پی ایس ایل: بلوچستان کی پسماندگی کیسے کیش کی جاتی ہے؟


اس بات میں کو ئی شک نہیں کہ بلوچستان ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے۔ یہاں کے عوام کو دیگر بنیادی سہولیات تو درکنا ر پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ یہاں پینے کے پانی کے لئے بھی لوگ سینکڑوں کلو میٹر مارچ کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھاگ سے ”بھاگ کو پانی دو“ کے نام سے نوجوانوں نے بھاگ تا کوئٹہ لانگ مارچ شروع کیا جو کئی دنوں بعد کوئٹہ پہنچا۔ مارچ کے باوجود عوام کو پانی نہ مل سکا۔ مارچ کے شرکاء نے صوبائی حکومت کو 28 مارچ کا الٹی میٹم دیا ہے۔ تحریک کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ 28 مارچ تک پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو بلوچستان اسمبلی کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ لگائیں گے۔

یہ تو تھا تصویر کا ایک رخ۔ اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ بعض لوگوں نے بلوچستان کی پسماندگی کو جس طرح کیش کیا ہے اس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ مختلف این جی او ز بلوچستان کی پسماندگی کا رونا رو کر کروڑوں روپے کے فنڈز حاصل کرتی ہیں لیکن عملی کا م صوبے کے عوام کو دکھا ئی نہیں دیتا۔ کچھ ا ین جی اوز ضرور کام کر رہی ہیں لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ایک این جی او کے حوالے سے کسی نے بتا یا کہ تنظیم کے بعض افسران نے کوئٹہ آنے کا اعلان کیا تو کوئٹہ میں کام کرنیوالے تنظیم کے ارکان نے انہیں روکا اور بتا یا کہ کوئٹہ میں امن وامان کے حالات خراب ہیں۔ انہوں نے پھر بھی دورہ منسوخ کرنے سے انکار کیا۔ افسران جب کوئٹہ پہنچے تو کوئٹہ ائیرپورٹ سے لے کر سرینا ہوٹل تک ان کی گاڑیاں تین یا چار تبدیل کی گئیں۔ انہیں یہ دکھایا گیا کہ کوئٹہ کے حالات کس قدر خراب ہیں۔ یہ سب اس لئے کیا گیا کہ کہیں اعلیٰ افسران کو ہماری کرپشن کے متعلق ثبوت نہ ملیں۔

صوبے کی پسماندگی کیش کرنے میں اخبار مالکان بھی کسی سے کم نہیں۔ وہ بھی بلوچستان کی پسماندگی بتا کر بڑے بڑے اشتہارات وصول کرتے ہیں۔ لیکن ان کے اپنے اخبارات میں کام کرنیوالے ملازمین کو زیادہ سے زیادہ سات ہزار روپے کی تنخواہیں ملتی ہیں۔ ملازمین جب تنخواہیں بڑھانے کی بات کرتے ہیں تو اشتہارات کی کمی کا بہانہ بنا کر ملازمین کو ٹال دیا جا تا ہے، ماہانہ ہزاروں سینٹی میٹر اشتہارات حاصل کرنے کے باوجود کوئٹہ کے اخبار ما لکان کے حالات ابھی تک اچھے نہیں ہوئے ہیں۔ صوبے میں دوسری صنعتیں نہیں ہیں اسی لئے اخباری صنعت سے وابستہ افراد خاموش ہوکر پرانی اور کم تنخواہ پر کام جاری رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے لئے بھی بلوچستان کی پسماندگی کسی فائدے سے کم نہیں۔ ارکان اسمبلی اپنے حلقوں کے لئے فنڈز حاصل کرتے ہیں۔ فنڈز کہاں خرچ ہوئے ایسا سوال پوچھنے کا کسی کو حق نہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف سے ایک سیاسی لیڈر ملے۔ ان کی وزیراعظم سے کیا بات ہوئی وہ تو معلوم نہیں ہوسکی البتہ چند ماہ بعد دوسری جماعت کے رہنما نے کہا کہ ملاقات ذاتی مفادات کے حصول کے لئے تھی۔

بلوچستان کے بعد بلوچستان کے نام کو اب دوسرے صوبے کے لوگوں نے بھی ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ پاکستان سپرلیگ شروع ہوئی تو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے نام سے بھی ٹیم بنی۔ لیگ کے پہلے ایڈیشن میں کوئٹہ کے صرف ایک پلیئر کو شامل کیا گیا۔ شروع کے میچز میں تو کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے بسم اللہ جان کو نہیں کھلا یا گیا۔ سوشل میڈیا پر صارفین کی شدید تنقید کے بعد کوئٹہ کے پلیئر کو تین میچز میں کھلایا گیا۔

اس کے بعد تین ایڈیشن مزید ہوئے لیکن کسی بھی میچ میں کوئٹہ کا پلیئر کا شامل نہیں ہوسکا۔ لیگ کے دوران ایک ایسا میچ بھی آیا کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف کھیلنے والی پشاور زلمی کی ٹیم میں تو بلوچستان کا پلیئر شامل تھا لیکن کوئٹہ کی ٹیم میں کوئٹہ یا بلوچستان کا کوئی پلیئر شامل نہیں تھا۔ حالیہ سیزن میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے کوئٹہ سے جلات خان کو اپنی ٹیم میں شامل کیا لیکن کسی ایک میچ میں بھی نہیں کھلایا۔

معین خان کے بیٹے کو میچ کھیلنے کا موقع ملا لیکن کاؤٹنی اور ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے والے جلات خان کو ایک میچ کھیلنے کا موقع بھی نہیں مل سکا۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ڈومیسٹک اور کاؤنٹی کھیلنے والے جلات خان کو ٹیم مینجمنٹ نے بار ہواں کھلاڑی بھی نہیں بنایا لیکن حیدر آباد کے محمد حسنین کو قومی ٹیم میں شامل کرا دیا۔

لاہور قلندرز کی انتظامیہ نئے ٹیلنٹ کی تلاش کے لئے سار ا سال کام کرتی ہے۔ وہ پاکستان کے چپے چپے میں جا کر نئے ٹیلنٹ کو سامنے لاتی ہے۔ کئی سال سے جاری محنت کے بعد انہوں نے قومی کرکٹ ٹیم کو ایک سے بڑھ کر ایک کھلاڑی دیا ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ نے بھی ٹیم کو اچھے پلیئرز دیے۔ تینوں صوبوں سے نیا ٹیلنٹ سامنے آیا لیکن بلوچستان کا ٹیلنٹ اب تک سامنے نہیں لایا جاسکا۔ یہی حال رہا تو مزید کئی سالوں تک ہم کوئٹہ کے ٹیلنٹ کو انٹرنیشنل سطح پر دیکھ نہیں سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).