دنیا کو اسامہ نہیں ولید علی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے


سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد سے میں اس واقعے کے اثر سے خود کو نکال نہیں پارہا۔ نہ جانے کیوں؟ لیکن شاید زندگی میں پہلی بار میں وہ کیفیت سمجھ پارہا ہوں۔ جو ایک عام سے نوجوان کو انتہاپسند بنا دیتی ہے۔ آج شاید مجھے پہلی بار یہ احساس ہو رہا ہے کہ کس طرح امریکی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن بن گیا۔

کیسے برطانوی معاشرے میں پلا بڑا عمر شیخ اتنا جنونی ہوگیا کہ اس نے امریکی صحافی ڈینئل پرل کو بے دردی سے قتل کردیا۔

یہ لوگ انتہاپسندی کی اس حد تک کیسے چلے گئے۔ آج شاید وہ جذبات وہ احساس میں سمجھ پارہا ہوں۔ جس نے ان لوگوں کو اس نہج تک پہنچا دیا۔

یہاں ان تمام لوگوں کا ذکر کرنے کا مقصد ہر گز ان لوگوں کے کیے گئے کاموں کی وکالت کرنا نہیں نہ ہی میں ان لوگوں کے جرائم کا دفاع کررہا ہوں۔ میں صرف اس احساس کی بات کررہا ہوں۔ اس کرب کا ذکر کررہا ہوں۔ جس سے شاید اس وقت دنیا کا ہر مسلمان گزر رہا ہے

میں اس کیفیت کو بیان کرنا چاہتا ہوں جو ایک عام آدمی کو انتہا پسند بنادیتی ہے اور پھر وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ یہ وہی کیفیت ہے جو میں آج محسوس کررہا ہوں۔ کیوں کہ میں یہ بات سمجھ نہیں پارہا کہ کس طرح کوئی شخص اتنا بے رحم ہوسکتا ہے کہ نہتے نمازیوں پر اس بے دردی سے گولیاں چلادے۔

مسلمانوں سے کوئی اتنی نفرت کیسے کرسکتا ہے؟ ہم تو امن و محبت کے دین کو ماننے والے ہیں۔ ہم تو اس نبی کے پیروکار ہیں جن کا حسن اخلاق دیکھ کر ہی لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے تھے۔ پھر ہمارے خلاف کسی کے دل میں اتنی نفرت کیسے پیداہوگئی کہ وہ اس اقدام پر اتر آیا۔ آخر یہ نفرت کا بیج کس نے بودیا؟ کیا واقعی مسلمانوں کے خلاف کوئی عالمی سازش کی جا رہی ہے؟ کیا حق اور باطل کی جنگ کا وقت آچکا ہے؟ کیا میں اس جنگ کے لئے تیار ہوں؟

میں بس کرائسٹ چرچ واقعے کی خبریں پڑھتا جارہا تھا اور یہ تمام سوال میرے ذہن میں مسلسل گردش کررہے تھے کہ ایک ویڈیو میری نظر نے گزری جس نے مجھے اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا

میرا غصہ، خوف، بے چینی کی کیفیت۔ جو مجھے شاید انتہاپسندی کی جانب دھکیل رہی تھی۔ نفرت کی جانب دھکیل رہی تھی۔ اس ایک ویڈیو نے سب کچھ بدل دیا

یہ ویڈیو ولید علی کی تھی۔ ولید علی 40 سالہ مسلمان آسٹریلوی ہیں۔ جنہیں آسٹریلیا میں ٹی وی کے معروف چہروں کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ولید کرائسٹ چرچ واقعے کے بعد جب ٹی وی اسکرین پر آئے۔ تو وہ اتنے ہی غمگین تھے جتنا اس وقت کوئی بھی مسلمان ہوگا۔ اس ویڈیو میں درد اور افسوس ان کے چہرے پر صاف دکھ رہا تھا۔ لیکن ان کی زبان سے جو الفاظ ادا ہوئے وہ متاثر کن تھے۔ اب یہاں انورٹڈ کاماز میں جو کچھ میں لکھ رہا ہوں یہ ولید کے الفاظ ہیں

” میں ڈرا ہواہوں۔ کوشش کررہا ہوں مایوسی کے اندھیروں سے نکلنے کی۔ اگرمیں یہ کہوں کہ کرائسٹ چرچ کے سانحے نے مجھے چونکا دیا ہے تو یہ جھوٹ ہوگا۔ کیونکہ جو کچھ پچھلے سالوں میں ہوتا رہا ہم سب جانتے تھے یہ ہونے والاہے۔ لیکن اس سب سے زیادہ خوفناک بات جس نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ وہ اس واقعے کہ ذمہ داروں میں سے ایک کا مینی فیسٹو تھا۔ اس لئے نہیں کہ یہ الجھا دینے والا تھا بلکہ اس لئے کیونکہ یہ جملے بہت سنے سنے تھے“۔

ولید علی نے اس کے بعد ایک بیان پڑھ کر سنایا۔ جو آسٹریلوی سینیٹر کی جانب سے کرائسٹ چرچ حملے کے بعد جاری کیا گیا تھا۔ اس بیان میں اسلام کو فاشزم سے جوڑنے اور کرائسٹ چرچ واقعے کا دفاع کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور جو الفاظ استعمال ہوئے تھے ان کی تشریح کرنا یہاں مناسب نہیں۔ اس لئے ان الفاظ کو میں خود سے حذف کررہا ہوں۔ خیر ولید نے یہ جملے پڑھے اور اپنی بات جاری رکھی

”میں جانتا ہوں یہ بیان کس کی جانب سے سامنے آیا۔ لیکن میں یہاں ان کا نام نہیں لوں گا۔ البتہ آسٹریلیا کی تمام جماعتوں نے اس بیان کی مذمت کی ہے۔ اور اس بیان کی مذمت کرنے والوں میں اس جماعت کے لیڈربھی شامل ہیں جنہوں نے کچھ دن پہلے اسلام کو بیماری قرار دیا تھا اور آسٹریلیوی سرزمین سے اس کے خاتمے کی بات کی تھی۔ میں ان لوگوں سے بس یہ ہی پوچھنا چاہوں گا۔ یہ لوگ اب کیوں اپنے بیان تبدیل کررہے ہیں؟

کبھی یہ مت سمجھیں کہ یہ کوئی کھیل ہے دہشتگردی کبھی اپنے باقاعدہ وکٹمز نہیں چنتی۔ لیکن جو کچھ ہم لوگوں کو الگ کرنے کے لئے، انہیں لڑانے کے لئے، انہیں گروپس میں تقسیم کرنے کے لئے کہتے ہیں۔ اس سب کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ آپ بھلے بندوق اٹھانے والوں میں شامل نہ ہوں لیکن ان نتائج کے ذمہ دار آپ بھی ہوں گے ”

نفرت پھیلائیں گے تو نتائج سب کو بھگتنا ہوں گے۔ ولید علی کے اس پیغام کے ساتھ ہی اسٹوڈیوز میں تالیاں بجیں اور ویڈیو ختم ہوگئی۔ لیکن میرے ذہن میں آنے والی سوچیں ختم نہیں ہوئیں۔ اور مجھے کوئٹہ میں چرچ پر ہونے والے حملے کی یاد آگئی۔ کیسے 2017 میں چند دہشت گردوں نے ہمارے معصوم مسیحی بھائیوں کو بے دردی سے قتل کیا۔ وہ بھی تو نہتے تھے۔

مجھے 2013 میں پشاور میں چرچ پر ہونے والے خود کش حملوں کی یاد آئی۔ جس میں 127 کے قریب افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ وہ بھی تو ایسے ہی عبادت کررہے تھے۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جنہیں میں اپنے ہوش میں ہوتے دیکھا ہے اور ان تمام واقعات کے ذمہ داروں نے مذہب کا نام استعمال کیا

ہم وہی سب کاٹ رہے ہیں۔ جو بویا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ سب کسی عالمی سازش کے تحت ہورہا ہولیکن اس سازش کو منطق انجام تک پہنچانے کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں ہم خود ہیں۔

لیکن اب سوچ بدلنے کا وقت ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا اور فیصلہ کرنا ہوگا۔ اپنے درست ہیروز کو چننا ہو گا کیوں کہ اس وقت ہمیں ایک اور اسامہ بن لادن یا ایک اور عمر شیخ محمد کی نہیں۔ بلکہ ولید علی جیسے بہت سارے لوگوں کی ضرورت ہے۔ جو نفرتیں پھیلانے کے بجائے ان کے خاتمے کی بات کرسکیں۔ جو اسلام کا صحیح چہرہ دنیا کو دکھاسکیں۔ کیوں کہ نفرت کو نفرت سے نہیں محبت سے ہی مات دی جاسکتی ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).