہ بچوں کی تصاویر بنائیں۔

ان پورٹریٹ تصاویر کی سیریز میں بچے اپنے پیاروں سے بچھڑنے، بارودی سرنگوں سے ہونے والے جسمانی زخموں اور جنگ کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑنے کی داستانیں بیان کرتے ہیں۔

ملک میں جاری خانہ جنگی کے باوجود یہ بچے مستقبل کے لیے امید اور عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے بچے اب فلاحی ادارے کے زیرِ انتظام تعلیمی اور تربیتی پروگراموں کا حصہ ہیں۔

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2018 گذشتہ 10 سالوں کے دوران افغانستان میں بچوں کے لیے سب سے خطرناک سال تھا۔

نوریا

نوریا

Andrew Quilty / Save the Children

15 سالہ نوریا اور ان کے خاندان کو ان کے قصبے پر مسلح گروہوں کے حملے کے بعد اپنے علاقے سے بھاگنا پڑا تھا۔ اب وہ مزار شریف میں رہتی ہیں جہاں وہ ایک ایسے سکول میں داخل ہیں جو انھیں پیشہ ورانہ تربیت دیتا ہے۔

نوریا بتاتی ہیں: ’جب انھوں نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو راکٹ ہمارے ہمسائیوں کے گھر آ کر گرا اور وہ سب ہلاک ہو گئے۔ پھر ہمارے گھر کو آگ لگ گئی اور ہمیں بھاگنا پڑا۔‘

’جن دوستوں کے ساتھ میں کھیلتی تھی، مجھے ابھی تک معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔‘

’میں ایک بہتر مستقبل کی امید کر رہی ہوں۔ سیکھنے کے لیے، اپنے خاندان کی مدد کرنے اور انھیں اس مشکل زندگی سے باہر نکالنے کے لیے۔ اور میں ایک ایسے مستقبل کی امید کر رہی ہوں جہاں کوئی جنگ نہ ہو۔‘

نوریا

Andrew Quilty / Save the Children

سیما

سیما

Andrew Quilty / Save the Children

11 سالہ سیما نے کابل میں ہوئے ایک خود کش حملے میں اپنے والد کو کھو دیا۔ اب سیما کو اپنے خاندانی گھر میں پردے کے ساتھ لٹکی ہوئی ان کی تسبیح دیکھ کر انھیں یاد کرنا اچھا لگتا ہے۔

سیما کہتی ہیں: ’ہمارے پاس اب بھی ان کی بہت سی چیزیں ہیں جیسے کے ان کی کار، کپڑے، گھڑی، جوتے۔ جب بھی ان چیزوں کو دیکھو، ہمیں رونا آ جاتا ہے۔ انھوں نے ہمیں ہر لمحے اتنا پیار دیا کہ ہم اکثر انھیں یاد کرتے رہتے ہیں۔‘

میں دنیا بھر کے طاقتور لوگوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ وہ جنگ کو روکیں اور امن لائیں، کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ دوسرے بچے اپنے والد کو کھو دیں۔

سیما

Andrew Quilty / Save the Children

نوید

نوید

Andrew Quilty / Save the Children

نوید آٹھ سال کی عمر میں ایک بارودی سرنگ پر پاؤں رکھنے کے باعث اپنی ٹانگ سے محروم ہو گئے۔ وہ ایک مہینے تک ہسپتال میں داخل رہے اور انھیں زخموں سے صحت یاب ہونے میں چھ ماہ لگ گئے۔ نوید کی عمر اب 16 سال ہے اور وہ ایک سکول میں داخل ہیں جہاں انھیں پیشہ ورانہ تربیت دی جاتی ہے۔

نوید بتاتے ہیں کہ میں تقریباً ایک سال تک خواب دیکھتا اور محسوس کرتا رہا کہ میرے پاس اب بھی ٹانگ موجود ہے۔ میں اکثر محسوس کرنے کے لیے اپنے ہاتھ سے معائنہ بھی کرتا اور دیکھتا کہ ٹانگ موجود نہیں۔‘

’اگر کسی نے اپنی ٹانگ کھو دی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے پاس دماغ بھی نہیں رہا۔ دماغ کی مدد سے ہم اپنی پڑھائی اور سیکھنے کا عمل جاری رکھ سکتے ہیں، اور اپنے خاندان کا مستقبل روشن بنانے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔‘

نوید

Andrew Quilty / Save the Children

حبیبہ اور آریزو

حبیبہ اور آریزو

Andrew Quilty / Save the Children

تین سال پہلے دونوں بہنیں حبیبہ اور آریزو، اپنی والدہ کے ساتھ کابل میں ہوئے ایک خودکش دھماکے میں زخمی ہو گئی تھیں۔ 15 سالہ آریزو نے دھماکے دوران جو کچھ دیکھا، وہ ابھی بھی اس کے زیرِاثر اور صدمے کا شکار ہیں۔ اس لیے 14 سالہ حبیبہ ان کا خیال رکھتی ہیں۔

اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے حبیبہ بتاتی ہیں: ’جب میں اٹھی اور اپنی آنکھوں کو کھولا تو میں نے بہت سی لاشیں دیکھیں اور میں نے سوچا کہ میں زندہ نہیں ہوں۔ وہ خوفناک تھا. میں اسے کبھی نہیں بھولوں گی۔‘

’جب بھی کوئی بڑی آواز ہو، [آریزو] خوفزدہ ہو جاتی ہیں کیونکہ دھماکے کے دوران انھوں نے جو آواز سنی وہ اس سے آج تک صدمے میں ہیں۔’

’مجھے میری بہن سے محبت ہے اور میں ان کے سبق میں ان کی مدد کرتی ہوں۔ میں ہر جگہ انھیں ساتھ لے کر جاتی ہوں۔ وہ مجھ سے عمر میں بڑی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ میں ان سے بڑی ہوں کیونکہ میں ان کا سہارا ہوں۔ ‘

حبیبہ اور آریزو

Andrew Quilty / Save the Children

خالدہ

خالدہ

Andrew Quilty / Save the Children

10 سالہ خالدہ نے کابل میں ہوئے ایک دھماکے میں اپنے بھائی کو کھو دیا۔ بھائی کو کھو دینے کے غم کے باوجود، وہ اب ایک کمیونٹی ایجوکیشن پروگرام کا حصہ ہیں۔

خالدہ کہتی ہیں: ’دو سال پہلے میرے بھائی جب کابل جا رہے تھے تو ایک دھماکہ ہو گیا اور وہ ہلاک ہو گئے۔ ہم اب بھی ان کا غم ساتھ لیے پھر رہے ہیں اور انھیں یاد کر کے روتے ہیں۔‘

’اس وقت ہم خوش تھے، سب خوش تھے۔ اب گھر میں کوئی خوش نہیں۔ مجھے ان کی یاد آتی ہے تو میں روتی ہوں اور مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔‘

’مجھے اس سے اور اسے مجھ سے پیار تھا۔ کبھی کبھار ہم کھیلتے تھے، ہمارا اہم کھیل دوڑ لگانا تھا۔ وہ گھر پر پڑھائی اور ہوم ورک میں میرے مدد کرتے تھے۔‘

خالدہ

Andrew Quilty / Save the Children

اینڈریو کویلٹی نے یہ تصاویر سیو دی چلڈرن کے لیے کھینچی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp